باپ سے بیٹے تک

ریٹائرڈ جنرل احتشام ضمیر، گورڈن (Gordon) کالج راولپنڈی میں میرے ساتھ زیرِ تعلیم رہے۔ ہمارے درمیان مضبوط دوستی کا رشتہ بھی تھا اور باہم اکثر گپ شپ بھی چلا کرتی۔ میں ہاسٹل میں رہتا تھا اور وہ 6th روڈ کے باسی تھے۔ میں احتشام کے ہاں بہت خوشی خوشی جایا کرتا ۔ اوّل تو یوں کہ خالہ جان بہت لذیذ کھانا بنایا کرتیں اور دوم یوں کہ ان کے گھر کے لان میں کرکٹ کھیلنے اور اِدھر اُدھر دوڑنے بھاگنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ صرف دو بھائی تھے…اور کسی نئی آمد کا کوئی امکان تھا اور نہ خدشہ! معاف کیجئے میں اصل موضوع سے ذرا پھسل گیا…دراصل احتشام نے مجھے اپنی کتاب پر کچھ بولنے کو کہا تھا۔یقین کیجئے کہ میں نے اُن کی یہ کتاب اب تک نہیں پڑھی لیکن مطمئن رہیے کہ میں نے اس کتاب میں لکھا جانے والا ہر لفظ پہلے سے پڑھ رکھا ہے۔ دراصل یہ کتاب اُن کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ احتشام کی تحریر اور گفتار میں ہلکے ہلکے سے مزاح کی چاشنی اورشگفتگی کا امتزاج پایا جاتا ہے جو قاری کو زیرِ لب مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ احتشام بہت ہلکے پھلکے فقرے لکھتے ہیں جو نہ تو دماغ کے لیے کٹھن اور بوجھل ہوتے ہیں اور نہ دل کے لیے بارِ گراں!اگر احتشام جرنیلی کے بجائے لکھنے لکھانے کا پیشہ اختیار کر لیتے تو مجھے پوری طرح یقین ہے کہ وہ بہت اچھے مزاح نگار اور بہت اعلیٰ داستان نویس بن سکتے تھے۔ کالج کے دِنوں میں ہی وہ اگر کسی تقریب میں جاتے تو ضرور ٹرافی یا کپ اُن کی بغل میں ہوتا۔ کبھی کبھی کوئی ہلکا پھلکا شعر بھی کہہ جاتے تھے مگر اس میدان کی نسبت وہ نثر پر ہی زیادہ متوجہ رہے۔ میں بوجوہ احتشام کی تحریر پر گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ اوّل تو یہ کہ ہم ایک دوسرے کو گریز کی حد سے کچھ زیادہ ہی جانتے بوجھتے ہیں اور دوم یہ کہ میں کسی نہ کسی جگہ اقربا نوازی اور خویش پروری کے الزامات کا شکار بھی ہو سکتا ہوں۔ لہٰذا میں احتشام ضمیر کے بجائے اُن کے شہرہ آفاق والد سید ضمیر جعفری (مرحوم) پر چند کلمات کہنا چاہوں گا۔ وہ اس لیے کہ میں نے انہیں ان کے بیٹے کے ایک دوست کے حوالے سے انہیں کس طرح دیکھا اور جانا ہے! احتشام اور اُن کے والد میں خاصی مشابہت پائی جاتی تھی۔ ہنسنے ہنسانے کی بھی اور لکھنے لکھانے کی بھی۔ شاہ جی نہ صرف اپنے دور کی چلتی پھرتی تاریخ تھے بلکہ انھیں اگر اُردو کا ایک پورا عہد اور ایک پوری صدی بھی کہا جائے تو چنداں غلط نہ ہو گا۔ مَیں 1966ء میں ان سے پہلی بار ملا۔ تب میں گورڈن کالج، اسٹوڈنٹس یونین کا نائب صدر تھا اور احتشام ضمیر یونین کے سیکرٹری تھے۔ اُن کے گھر کے سامنے ایک خالی پلاٹ تھا جہاں پوٹھوہار کی مشہور ریڈیو فوک گائیکہ نذیر بیگم ہر شام اپنی دو عدد بھینسیں چرایا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں ان کا ایک گیت ’’تیرے باجرے دی راکھی…ماہیا میں نہ بہندی وے‘‘خاص و عام میں مشہور تھا۔ چنانچہ ہم لوگ زیرِ لب ’باجرے‘ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے قریب سے گزرا کرتے۔ 60 ء کے عشرے کا اختتام ایک شدید عوامی اُبھار اور ایک تیز ترین نظریاتی کشمکش کا ابتدائیہ تھا۔ پاکستان کے گلی کوچے سوشلزم اور انقلاب کے نعروں سے گونجنے لگے۔ اس دور کی صف آرائی بڑی سادہ اور بلیک اینڈ وائٹ قسم کی تھی۔ یعنی جو ہمارے ساتھ نہیں… وہ ہمارا مخالف ہے۔ میرا فکری رجحان بائیں بازو کی جانب تھا۔ رہا احتشام…تو اس کا شمار بھی کسی حد تک بائیں بازو میں ہی ہوتا تھا۔ اُن دنوں الطاف حسن قریشی نے سوشلزم اور سوشلسٹوں کے خلاف قلمی جہاد شروع کر رکھا تھا۔ انہوں نے گورڈن کالج کے حوالے سے ایک خاصا تلخ و تند مضمون میرے خلاف باندھا، جس میں مجھے ’دہریہ‘ اور ’بداخلاق‘ جیسے خطابات سے نوازا۔ اتفاق ملاحظہ فرمائیے کہ الطاف حسن قریشی سے میری پہلی ملاقات بھی شاہ جی کے ہاں ہی ہوئی! شاہ جی کی وسعتِ نظر کا اندازہ صرف اس بات سے کر لیجئے کہ وہ اس زمانے کے شدید تشنج زدہ ماحول میں بھی دائیں اور بائیں بازو کے لفظی مجادلوں سے بالاتر تھے۔ ان کی شفیق اور مہربان ذات دو چنگھاڑتے ہوئے نظریاتی لشکروں میں ایک ایسے بفرزون کی مانند تھی، جہاں الطاف حسن قریشی جیسے صاحبِ علم اور ہم جیسے کالجوں میں نعرے لگانے والے کم فہم لوگ ایک ہی میز پر روٹی کھا سکتے تھے۔ یہ 1969ء کا ذکر ہے۔ ہمارے کالج میں اسٹوڈنٹس یونین کی انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ میں صدارتی امیدوار تھا۔ جب شاہ جی کو پتہ چلا تو انہوں نے احتشام کے ہاتھ یہ شعر نما ایک دُعا لکھ بھیجی؛ اچھے اچھے کاج کرے گا راجہ انور راج کرے گا کالج کا وہ الیکشن تو میں نے جیت لیا تاہم اسے شاہ جی جیسے درویش صفت بزرگوں کی دعائوں ہی کا اعجاز جانئے کہ آج تک اپنا نام قوم کی جیب کاٹنے والے کسی سیاسی جتھے میں شامل نہیں ہوا اور آج کے بدعنوان سماج میں اس سے اچھا کاج اور کیا ہو سکتا ہے؟ 1969ء میں احتشام میاں اپنا دل کھو بیٹھے۔ بس پھر کیا تھا، نوجوان نے کھانا پینا ترک کر دیا اور ایک ہی ضد باندھ لی کہ شادی ہو گی تو اسی خاتون سے ! بہتیرا سمجھایا کہ بھائی ابھی سے شادی کے کنوئیں میں کاہے کو چھلانگ لگاتے ہو؟ لیکن عشق سے سرشار ذہن پر ہر دلیل بے اثر ٹھہری۔ انہی دنوں خاتون نے احتشام کو یہ لکھ مارا کہ اگر ان کے ہاں سے جلد از جلد رشتہ نہ آیا تو اس کی نسبت کہیں اور طے کر دی جائے گی۔ پریشان حال احتشام کسی خزاں رسیدہ زرد پتے کی مانند لرزتا ہوا میرے پاس ہاسٹل پہنچا۔ کافی غوروخوض کے بعد ہم نے یہ حکمت عملی تیار کی کہ کل دوپہر کے کھانے سے پہلے احتشام اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لیے ٹیلی فون اپنے کمرے سے باہر فرش پر دے مارے نیز تا دم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے خود کو اپنے کمرے میں بند کر لے (اس طرز کی توڑ پھوڑ اور ہڑتالیں اس دور کا احتجاجی استعارہ تھیں) یہ بھی طے ہوا کہ گھر والے خواہ لاکھ چیختے چلاتے پھریں، احتشام ان سے براہ راست ’مذاکرات‘ کا آغاز نہیں کرے گا۔ کوئی تین بجے کے لگ بھگ میں ’اتفاق‘ سے ان کے ہاں پہنچ جائوں گا اور پھر موصوف اور ان کے بزرگوں کے مابین شٹل ڈپلومیسی کی طرح مذاکرات کا دور شروع کرائوں گا۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں