پیندے کا سوراخ

میرے ایک دوست بڑی دِل سوزی کے ساتھ آج کے حالات پر گریہ کناں تھے۔ انہوں نے سیاسی محاذ کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ ساری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اتحادی بھی آہستہ آہستہ اُسے چھوڑ گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنانے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہاتھوں میں خنجر لہراتے ہوئے ایک دوسرے کو للکار رہی ہیں۔ سپریم کورٹ گزشتہ تین سالوں سے مرکزی حکومت کی جانب سے اعلیٰ عہدوں پر کی گئی مختلف تعیناتیوں کو رَد کر چکا ہے اور بدعنوانی میں ملوث وزرا کے خلاف بھی مختلف مقدمات کی سماعت کر رہا ہے۔ الغرض مرکزی حکومت اور عدالتِ عظمیٰ کے مابین کسی قسم کا ورکنگ ریلیشن (Working Relation)یا افہام و تفہیم کا عنصر دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے لمحہ بھر رُکنے کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’یوں دکھائی دیتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اس فیصلے پر پہنچ چکی ہے کہ اگر اُس نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اب صدائے احتجاج بلند نہ کی تو اُسے شاید یہ موقع پھر کبھی نہ مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی پی نے عوامی سطح پر ایک شدید ردِ عمل کو تحریک دینے کی خاطر ہڑتال اور احتجاج کا ہتھیار اُٹھا لیا ہے۔ الغرض پانی پت کی چوتھی جنگ کے نقارے پر چوٹ پڑ چکی ہے۔ صف آرائی کا سماں ہے۔ اُدھر فوج کا ادارہ اِن لمحہ بہ لمحہ بدلتے مناظر کو خاموشی اور سکون سے جانچ رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ یہی بتلاتی ہے کہ اِس قسم کے بگڑتے ہوئے حالات کا خاتمہ ’زیرو پوائنٹ‘ پر ہی ہوا کرتا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ برسہا برس تک قید و بند کی سختیاں جھیلنے اور جلا وطنی کے سراب میں بھٹکنے کے باوجود ہمارے سیاسی رہنما پانچ سال میں بھی حالات کو اپنی گرفت میں نہیں کر پائے! میں ہر صبح اِس خوف کے ساتھ بیدار ہوتا ہوں کہ مجھے ’پیارے ہم وطنو‘ کے عنوان سے تقریر سُننے کا پانچویں بار صدمہ نہ سہنا پڑے۔ ‘‘ میں نے اُن کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ آپ خواہ مخواہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ سارے سوالات جو آپ کو بے چین کر رہے ہیں، اِن میں سے نہ کوئی نیا ہے اور نہ کوئی انہونا! یہ نصاب قوم کو پچھلے چونسٹھ سالوں سے ازبر ہے۔ پاکستان نے بحرانوں کے شکم سے جنم لیا اور وہ ان بحرانوں میں ہی زندہ بھی رہا اور پلا بڑھا بھی! درست کہ دسمبر 1971ء میں 1947ء والا پاکستان دو لخت ہو گیا۔آج اُس کا ایک حصہ بنگلہ دیش کہلاتا ہے اور دوسرا پاکستان! اِس خرابی سے گزرنے کے باوجود آج کا بنگلہ دیش برصغیر کی ایک اُبھرتی ہوئی معاشی قوت ہے۔ اُس کے ہاں زرِ مبادلہ کے ذخائر ہم سے تین گنا زائد ہیں۔ بنگلہ دیش میں جمہوریت، امن و امان اور ترقی کا دور دورہ ہے…رہے ہم تو صدہا خرابیوں سے گزرنے کے باوجودہم دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بھی ہیں اور اپنے ہی خون میں لت پت ہونے کے باوجود اب تک زندہ بھی ہیں…اور چل بھی رہے ہیں! پاکستان کی تاریخ اس بات کا ثبوت ہے کہ مارشل لا اور غیر آئینی اقدام مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں مزید اُلجھا دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی غیر آئینی طریقے سے سیاسی حکومتوں کو برطرف کیا گیا، اُس کے نتائج مزید بدعنوانی، مزید بحران اور مزید مسائل کی شکل میں نکلے۔ لہٰذا کوئی ادارہ بھی اپنا سر اِن بگڑے ہوئے حالات کے کولہو میں نہیں دینا چاہے گا۔ مالی بدعنوانی، امن و امان کی خراب حالت، اداروں کے مابین جنگ، سیاستدانوں کے درمیان شدید کشمکش، مہنگائی، چو ربازاری اور لوٹ کھسوٹ جیسے عوامل پاکستان کی ساری تاریخ میں بدرجہ اُتم موجود رہے ہیں‘ صرف اس فرق کے ساتھ کہ کبھی ایک خرابی دوسری سے زیادہ ہو گئی اور کبھی تیسری پہلی سے زیادہ! اسے پاکستان کے عوام کی بدبختی جانیے کہ وہ کبھی انصاف اور امن کے خواب کی عملی تعبیر نہیں دیکھ سکے۔ مگر یہ اُنہی کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے خواب دیکھنا پھر بھی بند نہیں کیا۔ وہ آج بھی غربت سے نجات اور ایک صاف ستھرے منصفانہ اور مساویانہ معاشرے کا خواب آنکھوں میں بسائے بیٹھے ہیں۔ وہ ایک اچھے اور سنہرے مستقبل کے خواہشمند ہیں۔ جس طرح بادلوں کے بغیر بارش نہیں برستی، ہوائوں کے بغیر جہاز نہیں اُڑ سکتے، پانی کے بغیر کشتیاں نہیں چل سکتیں… اِسی طرح پاکستان میں بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری تبدیلی کے کئی سگنل اور انڈیکیٹرز (Indicators) موجود ہیں۔ اُن میں سے کچھ تو پورے نظر آتے ہیں اور کچھ ادھورے! یہی دیکھئے نا… کہ کپتان کو جہاز کے پیندے کے سوراخ کا علم اُس وقت ہوتا ہے جب اُس کی تہہ میں چھپی ہوئی مخلوق عرشے کی جانب بھاگنے لگتی ہے۔ یہ بھگدڑ ہی جہاز کے ڈوبنے کا سب سے بڑا انڈیکیٹر ہوا کرتی ہے۔ ایم کیو ایم گزشتہ دو عشروں سے ہر حکومتی جہاز کے پیندے میں موجود رہی ہے۔ وہ آج نیمِ دروں اور نیمِ بیروں کی حالت میں کھڑی ہے۔ جس دن وہ چیختی چلاتی اور اُودھم مچاتی ہوئی عرشے سے باہر کی جانب زقند بھرے گی‘سمجھ لیجئے کہ اُس دن جہاز کا ڈوب جانا ٹھہر گیا۔ تاہم اداروں کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوا کرتا…یا تو سبھی ایک بار ہی سمندر کی تہہ میں اُتر جاتے ہیں یا پھر باری باری! ساری سیاسی جماعتیں آج کے گھمبیر مسائل عوام کے سامنے رکھیں ، اپنا منشور اور لائحہ عمل پیش کریں اور پھر نیا مینڈیٹ لے کر پارلیمنٹ میں واپس آئیں۔ ہمارے مسائل کا حل گولی، لاٹھی، بم دھماکوں، مار دھاڑ اور ماورائے آئین اقدام کی بجائے صرف عوام کے اعتماد اور اُن کی رائے پر مبنی جمہوری عمل میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے آگے پیچھے سارے دروازے بند کرنے اور سارے سیاسی آپشنز کو دریا بُرد کرنے کی بجائے انتخابی میدان کی جانب مارچ کرنا چاہیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں