خون کے داغ مٹانے والے

بیسویں صدی کا آخری عشرہ فرقہ وارانہ منافرت کی آگ سے دہکتا رہا۔ مذہبی اور سیاسی قیادت اس خوفناک مسئلے کا کوئی حل پیش کر سکی اور نہ ناکارہ انتظامی ادارے فرقہ ورانہ دہشت گردی کا سدباب کر سکے۔ ہزاروں گھروں کے چراغ اس اندھی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ رہنما اخباری شہ سرخیوں کی شکل میں اپنے رنج و غم کا اظہار فرماتے رہے اور ادھر اہلِ قلم نے چند صفحات سیاہ کر کے اپنا قرض چکا دیا۔ مختصراً یوں کہہ لیجیے کہ بیسویں صدی ہماری عقلِ سلیم پر عبرت و ہوش کا کوئی تازیانہ برسائے بغیر گزر گئی۔ ہمارے جن بزرگوں نے مسلمان اقلیت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے پاکستان بنایا۔ یہ بات ان کے دائرہ فکر سے ہی باہر ہو گی کہ ایک دن غریب عوام کا یہ ملک فرقہ وارانہ نفرتوں کا خونیں اکھاڑہ بن کر رہ جائے گا۔ المیہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد اسلام کی اجارہ داری جن لوگوں کے ہاتھ میں آئی، ان میں ایسے تفرقہ باز بھی موجود تھے جنہوں نے اسلام کے ہمہ گیر فلسفے کو تاریخی تنازعات کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا۔ انہوں نے قوم کو اس بحثِ لا حاصل میں الجھا دیا کہ کون سی فقہ اور کون سا فرقہ اصل اسلام ہے؟ یوں فرقہ پرستی کے غبارے میں نفرت کی ہوا بھرنے کا آغاز ہوا۔ فرقہ پرستوں نے اپنی اپنی مسلح تنظیمیں بنا لیں اور خود کو سیاسی انداز میں بھی منظم کر لیا، جس کا منطقی نتیجہ آج ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ یوں تو دنیا کے سبھی مذاہب، عقیدے، فلسفے، نظریے، باہمی محبت اور رواداری کا درس دیتے ہیں‘ لیکن اس ضمن میں ہمارے دین کا اپنا ایک بلند مقام ہے۔ نبی پاکؐ کی زندگی اپنے بدترین مخالفین کے ساتھ بہترین سلوک کا نمونہ ہے۔ غصہ، نفرت اور انتقام تین ایسے الفاظ ہیں، جنہیں پیغمبر اسلام کی زندگی میں ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ عظمت صحابہؓ کا تصور بھی انہی کی نسبت سے قائم ہے اور اہلِ بیت کا دیا بھی انہی کی ذات سے روشن۔ کیا ایسے حضرات محراب و منبر یا بارگاہ و خانقاہ کے وارث قرار دیے جا سکتے ہیں جو رواداری اور شفقت کے بجائے ایک دوسرے کی گردن مارنا ہی اصل اسلام گردانتے ہوں؟ ذرا ملاحظہ ہو فرقہ پرستی کہاں ہے؟ پاکستان کی 80 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں۔ ان میں شیعہ بھی ہیں، بریلوی، دیوبندی اور وہابی بھی‘ لیکن آج تک کسی گائوں میں کبھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ لوگ اختلافِ مسلک کے باوجود ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں لاکھوں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان میں بھی ہر مسلک کے لوگ موجود ہیں۔ بینکوں، کمپنیوں اور دفاتر میں لاکھوں سفید پوش حضرات ملازمت کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بھی لاکھوں نوجوان موجود رہتے ہیں لیکن کبھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے۔ ملک کے پانچ فیصد جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کا تو ویسے بھی دین دھرم سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے ہاں بھی فرقہ وارانہ فسادات کبھی نہیں ہوئے۔ یعنی قوم کی ہر پرت اپنے اپنے دائرے میں امن، سکون اور شانتی سے رہتی ہے۔ دراصل فرقہ واریت کا حقیقی منبع عوام کے بجائے وہ ایک فیصد مسلح اقلیت ہے، جس نے پوری قوم کو اسلام کے نام پر یرغمال بنا رکھا ہے۔ اسی اقلیت نے بعض مدارس، مساجد اور امام بارگاہوں میں نفرت کا بیج بویا۔ ان میں سے ہر بڑے رہنما کی ’قیمتی‘ زندگی محفوظ ہے۔ اس کے پاس مسلح گارڈز موجود ہیں، جو ہر وقت اس کے آگے پیچھے کلاشنکوف کا سایہ کیے رکھتے ہیں۔ رہا بے چارہ عام آدمی تو دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ وہی بنتا چلا آیا ہے۔ بسوں، اڈوں، مسجدوں اور امام بارگاہوں میں اسی کے چیتھڑے فضا میں اڑتے ہیں۔ گویا ایک مختصر سی انتہا پسند اقلیت نے پورے سماج کو ہوا میں الٹا لٹکا رکھا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ کم از کم اکیسویں صدی میں تو مذہب کے نام پر کشت و خون اور نفرت کی تجارت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں ہی کو لیجیے جو کل تک ایک دوسرے کو توپ دم کرنا خدا کی سب سے بڑی عبادت سمجھا کرتے تھے لیکن آج یہ دونوں فرقے سماجی خدمت کے میدان میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔ ان دونوں فرقوں نے یورپ کے ہر ریلوے اسٹیشن پر لوگوں کی امداد کے لیے مشترکہ دفاتر کھول رکھے ہیں۔ آج وہ ایک دوسرے کو آگ میں ڈالنے کے بجائے اکٹھے معذور افراد کا ہاتھ تھامتے ہیں۔ قدرتی آفات کا شکار ہونے والوں، بے گھر عورتوں، یتیم بچوں اور نادار لوگوں کی بلا تخصیص مذہب و ملت مدد کرتے ہیں۔ رات بھر ان کی گاڑیاں شہر میں گشت کرتی ہیں۔ انہیں جہاں کہیں نشے کے عالم میں کوئی گرا پڑا یا بے خانماں شخص مل جائے اسے شب بسری کے لیے اپنے سنٹر میں اٹھا لاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نشہ ایک مرض ہے اور مریض سے نفرت کر کے اس کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔ نتیجہ یہ کہ آج یورپ میں ہیروئن ایسے آدم کش نشے کے مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں منشیات کے عادی افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ یہ دونوں عیسائی فرقے آج بھی پہلے کی طرح اپنے اپنے مسلک پر قائم ہیں۔ ان کے درمیان سے فرقہ وارانہ منافرت کی دیوار اٹھ گئی ہے۔ گویا یہ دونوں فرقے پہلے سے بدرجہا بہتر پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کہلانے کے حقدار ہیں تو پھر کیا ہم اچھے شیعہ یا سنی نہیں ہو سکتے؟ کیا ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے واعظان دین کے لیے یہ نکتہ سمجھنا دشوار ہے کہ سیاست اور اقتدار کے بجائے سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگ ہی ان کی توجہ کے اصل مستحق ہیں اور انہی افتادگانِ خاک کی خدمت ہی خدا کی پسندیدہ عبادت ہے۔ انہیں باہم یک دیگر مل کر دکھی انسانیت کی خدمت کا بیڑہ اٹھانا چاہیے۔ یہی اسوۂ حسنہ ہے اور یہی راہِ نجات بھی، یہی جہد ہے اور یہی آج کا جہاد بھی۔ وہ تاریخ کا یہ سبق اپنے پلے باندھ لیں کہ انتقام ایک سیاہ جذبے کا نام ہے اور خون کے داغ خون سے بھی نہیں مٹائے جا سکتے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں