دہشت گردی کا خاتمہ: کہاں سے شروع کریں؟

دہشت گردی اور جرائم کی موجودہ لہر کو صرف ایک انتظامی مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے‘ جس نے پولیس کی نااہلی سے جنم لیا اور جسے صرف خوفناک سزائوں کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہو۔ جرائم ایک مخصوص معاشی، سماجی اور ذہنی فضا میں پلتے، بڑھتے اور پھیلتے ہیں اور جب تک انہیں جڑ سے نہ اکھاڑا جائے، سخت ترین سزائیں بھی ان پر بے اثر رہتی ہیں۔ سعودی عرب اس کی بہترین مثال ہے، جہاں قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے‘ لیکن اس سے سمگلنگ کا طوفان رکا یا تھما نہیں بلکہ ہیروئن مافیا نے سمگلنگ کے نئے راستے تلاش کر لیے۔ اب وہ مافیا عمرہ کے بہانے ایسی حاملہ عورتوں اور کمسن بچوں پر ہیروئن ڈھونے لگا‘ جنہیں وہاں کے قانون کے مطابق سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی۔ ''تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کے مصداق بالآخر پاکستانیوں کے لیے عمرہ کا ویزا عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔ اگر معاملہ اسی طرح چلتا رہتا تو کسی دن حج کا ویزا بھی بند ہو جاتا۔
دن دیہاڑے ڈاکہ زنی، قتل اور خواتین کے ساتھ زیادتی ایسے شرمناک واقعات نے اس وقت ہر شہری کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ مجرموں کے منظم گروہوں کے ہاتھوں کسی کی زندگی محفوظ رہی ہے نہ عزت اور سرمایہ۔ ایک زمانہ تھا، پاکستان میں صرف غریب کی حالت ناگفتہ بہ ہوا کرتی تھی، آج امیر کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ ایک بھوک سے نہیں سوتا تو دوسرا خوف سے۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے تک قتل اور ڈکیتی ایسی وارداتوں پر سماج کے ٹھکرائے ہوئے عناصر کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی۔ آج ان جرائم میں بے روزگار، بے سمت اور معاشی لحاظ سے اُکھڑا ہوا نوجوان طبقہ ملوث ہے۔ نئی نسل کے پاس روزگار کے ذرائع موجود ہیں‘ نہ زندگی گزارنے کا کوئی اور وسیلہ یا راستہ۔ ایم اے پاس نوجوان چپڑاسی بھرتی ہونے کو دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور ادھر ہمارے حکمران 'گولڈن شیک ہینڈ‘ ایسی پالیسیوں کے ذریعے لوگوں سے روزگار چھیننے میں مصروف ہیں۔ علم کی کوئی عزت رہی ہے نہ انسان کی کوئی توقیر۔ اس پر مستزاد یہ کہ معیار زندگی اتنی بلندی پر جا پہنچا ہے جسے قائم رکھنا درمیانے طبقے کے لیے ممکن نہیں رہا۔ جس سرعت سے بے روزگاروں کی فوج میں اضافہ ہو رہا ہے، اُسی حساب سے منظم گروہوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ لاقانونیت کی یہ ہولناک روش بڑے شہروں سے نکل کر اب چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبوں تک آن پہنچی ہے۔
اس سال کے ابتدائی دنوں کا ذکر ہے۔ میں اپنے گائوں (درکالی شیرشاہی) گیا ہوا تھا۔ دوپہر کے وقت یہ خبر پھیل گئی کہ قریبی سڑک پر ڈاکوئوں نے ایک نوجوان کو قتل کر دیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جائے واردات سے دو تین کلومیٹر پرے لاہور کے نوجوانوں کا ایک مسلح گروہ پکڑا گیا۔ یہ نوجوان کلر سیداں ایسے دور دراز قصبے کا بینک لوٹنے کی غرض سے یہاں آئے تھے۔ انھوں نے واردات سے قبل ایک مقامی ڈرائیور سے سوزوکی کار چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت کرنے پر اسے وہیں گولی کا نشانہ بنا دیا۔ یہ واقعہ اس خوفناک رجحان کا نمائندہ ہے، جس نے معاشی بدحالی اور بے روزگاری کے شکم سے جنم لیا اور اب ایک بپھرے ہوئے طوفان کی مانند سارے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ جس ملک میں وزیر اعظم کے چچا زاد بھائی سے ڈاکو گاڑی چھین لے جائیں، وہاں ایک عام شہری کا کیا حشر ہو گا؟ بے چارہ عام آدمی جو نہ تو نظاموں کے جال بُنتا ہے اور نہ حکومتی قوانین بناتا ہے۔ کیا فالج زدہ پولیس اور دوسرے نیم جان ریاستی ادارے اسے تحفظ مہیا کر سکتے ہیں؟ اس مایوس کن صورتحال میں ایک عام شہری کیا کرے اور کہاں جائے؟ 
میرے خیال میں اجتماعی دکھوں اور المیوں کا علاج بھی اجتماعی طور پر ہی کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ ڈاکہ زنی کی وارداتوں سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو اپنے اپنے محلے، گلی کوچے، بازار اور دکانوں کے کٹڑے میں مشترکہ دفاعی کمیٹیاں بنانی چاہئیں۔ انہیں آپس میں خطرے کے الارم کا کوئی ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ جہاں ڈاکہ پڑے وہاں لوگ فوراً مدد کو پہنچ سکیں۔ مثلاً دکاندار کی میز تلے کوئی ایسا بٹن لگا ہو جسے پائوں سے دبا کر وہ دوسرے دکانداروں کو مطلع کر سکے۔ اس طرح گھروں کا دوسرے گھروں سے رابطے کا کوئی کوڈ یا ذریعہ ہو۔ ڈاکو اور چور کے پائوں نہیں ہوتے۔ وہ عوامی ردِ عمل کا کبھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گویا پولیس اور حکومت پر انحصار کرنے کے بجائے باہمی اشتراک پر بھروسہ کیا جائے۔ 
یہ بات میں ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ ڈکیتیوں میں ملوث بہت سے نوجوان پیشہ ور چور، قاتل یا ڈاکو نہیں۔ ایسے نوجوانوں کو اس حال تک پہنچانے کی ذمہ داری اس ملک کے ان سب حکمرانوں کے سر پر عائد ہوتی ہے، جو پچھلے پینسٹھ برسوں کے دوران اپنی تجوریاں بھرتے رہے، اپنے بینک بیلنس اور اپنی جائیداد میں اضافہ کرتے رہے لیکن انہوں نے عوام اور عوام کے بچوں کے لیے کچھ نہیں بنایا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے تو ہمیں موجودہ ناہموار معاشی اور سماجی نظام کو بدلنا ہو گا اور یہی اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔ 
فرقہ وارانہ دہشت گردی ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ یوں تو سارے ملک میں مسلمان بستے ہیں، لیکن پنجاب پر ملائیت کی ایسی نوازش ہے کہ آج ہمارے ہاں کوئی مسجد محفوظ ہے نہ امام بارگاہ۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ موٹر سائیکل سوار گھر کے باہر لگی تختی پڑھ کر ہی اپنا کام کر جاتے ہیں۔
اہل سنت اور اہل تشیع کوئی نئے مکاتب فکر نہیں۔ ان کے مابین عقیدے کا اختلاف بھی نیا نہیں۔ اس اختلاف کے باوجود وہ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے چلے آئے ہیں۔ مختلف فرقوں کے درمیان موجودہ طرز کی دہشت گردی کا تاریخ میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اس صورتحال کے پیچھے بیرونی ممالک کا ہاتھ بھی ہو گا‘ لیکن اس کا اصل منبع ہماری نظریاتی کشمکش میں پوشیدہ ہے۔
مذہب خدا اور بندے کے درمیان روحانی اور قلبی تعلق کا نام ہے۔ ہم نے اس ذاتی تعلق کو ریاست اور خدا کے درمیان رشتے میں بدلنے کی کوشش کی۔ جب ریاست کا مذہب اسلام ہو گا تو اگلا سوال یہ اٹھے گا کہ کون سا اسلام؟ کس فرقے کی شریعت اور کس کی فقہ؟ مذہب کو سیاست اور ریاست کے اکھاڑے میں اتارنے کا منطقی نتیجہ فرقہ وارانہ نفرتوں کی شکل میں نکلا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنا رخ نہ بدلا تو دوسرے کے بعد تیسرا باب شروع ہو جائے گا۔ اس صورتحال کا واحد حل یہ ہے کہ اسلام کے مقدس نام پر سیاست کے گندے کھیل کو ممنوع قرار دیا جائے۔ ایسے مذہبی مکاتب اور تنظیموں پر پابندی عائد کر دی جائے جو سماج میں نفرت پھیلانے اور مخالفین کا گلا کاٹنے کی تربیت دیتے ہوں۔
اور اب آئیے لسانی، علاقائی اور نسلی کشمکش کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی کے پس و پیش کا جائزہ لیتے ہیں۔ یحییٰ دور میں مکتی باہنی کا قیام، بھٹو دور میں نیپ کی بغاوت، ضیاء کے زمانے میں الذوالفقار کا وجود، کراچی کے فسادات اور پنجاب میں بموں کے دھماکے۔ یہ دراصل ایک ہی کہانی کے مختلف پہلو ہیں۔ کسی ملک کے اندرونی اختلافات بیرونی قوتوں کے لیے مداخلت کی کھلی دعوت کے مترادف ہوا کرتے ہیں۔ مختصراً یوں کہہ لیجیے کہ اس قسم کی سیاسی دہشت گردی اور بیرونی سرپرستی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
بالخصوص اس صورت میں جب 'جہاد‘ کے عنوان سے ہم دوسرے ممالک میں مداخلت کریں گے تو آگے سے اس کا جواب ضرور آئے گا۔ کبھی افغانستان کی 'خاد‘ کے نام سے اور گاہے ہندوستان کی 'را‘ کے عنوان سے۔ بین الریاستی مداخلت یکطرفہ کھیل نہیں ہوتا۔ فٹ بال دونوں پائوں سے دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اس قسم کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ملک کے اندر سیاسی مصالحت کی فضا پیدا کی جائے اور ملک سے باہر بین الریاستی تشنج کو ختم کیا جائے۔ جب تک پاکستان اور بھارت بین الریاستی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کمیشن نہیں بناتے، بسوں، اڈوں اور دوسری پبلک جگہوں پر غریب آدمی کا جسم فضا میں بکھرتا رہے گا۔ 
گویا ہم اس وقت لاقانونیت اور دہشت گردی کی تین مختلف لہروں کی زد میں ہیں۔ ان میں سے پہلی کا پس منظر معاشی اور سماجی ہے۔ دوسری کا مذہبی اور فرقہ وارانہ، اور تیسری کا نسلی اور لسانی۔ ان تینوں طرح کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک وسیع تر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں