خدا کے فضل سے پاکستان ایسا انوکھا ملک ہے کہ جہاں سیاستدانوں کی تعداد ووٹروں سے ہرگز کم نہیں۔ محلے کا دُکاندار سودا تولتے ہوئے مہنگائی پر تین حرف بھیجتا ہے۔ اِسی دوران سبزی پر پانی کا ٹھنڈا چھینٹا دیتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہے کہ اگر یہ حکومت صرف تین دن کے لیے اُسے دے دی جائے تو خدا کی قسم وہ سارے حکمرانوں کو سیدھا کر کے رکھ دے گا۔ رکشہ ڈرائیور اُترنے والی سواری سے تین گنا زائد رقم وصول کرنے کے بعد بھی تین دن کیلئے حکومت لینے کا خواستگار ہو گا تاکہ وہ اُن بدمعاشوں کی حکومت کو سیدھا کر سکے جو قوم کو لوٹ کر کھا گئے ہیں۔الغرض ،اگر آپ کسی ایسے سیاستدان سے پوچھیں جو ابھی ابھی اپنے پانچ سال پورے کر کے واپس لوٹا ہو، وہ بھی یہی کہے گا کہ اگر آپ مجھ اکیلے کو صرف تین ماہ کا مزید عرصہ دے دیتے تو آج پاکستان کا نقشہ بدل کر رکھ دیتا۔ دراصل اس رویے کے پسِ پُشت ہماری جاہ طلب اور دولت پسند طبیعت موجزن ہے۔ ہم کسی چیز کا علم رکھتے ہوں یا نہیں، کچھ جانتے بوجھتے ہوں یا نہیں، پوری دنیا پر حکمرانی کا شوق ضرور رکھتے ہیں۔ سبھی اقوامِ عالم کو جاہل اور اپنے آپ کو اُن سے برتر سمجھتے ہیں۔ ہمارے اس شوقِ حکمرانی میں علامہ اقبال کے قوم پرستانہ اشعار نے خاصی مہمیز دی ہے۔ اگر کوئی شاگرد اپنے استاد کے حق میں دوچار نعرے لگا بیٹھا تو استاد کے ذہن سے فوراً پوری دنیا کو منقلب کرنے کا فلسفہ شعلہ بار ہو گیا؛حالانکہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ استادِ محترم ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی باقی ماندہ زندگی لائبریریوںمیں بیٹھنے اور اپنی زندگی کے تجربوں پر مبنی اہم شاہکار لکھنے کا کشٹ اُٹھاتے۔ ان کی یہ کتاب کسی قسم کی کوڈ ڈکشنری ہوتی یا پھر سائنسی علوم کی ایک ایسی تلخیص جو بچوں کے لیے نئے علوم کا پُل ثابت ہوتی مگر جائیں تو جائیں کہاں؟جس کے نام کا نعرہ لگا وہی اُچک کر اُشتر پر سوار ہو گیا۔ جب ایٹمی دھماکے ہوئے تو اخبارات میں جیسے ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ایک جانب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حامی نعرہ زن تھے کہ ایٹم بم ’جنابِ حضرت‘ کی ایجاد ہے اور دوسری جانب اُن کے مخالف جو اس نئی ایجاد کو ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے نام لکھنے میں مشغول تھے، انھوں نے نعروں سے سر پر آسمان اُٹھا رکھا تھا۔ شاید ہی دنیا کی کسی ایجاد پر اتنا تنازع اور تنائو اُٹھا ہو۔ ایٹم بم والے واقعے کے کوئی بائیس تیئس برس بعد گزشتہ روز اخبارات میں ایک نیا اشتہار نظروں سے گزراجس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک میزائل پر بیٹھے فضا میں اُڑ رہے ہیں اور ووٹ کے لیے عوام سے اپنی حمایت طلب کر رہے ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ایٹم بم کو اپنی تخلیق ظاہر کرتے رہے ہیں لیکن آج کے اس اشتہار کا موضوع ایٹم بم پر کسی کی ملکیت سے متعلق نہ تھا بلکہ یہ اخباری خبر منڈی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ووٹوں کے حوالے سے تھی۔ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی کسی دن میدان میں آن کودیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر غلط بیانی کا الزام عائد کر دیں…کہ ہمارے ہاں سچ اور جھوٹ دونوں ہی بکتے ہیں۔ ہندوستان کے ایٹم بم بنانے والے ڈاکٹر عبدالکلام کو ہندوستان نے جبراً ایک بار صدرِ مملکت کی گدی پر بٹھایا مگر بارِ دگر انھوں نے صدرِ مملکت بننے سے مکمل طور پر انکار کر دیا کیونکہ اگر کسی نے ایٹم بم بنا لیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تھر کے کوئلے سے بجلی بھی کشید کر لے گا۔ سائنس کی دنیا آج اتنی وسیع اور فراخ ہے کہ دن میں ہزاروں چھوٹی موٹی ایجادات دنیا کے ہر ملک میں رجسٹر ہوتی ہیں۔ کوئی تن تنہا بڑا یا چھوٹا کارنامہ سرانجام دے مگر وہ اس بنیاد پر صدر بننے کا خواہشمند نہیں ہو سکتا۔ سیاست میں بھاشن دینے کی آرزو پر تو کوئی پابندی نہیں کہ جب چاہا کوئی تقریر کر ڈالی۔ اگر بے پناہ ترقی پر کسی کو انعام مل سکتا تو پھر وہ بے چارہ چودہ سالہ غریب لڑکا جو امریکہ کے ایک ریلوے اسٹیشن پر اخبار بیچا کرتا تھا اور جس نے دنیا کو چودہ ایجادات سے نوازا، اس کو کم از کم امریکہ کا صدر تو بننا چاہیے تھا۔اور یاد رہے ان ایجادات میں بجلی بھی شامل تھی جس کے بغیر آج بھی کسی مشین کو حرکت میں لانے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس بے چارے یتیم بچے (ایڈیسن) نے تو یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہ کبھی ریلوے انجن کا اشتہار سر پر اُٹھائے وائٹ ہائوس میں داخل ہونے کی خواہش پوری کرے گا۔اور اِدھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے کہ ایک عہدے سے ہماری جان چھوٹ نہیں پاتی کہ دوسرے عہدے کا وزن اپنے سر پر لادے مبارکبادیاں وصول کرتے دفتر سے واپس لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اُن سب لوگوں پر پابندی لگا دینی چاہیے جن کی عمریں ریٹائرمنٹ سے کہیں آگے نکل چکی ہیںاور اب بھی وہ کسی نہ کسی عہدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو قوم پرستی کا دعویٰ ہے تو پھر وہ اس ملک کی آخری ہڈیاں بھی چبانے کی بجائے کم از کم اس کام کو کسی اجرت کے بغیر مفت سرانجام دے۔ کسی بھی شعبے میں کام کرنے والے شخص کو کسی قسم کا اعزازیہ نہیں ملنا چاہیے۔ اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے تو سبھی خوش و خرم ہیں مگر قوم کے لیے مفت کام کرنے کو نہ کوئی حاضر ہے اور نہ تیار!!