پیپلز پارٹی ہماری تاریخ کی پہلی جماعت تھی جس نے خاک اور مٹی میں کھیل کر جوان ہونے والے بہت سے بچوں کو 1970ء کے عام انتخابات میں پارلیمنٹ کے بنچوں تک پہنچایا۔ بہت سے ایسے اُمیدوار بھی الیکشن کا معرکہ سر کر آئے، جن کے پاس کسی قسم کی ٹرانسپورٹ کا وجود ناپید تھا۔ ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی، نذر محمد نے اپنی انتخابی مہم مانگے تانگے کی سائیکل پر چلائی۔ الغرض پیپلز پارٹی نے پہلی بار غریب عوام کو سیاست میں حصہ لینے پر اُبھارا، اُنھیں سیاسی شعور بھی دیا اور احتجاج کی زبان بھی۔ اس حقیقت سے گریز ممکن نہیں کہ عوام کو بیدار کرنے اور اُنھیں سیاست میں شریک کرنے کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے۔ بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو انتہائی زیرک سیاستدان اور زبان و بیاں کا اُبلتا ہوا آتش فشاں تھے۔ اُنھوں نے بڑی ذہانت اور کامیابی سے نامحسوس انداز میں حامیوں اور پارٹی کارکنوں کے اذہان میں یہ تصور نقش کر دیا کہ پیپلز پارٹی کا اصل وجود انہی کی ذات ہے اور اس کی روح بھی۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین اور پارٹی کے عہدیداروں کی سیاسی زندگی صرف دیومالائی چیئرمین کی مرضی یا پسند و ناپسند کی محتاج ہو کر رہ گئی۔ جس کسی نے اُن سے اختلاف کیا، اُن کے ایک اشارۂ ابرو پر ساری پارٹی نے اُس کا سماجی اور سیاسی مقاطعہ کر دیا۔ جس کسی نے اُن کی کسی پالیسی سے رتی بھر انحراف کا ’جرم‘ کیا، اُس کے خلاف بیانات کی قطار بندھ جاتی رہی۔ اختلاف کرنے والوں کو اجتماعی کورس کے انداز میں ’قیادت کا غدار‘ قرار دینا اور اُن پر تبریٰ کرنا پارٹی کی مخصوص تربیت اور روش کا حصہ بن گیا۔ ان زیرِ عتاب رہنمائوں کے اردگرد ایسی فضا تخلیق کر دی جاتی رہی جس کے باعث بالآخر وہ از خود پارٹی چھوڑنے پر مجبور ٹھہرتے۔ معراج محمد خان، جے اے رحیم، میاں محمود علی قصوری، رسول بخش تالپور، علی احمد تالپور، ڈاکٹر غلام حُسین، حنیف رامے، مصطفی کھر، تاج لنگاہ،ڈاکٹر مبشر حسن، عبدالخالق خان (روئیداد خان کے بھائی)، خورشید حسن میر، حاکم علی زرداری (صدر زرداری کے والد) اور اُن کے سمدھی کرنل حبیب (ایم این اے) وغیرہ کو اسی انداز میں پارٹی سے باہر ہانکا گیا۔ ان سب کا لہو پیپلز پارٹی کی بنیادوں میں شامل تھا۔ ان سب نے انتہائی نامساعد حالات میں پارٹی کا پرچم تھاما اور بھٹو کے ساتھ ڈٹے رہے لیکن بھٹو کی بدقسمتی کہ وہ اپنے اِن ساتھیوں کو اپنے اقتدار کے دوران ہی کھو بیٹھے۔ ان معتوبین میں سے بیشتر کا تعلق متوسط طبقے سے تھالہٰذا اُن میں سے کوئی نہ تو اپنی پارٹی بنا سکا اور نہ کسی دوسری جماعت میں کھپ پایا۔ دراصل جن لوگوں نے پیپلز پارٹی سے اپنی سیاست کا آغاز کیا، اُن کی ایک ایسی مخصوص نفسیات ترتیب پا گئی کہ اُن کے لیے کسی دوسری پارٹی کے کلچر کو اپنانا آسان نہیں تھا۔ چنانچہ یہ راندۂ درگاہ رہنما یا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمنامی کا شکار ہو گئے یا پھر انھوں نے مایوسی، ناکامی اور نامُرادی کے عالم میں دوبارہ پیپلز پارٹی سے رجوع کر لیا مگر پارٹی میں واپس لوٹنے والوں کی حالت تیسرے درجے کے شہریوں کی مانند رہی…یعنی گھر اور گھاٹ دونوں سے جاتے رہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی کامیابی کا اصل راز بھی اسی حقیقت میں پوشیدہ تھا کہ اُنھوں نے پارٹی کارکنوں کی وفاداری کا رُخ اپنی جانب موڑ لیا اور پارٹی کا عہدہ دینے یا لینے کا مکمل اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا۔ محترمہ نے اپنے والد کے سارے ساتھیوں کو اُسی قدیم روایتی انداز میں باری باری از خود پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ کوئی قمقمہ بجلی کی رو کے بغیر روشن نہیں ہو سکتا۔ یعنی بھٹو خاندان ہی بجلی کی وہ رو ہے جس کے سہارے پارٹی عہدیداروں اور منتخب اراکین کے سیاسی چہرے روشن ہیں…اور جو کوئی اس کرنٹ سے محروم ہوا، وہ اندھیروں میں ڈوب کر رہ گیا۔ صدر آصف زرداری کسی طور کم مبارکباد کے مستحق نہیں ہیں۔ اُنھوں نے بھی پارٹی کے اُن رہنمائوں کو نمونۂ عبرت بنا کر رکھ دیا، جو محترمہ کے سایۂ شفقت تلے وادیٔ سیاست میں دندنایا کرتے تھے۔ پارٹی سے اخراج کا طریقہ اب تک وہی ہے کہ جس کسی نے لب کھولے، اُس پر قیادت سے غداری اور پارٹی کے شہدأ سے عدمِ وفاداری کا ٹھپا لگ گیا۔ گویا حیلے اب بھی عنتری ہیں اور طریقے وہی سامری۔ پارٹی قیادت آج تک اس گمان کا شکار ہے…کہ ’بھٹو‘ کا لاحقہ جس کسی کے نام کا حصہ بنا، اُس میں از خود بجلی کی رو پیدا ہو گئی۔ چنانچہ بلاول کو ’زرداری بھٹو‘ کا عنوان صرف اسی لیے دیا گیا کہ کشتگانِ وفا اور مریدانِ باصفا اُنھیں پارٹی کے نئے سجادہ نشین کے طور پر قبول کر لیں۔ ان چونچلوں کے لیے تاریخ کے پاس کتنا وقت باقی بچا ہے، اس کا فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی! تاہم اس بات کے مکمل آثار دکھائی دیتے ہیں کہ آنے والا دور خاندانی سیاسی سجادہ نشینوں پر بھاری ہو گا۔ دوم، پارٹی کا یہ اعتقاد کہ پارٹی چھوڑنے والوں سے پارٹی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا… یہ کوئی درست تجزیہ نہیں، پارٹی کی اپنی تاریخ اس دعوے کو رد کرتی ہے۔ جس پارٹی کا جسم 1970ء میں اتنا توانا تھا کہ خورشید حسن میر جیسے ایک گمنام اور ناکام وکیل نے راولپنڈی میں ایئرمارشل اصغر خان کو 35ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دی تھی، آج اس شہر میں اس کا کوئی اُمیدوار الیکشن نہیں جیت سکا۔ الغرض پارٹی کا وجود سُکڑ کر ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ کسی کے جانے سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا…پارٹی کو بہت فرق پڑ چکا ہے اور اگر یہی چلن رہا تو رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔جس کسی نے پارٹی چھوڑی، وہ سیاسی طور پر تباہ حال ہو گیا، یہ فارمولا صرف متوسط طبقے کے رہنمائوں پر پورا اُترتا ہے۔ قبائلی سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں پر یہ نسخہ کارگر نہیں ہو پایا۔ وہ جس پارٹی میں شامل ہو گئے، انھوں نے وہیں اپنا میدان جما لیا۔ پیپلز پارٹی میں اُن کا آنا بھی لگا رہتا ہے اور جانا بھی۔ صدر زرداری کو یہ اعزاز بہرطور جاتا ہے کہ وہ ہر صورتِ حال کا کوئی نہ کوئی جوڑ یا توڑ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اگر مشکل وقت آیا تو ذوالفقار مرزا یا حقانی کو بَلی چڑھا دیا اور اگر حکومت ٹوٹنے کا خطرہ درپیش ہوا تو قاف لیگ، ایم کیو ایم اور اے این پی کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا… کیا صدر زرداری کا یہی معرکہ کچھ کم ہے کہ جس پارٹی سے کبھی اُن کے والد کو خارج کیا گیا تھا، آج وہ اُس کے شریک چیئرمین ہیں اور اُن کا صاحبزادہ اُس پارٹی کا سربراہ ہے۔ واقعی زرداری ان معاملات میں سب پر بھاری نکلے لیکن اس ’بھاری پن‘ کا انت اور انجام بھی سب پر عیاں ہے کہ وہ وقت دُور نہیں جب نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسریا!