دوسرے دن مقررہ وقت پر میں ان کے ہاں پہنچ گیا۔ خالہ جان گھر سے باہر تھیں اور شاہ جی اس بات پر حیران کہ چنگے بھلے احتشام نے خود کو کمرے میں کیوں بند کر لیا ہے؟ میں نے حسب پروگرام انتہائی ’تشویش ناک‘ لہجے میں احتشام کو آوازیں دیں لیکن آگے سے کوئی جواب نہیں ملا۔ بالآخر میں نے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔ کافی دیر بعد احتشام نے چٹخنی کھولی اور یہ دیکھے بغیر کہ میرے ساتھ ان کے امی ابو دونوں آئے ہیں یا صرف ان کے والد ہی…نوجوان نے دوبارہ چادر تانی اور اوندھے منہ چارپائی سے چپک گیا۔ میرے استفسار پر اس نے اپنی گردن گھمائے بغیر، اپنے تکئے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور ایک عدد خط میری جانب سرکا دیا۔ میں نے یہ خط سیدھا شاہ جی کی ہتھیلی پر رکھا اور وہ وہیں کرسی پر بیٹھ کر اس کے مطالعے میں مصروف ہو گئے۔ میں نے شاہ جی سے آنکھ بچا کر آہستہ سے احتشام کی چٹکی لی کہ تیر نشانے پر لگ چکا ہے۔ احتشام نے ہلکی سی کروٹ بدل کر کنکھیوں سے ادھر دیکھا اور اپنی والدہ کو ساتھ نہ پا کر اس کے چہرے پر پریشانی کی لکیریں نمایاں سی ہو گئیں۔ میں نے اسے اشارے سے سمجھایا کہ وہ باہر گئی ہوئی ہیں۔ اس نے اشارے میں ہی جواب دیا کہ تم ان کے آنے کا انتظار کرتے۔ بہرطور اب تیر ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ لہٰذا میں نے اس کا ہاتھ دبا کر اس کو تسلی دی…دوسری جانب شاہ جی دنیا و مافیہا سے بے خبر خط پڑھنے میں مصروف تھے۔ ان کے چہرے کی لحظہ بہ لحظہ بدلتی ہوئی کیفیت دیدنی تھی۔ کبھی ایک رنگ آتا اور کبھی دوسرا۔ گاہے وہ سر کو ادھر جھٹکتے اور گاہے ادھر! کسی فقرے پر وہ مسکرا دیتے اور کبھی وہ جھینپ سے جاتے۔ خط ختم کرنے کے بعد بالآخر دم بھر سانس لینے کو رکے اور پھر ہم دونوں کی جانب دیکھے بغیر انتہائی معصومانہ انداز میں شرمائے شرمائے سے بولے،’’میں تو اس خاتون کو سرے سے جانتا ہی نہیں۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس نے مجھے اس طرح کا خط کیوں لکھا؟‘‘ انہوں نے کھانس کر ادھر ادھر دیکھا جیسے وہ خالہ جان کی عدم موجودگی کے متعلق ایک بار پھر سے مطمئن ہونا چاہتے ہوں اور پھر آہستہ سے سرگوشی کی، ’’شادی؟ توبہ، توبہ میں سوچ بھی نہیں سکتا؟‘‘ میں اور احتشام اپنے آپ پر ضبط نہ رکھ سکے اور کھلکھلا کر ہنس دئیے! شاہ جی نے اپنی سادہ لوحی سے ہمارا پلان فیل کر دیا تھا۔ شاہ جی نے حیرت سے ہماری طرف دیکھا۔ میں نے عرض گزاری، ’’یہ خط آپ کو نہیں احتشام کو لکھا گیا ہے۔‘‘ شاہ جی کی چھاتی سے جیسے کئی من وزنی پتھر اچانک ہٹ گیا ہو! انہوں نے خوش دلی سے ہمیں تنبیہہ کی، ’’تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہیں بتا دیا۔ بھلا یہ بھی کوئی مسئلہ تھا۔ میری طرف سے سو فیصد ہاں سمجھو۔ صرف اپنی امی سے اس سلسلے میں بات کر لو!‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے احتشام کا شانہ تھپتھپایا اور خود کمرے سے باہر نکل گئے۔ احتشام نے بستر سے اٹھتے ہوئے جیسے خود کلامی کی، ’’امی جان کو منانا ہی تو اصل مسئلہ تھا۔‘‘ احتشام کا کہنا درست تھا کہ خالہ جان کی رضا مندی کے بغیر گھر کا کوئی معاملہ طے نہیں ہو سکتا۔ خانگی امور سے شاہ جی ایسے مرد قلند کو بھلا کیا سروکار؟ ان کی اپنی ایک دنیا تھی۔ جب وہ خیالوں کی اس دنیا میں مستغرق ہوتے تو پھر انہیں گردو پیش کا کوئی ہوش نہ رہتا۔ کئی بار وہ سڑک کے عین وسط میں اشارہ بدلنے کے انتظار میں گاڑی روک کر کھڑے ہو جاتے جبکہ وہاں دور دور تک ٹریفک سگنل ایسی کسی شے کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ اندریں حالات اگر خالہ جان نہ ہوتیں تو گھر کیسے چلتا؟ خالہ جان نے سارے مادری اور پدری فرائض اپنے کندھوں پر اٹھا رکھے تھے۔ ان کے رعب داب کا یہ عالم تھا کہ ان کے دونوں جوان بیٹے ان کے سامنے حرف مدعا زباں پر لانے کے تصور ہی سے کپکپانا شروع ہو جاتے۔ بہرعالم احتشام اپنی دھن کا پکا نکلا۔ اس نے بالآخر اپنی من پسند شادی کے لیے والدہ کومنا ہی لیا۔ احتشام ضمیر نے 1970ء میں کاکول اکیڈمی جانے سے ایک دن پہلے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلوایا۔ اس نے کھانے کی میز پر شاہ جی سے پوچھا، ’’ابا جی! آپ نے فوج اور سول دونوں محکموں میں ملازمت کی ہے۔ آپ دونوں کے فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ کل میں نے اکیڈمی چلے جانا ہے اس لیے مجھے فوج کے متعلق کچھ بتائیے‘‘۔ شاہ جی کی حس مزاح فوراً پھڑکی۔ انہوں نے کہا، ’’فوج اور سول میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔ البتہ صرف یہ بات یاد رکھنا کہ فوج میں تمہیں جب کوئی سینئر حکم دے تو فوراً ایڑیاں جوڑ کر کھڑے ہو جانا اور اس کی ہر بات پر ’یس سر! یس سر!‘ کہتے رہنا لیکن وہ جو کام کہے بے شک نہ کرنا۔ البتہ سول میں جب کوئی افسر کوئی کام کرنے کو کہے تو اسے وہیں کھڑے کھڑے جواب دے دو کہ فلاں قانون کی فلاں شق کے مطابق یہ کام ہو ہی نہیں سکتا یعنی کام دونوں جگہ نہ کرو۔ ایک جگہ ’یس سر‘ کہہ کر اور دوسری جگہ ’نو سر‘ کہہ کر۔‘‘ ایک شاعرِ بے بدل جس نے لوگوں کو دکھوں اور غموں پر رونے کے بجائے ہنسنا سکھایا۔ ایک ایسا بلند کردار انسان جس نے عمر بھر کسی کا دل نہیں دکھایا۔ جس نے کسی کے لیے نفرت کا کوئی لفظ استعمال کیا اور نہ کسی سے دشمنی پالی۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان تھا جنہیں بھلانا آسان نہیں۔