الیکشن سے پہلے…

مذہب کے نام پر تشدد کی تخم ریزی جنرل ضیاء الحق کے ناعاقبت اندیش دور میں ہوئی اور اِس تناور درخت کی نمو اور پرورش کا سہرا بھی اُنہی کے سر جاتا ہے۔ اُنہی نے امریکہ کے سایۂ عاطفت کے تلے جنگجوئوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی، جسے افغانستان میں جہاد کے زیرِ عنوان استعمال کیا جاتا رہا۔ اِس برادر کُشی کے نتیجے میں افغانستان کی ایک ملین سے زائد آبادی ’قتال‘ کا شکار ٹھہری۔ پانچ ملین کے لگ بھگ افغان بے گھر، دربدر اور آوارہ ہو گئے۔ یہ جنگجو کسی نہ کسی نام سے آج تک افغانستان میں برسرِ پیکار چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان نے اُن کی میزبانی کے فرائض بھی سر انجام دیے اور اُن کا سرپرستِ اعلیٰ بھی بنا رہا۔ اِن خدمات کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی چنگاری، شدت پسندی کے الائو میں ڈھل گئی اور مختلف فقہوں اور فرقوں کے مسلّح لشکر ملک کے طول و عرض میں دندنانے لگے اور آج اس مسلّح کلچر نے ریاست کے وجود کو ایک سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر دسمبر 1980ء میں روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں اُتاری تھیں تو دسمبر 2001ء میں امریکہ نے یہی غلطی دہراتے ہوئے افغانستان میں اپنی افواج اُتار دیں۔ اِس امریکی فیصلے سے منطقے میں ایک نیا مسلّح فساد برپا ہو گیا۔ پچھلے بارہ سالوں سے پاکستان اِسی فساد کی آگ میں جل رہا ہے۔ خود کش بمباروں کے حملوں سے نہ تو ملک کا کوئی شہر، گلی یا محلہ بچ سکا اور نہ کوئی مسجد، امام بارگاہ یا جنازہ گاہ محفوظ رہ پائی۔ اب تک کئی ہزار بے گناہ لوگ دہشت گردی کا نوالہ بن چکے ہیں۔ اس جنگ سے پہنچنے والا جانی اور مالی نقصان پاکستان اور ہندوستان کے مابین ہونے والی دونوں جنگوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت کا یہ عالم ہو چکا کہ جو کوئی خیریت سے اپنے گھر واپس پہنچ گیا، اُس نے شکرانے کے نفل ادا کیے۔ بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دہشت گردوں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں رہا۔ لاقانونیت کو کھُلی چھٹی مِل گئی ہے اور ریاست کے ادارے مکمل طور پر زمین بوس ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کے اِس آتشیں طوفان کے پسِ پردہ ملک کی اندرونی قوتیں بھی سر گرم ہیں اور غیر ملکی بھی! ایسے لوگ جو ملک میں چین، امن، سکون اور ترقی نہیں چاہتے، وہی اِس تخریب اور خلفشار کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن ہماری بدبختی صرف دہشت گردی تک ہی محدود نہیں، بلکہ معیشت کا پہیہ بھی آگے کی بجائے، پیچھے کی جانب لڑھک رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ روزمرّہ کا معمول بن چکی ہے۔ اِن حالات میں نئے کارخانے تو کیا خاک لگتے‘ پہلے سے موجود صنعت بھی دمِ واپسیں پر ہے۔ سرکاری محکموں یا این جی اوز (NGOs)کے سوا، کسی کو کہیں روزگار میسر نہیں۔ مہنگائی کا عفریت جیسے قوم کے معدے کو بھی چاٹ گیا ہو۔ قوم کا ایک وسیع طبقہ بڑی تیزی کے ساتھ غربت کی لکیر سے نیچے کی جانب پھسل رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے کیمروں کے سامنے ایک دوسرے سے دست و گریباں سیاستدان قوم کو تفریح اور تفننِ طبع کا سامان تو وافر مہیا کر رہے ہیں‘ لیکن اس طرح قوم کی گھمبیرتا کا کوئی شافی حل ڈھونڈنا ان کے لیے ناممکن نظر آتا ہے! ایک دوسرے پر الزام تراشی سے الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز کا تھیٹر تو بخوبی چل رہا ہے‘ لیکن اِس طرح سرِ بازار قوم کے دقیق مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔ ملک کے مسائل اِس قدر خوفناک حالت میں پہنچ چکے ہیں کہ نہ اُنہیں تن تنہا کوئی ایک جماعت حل کر سکتی ہے اور نہ کوئی ایک ادارہ! شاید یہ ملک اور قوم کے لیے آخری موقع ہے کہ نئے انتخابات میں ہر سیاسی جماعت کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہونا چاہیے۔ انتخابات میں نتائج خواہ کیسے ہی کیوں نہ آئیں‘ کوئی پارٹی زیادہ ووٹ لے کر آئے یا کوئی کم‘ وقت آ گیا ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے ہی باہم یہ عہد کر کے میدان میں اُتریں کہ وہ دہشت گردی کے آسیب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گی۔ کسی اچھی تجویز کو صرف اس بنا پر رد نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ کسی اور جماعت یا کسی اور لیڈر کی جانب سے آئی ہے اور اُسے قبول کرنے کا مقصد اُس جماعت یا اُس قیادت کی برتری کو قبول کرنا نہیں ہے! آج کے سنگین حالات میں ایک ایسی پارلیمنٹ کا وجود لازم ہے جو قوم کے حسّاس معاملات پر پہلے سے متفقہ رائے رکھتی ہو۔ اسے قوم کی خوش قسمتی جانیے کہ عین آخری لمحے عدمِ اتفاق کی صورت میں نگران وزیرِ اعلیٰ کا معاملہ الیکشن کمیشن میں بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا تو ن لیگ کے ممبران نے نجم سیٹھی کا نام بطور وزیرِ اعلیٰ قبول کر لیا۔ نجم سیٹھی ہی شاید اس صورت میں دونوں جماعتوں کے لیے بھی اور قوم کے لیے بھی بہترین چوائس تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنا تعلق ترقی پسندانہ خیالات سے رکھا۔ وہ انتہائی ذہین تجزیہ نگار ہیں۔ امریکہ، بھارت، افغانستان اور عرب دنیا کی خارجہ پالیسی پر ان کی تحریروں کو حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے زندگی میں بہت زیادہ پریشانیاں اور ابتلائیں بھی دیکھیں مگر ان کے قدم کبھی بھی ایک اُجلے، نکھرے اور صاف ستھرے نظرئیے سے نہیں ڈگمگائے۔انہوں نے70ء کی دہائی میں وین گارڈ (Vanguard) کے عنوان سے ایک مکتبہ قائم کیا۔ یہ مکتبہ خواتین کی تعلیم و تربیت اور ان کی شخصی آزادیوں کا نگہبان تھا۔ یہ انتہائی افسوسناک مقام ہے کہ آج جبکہ دنیا آگے کی جانب بڑھ رہی ہے، انہیں یہ مکتبہ بالآخر بند کرنا پڑا‘ مگر نجم سیٹھی نے اپنی زبان اور قلم سے ہمیشہ قوم کی زلفیں سنوارنے کی کوشش کی۔ مانا کہ اس چند ماہ کے دورِ حکومت میں وہ کوئی بڑی تبدیلی تو نہیں لا سکیں گے کہ آج کے زمانے میں چام کے دام چلانا ممکن نہیں رہا۔ آج کاغذی روپیہ چام سے بھی کہیں زیادہ ارزاں ہے۔ بہرطور مجھے یقین ہے کہ ان کا دور ایک صاف ستھرا دور ہو گا۔ حالات کی خرابی بھی ان کے سامنے ہے اور اس کی دِگر گونی بھی!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں