ایک عرصہ سے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ، سپاٹ فکسنگ اور جوأ کھیلنے جیسے الزامات عائد ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس میدان میں وسیم اکرم اور وقار یونس نے بہت ’نام‘ کمایا۔ ماضی میں کئی بار جوئے کے ڈنک سے ڈسے اور غصے سے بپھرے ہوئے لوگ ڈنڈے، پتھر اور لاٹھیاں لے کر وسیم اکرم کے گھر پہنچے۔ کامران اکمل اگرچہ برطانوی عدالت سے بچ نکلے ہیں مگر اُن کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اُن کے کوئی قریبی رشتہ دار بُک میکر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں بُک میکرز کے 415اڈے موجود ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ کھلے بندوں کرکٹ پر جوأ کھیلتے ہیں۔ ہمارے جوئے اور ’کفار‘ کے جوئے میں صرف اتنا سا فرق پایا جاتا ہے کہ اُن کے ہاں جوئے کی کمائی پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ہر قسم کا جوأ ٹیکس ہالیڈے(Tax Holiday) کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ جواز یہ کہ جوأ کھیلنا ایک غیر اسلامی فعل ہے لہٰذا اُس پر ٹیکس لینا ’’گناہِ کبیرہ ‘‘ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ بالفاظِ دیگر ایک جانب کرکٹ پر جوأ کھیلنے کی پریکٹس پوری شدت سے جاری ہے تو دوسری جانب نہ کوئی پوچھنے اور نہ کوئی پکڑنے والا…گویا بُک میکرز کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میںہے! ویسے تو ماشاء اللہ ہمارے ہاں ٹیکس کے معاملے میں سب کو کھلی چھٹی ہے ،کہ نہ کوئی بڑا ٹیکس ادا کرے اور نہ کوئی چھوٹا۔ ہمارے ہاں زکوٰۃ کے موسم میں بیشتر لوگ اپنے اہلِ تشیع ہونے کا سرٹیفیکیٹ بنکوں میں جمع کروا دیتے ہیں تاکہ وہ اس اسلامی ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جائیں۔ اب تو میچ فکسنگ کے شعبے میں بے پناہ ترقی ہو چکی ہے۔معاملہ پورے میچ سے مختصر ہو کر ایک اوور کی کسی خاص گیند تک آن پہنچا ہے۔ چنانچہ یار لوگ اگر میچ جیت جائیں تو اپنی ’عزت‘ بھی بچا لیتے ہیں اور قوم کو فتح کے نعرے لگانے اور جلوس نکالنے کا موقع بھی فراہم کر دیتے ہیں مگر اسی میچ کے دوران وہ کسی خاص اوور کی پہلے سے طے شدہ ’نوبال‘ (No Ball) پھینک کر لاکھوں روپے بنا لینااپنا پیدائشی حق بھی گردانتے ہیں۔ یہ ہوسِ زر، یہ طمع اور لالچ، یہ ضمیر فروشی اور قوم فروشی بالآخر برطانوی عدالت کے کٹہرے میں اپنے انجام کو پہنچی۔ صرف مُجھی کو نہیں بلکہ سبھی کو اس فیصلے پر شدید شرمندگی بھی ہوئی اور عامر جیسے نوخیز جوان کرکٹر کا کیریئر تباہ ہونے کا دُکھ بھی۔ عامر ایک انتہائی غریب ماں کی گود میں پلا بڑھا بچہ ہے۔ درست کہ وہ سب سے کم عمر، کم تعلیم یافتہ اور دوسروں کی نسبت کم تجربہ کار تھا مگر لالچ نے اُس کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی کہ وہ اندھیرے میں چلتا ہوا سیدھا اندھے کنویں میں جا گرا۔ اس تاویل سے میرا مطلب ہرگز یہ ثابت کرنا نہیں کہ عامر کا جرم دوسروں سے کم تر تھا۔ اُسے دوسروں کے ساتھ سزا ملنا تھی، جو بالآخر مل گئی۔ سزائیں اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اُنھیں اچھا کہہ دینے سے نہ وہ اچھی ہو جاتی ہیں اور نہ بُرا کہنے سے بُری۔ کم و بیش سبھی باشعور اہلِ دانش نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے رویے پر بھی تنقید کی اور کرکٹرز کی اِس کرپشن کو بھی ہدفِ ملامت بنایا۔ اُدھر اِن کرکٹرز کے ورثاء نے اخبارات کو یہ حلفیہ بیانات جاری کیے کہ اُن کا بیٹا یا بھائی بے گناہ تھا۔ اُس نے نہ جوأ کھیلا اور نہ سپاٹ فکسنگ کا مرتکب ہوا۔ وہ اپنے بھائی یا بیٹے کو بخوبی جانتے ہیں۔ اُنہی نے اُسے پالا پوسا،لہٰذا اُنھیں یقین ہے کہ وہ کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتا۔ دوسری جانب ان تینوں کرکٹرز کے اس انجام پر بہت سے لوگوں نے جوشِ جذبات میں جلوس نکالے، جن میں اُن کی تصاویر کو جلایا گیا۔ غصہ سے اُبلتے ہوئے مظاہرین نے اُنھیں قومی مجرم قرار دیا۔ کرکٹرز کی تصاویر جلانے والوں کا غصہ بھی قابلِ فہم ہے اور اُن کے اہلِ خانہ کے حلفیہ بیانات بھی ،لیکن بعض ’عوامی شخصیات‘ نے اس واقعہ پر ایسے بیانات جاری کیے جنہیں پڑھ کر اپنی فہم پر ماتم کرنے کو جی چاہا۔ اُن میں ایک ایسا جیدعالم بھی ہے ۔ اُس نے اِن تینوں کرکٹرز پر تبریٰ بھی کیا، اُن کی خاطر سینہ کوبی بھی کی اور پھر جاتے جاتے یہ خبر بھی داغتا گیا کہ اِن کرکٹرز کو دی جانے والی سزائیں دراصل پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں۔ جن دشمنوں نے صدام کو پھانسی پر چڑھایا اور عید سے دس پندرہ روز قبل قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹا، اُنھوں نے عید سے چند دن پہلے ہمارے اِن تین ہیروز کو بھی سزا سنا ڈالی۔ الغرض ہمارے اس جدید اور جید عالم نے اِدھر قوم کا مورال بلند کر دیا اور اُدھر اسلام دشمنوں کے چہرے ’بے نقاب‘ کر گیا۔ ایک اور صاحب جو سِکھوں اور ہندوئوں کی متروکہ املاک کے اکلوتے وارث رہے ہیں، انھوں نے اس المیہ پر ایک نیا انکشاف کیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں تینوں کرکٹرز کی سزا کا اصل ذمہ دار بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کو ٹھہرایا ہے۔ ہمیں یقین ہے وہ اس سربستہ راز سے کسی نہ کسی روز ضرور پردہ اُٹھائیں گے کہ ’را‘نے ہمارے کرکٹرز پر نوبال پھینکنے کا منتر کیسے پھونکا؟ اس بات کا مکمل خدشہ موجود ہے کہ کسی دن ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حُسین یہ بھاشن جاری کر دیں کہ ان تینوں کرکٹرز کے خلاف اصل سازش اسرائیل کے وزیراعظم نتین یاہو نے کی تھی۔ مختصر یہ کہ ہمارے اہلِ دانش اور اہلِ اقتدار سازش کی تھیوری تراشنے اور پھر اُسے بھوک سے بلکتے عوام کو بیچنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ جب کبھی عوام نے ذرا آنکھیں کھولنا چاہیں، یار لوگوں نے سازش کی چُوسنی پر افیون کا لیپ دے دیا اور پھر سے اُن کے منہ میں دے دی ۔عوام کا بھی حال دیکھیے کہ وہ اس افیون کو کس طرح چاٹتے اور پھر اُس کے نشہ میں مدہوش رہتے ہیں! الغرض ہم باکمال عوام، لازوال سیادت اور بے مثال دانش کا مجموعہ ہیں۔ قوم کو اس بات پر شدید دُکھ ہوا کہ این آر او کے راستے پر چل کر ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے والی ’عوامی حکومت‘ نے مشکل کی اس گھڑی میں اپنے اِن معتوب چیلوں چانٹوں کا قانونی تحفظ کیوں نہیں کیا؟ اگر آٹھ ہزار مقدمے معاف ہو سکتے ہیں، اگر کھربوں روپے کی کرپشن بیک جنبشِ قلم دریا بُرد ہو سکتی ہے تو پھر اِن بے چارے تین کرکٹرز نے کونسا ایسا جرم کر دیا جس کے لیے اُنھیں سزا دی جائے؟ صرف یہی کہ انھوں نے ایک عدد گیند کیوں غلط پھینکا؟ ہماری انسانیت نواز حکومت تو ایسے ایسے لوگوں کو ’نشانِ امتیاز‘ دے چکی ہے جنھوں نے عمر بھر کوئی سیدھا کام نہیں کیا تھا۔ رحمن ملک کا یہ اعلان بھی خوش آئند تھا کہ حکومت اِن تین ہیروز کو جیل سے چھڑانے اور واپس لانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے گی۔ اگر ان کی حکومت دھڑ کی بجائے صرف سر کی بازی لگا دیتی تو بھی قوم خوشی سے گھی کے چراغ جلاتی۔ کیا ہی اچھا ہو تا کہ رحمن ملک اِن تینوں ہیروز کے ساتھ ساتھ اپنے الطاف بھائی کو بھی واپس لانے کا کوئی بندوبست کرتے کہ اُن کے متاثرینِ تقاریر،کلامِ شاعر بزبانِ شاعر سُننا چاہتے ہیں۔