’بیدی محل‘

اگر ہمارے قصبے کلر سیداں کے جسم سے ’بیدی محل‘کا وجود خارج کر دیا جائے تو نہ اس کا جغرافیہ باقی بچتا ہے اور نہ تاریخ۔ کئی ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا یہ سہ منزلہ وسیع و عریض قصر 1837ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ کلرسیداں کے یہ بیدی بابا گورونانک کی نسل سے تھے۔ اسی ناتے سے لوگ انہیں احتراماً ’بابا جی‘ بھی کہتے اور انہیں سکھ دھرم کا مذہبی پیشوا بھی گردانتے۔ وہ جہاں جاتے ایک میلہ سا لگ جاتا اور لوگ انہیں بادشاہوں کی طرح باقاعدہ نذر نیاز پیش کرتے۔ بابا کھیم سنگھ اس خاندان کے ایک انتہائی مشہور بزرگ ہو گزرے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ آج سے سو سوا سو برس قبل مانچسٹر اور لنکا شائر سے ہندوستان آنے والے کپڑے کے کئی تھانوں پر بابا کھیم سنگھ اور ان کے چار بیٹوں کی تصاویر کا ٹھپہ لگتا اور ان کے لاکھوں عقیدت مند اسے بطور تبرک خریدتے۔ یہ غالباً 1890ء کا واقعہ ہے۔ تب تک صوبہ سرحد ابھی پنجاب کا حصہ تھا۔ پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر راولپنڈی کے دورے پر آیا تو بابا کھیم سنگھ بیدی نے اسے کلر سیداں اپنے محل میں آنے کی دعوت دی۔ گورنر نے فوراً یہ دعوت قبول کر لی۔ ڈپٹی کمشنر پریشان ہو گیا کہ روات تا کلر ایک چھوٹا سا پگڈنڈی نما راستہ ہے جس پر سے بہ دقت تمام ایک بگھی بھی گزر جائے تو غنیمت اور اس پر مستزاد یہ کہ اس راستے کی حالت بھی انتہائی دگرگوں تھی۔ موٹر ایسی کسی سواری سے یہ علاقہ ہنوز نا آشنا تھا۔ گورنر نے 24گھنٹے بعد کلر سیداں جانا تھا اور اس مختصر ترین وقت میں روات تا کلر سیداں 13میل لمبے پگڈنڈی نما راستے کو سڑک میں بدلنے کے لیے ایک پوری فوج چاہیے تھی۔ ڈپٹی کمشنر نے اس علاقے کے تحصیلدار کو طلب کیا۔ میرٹھ کا رہنے والا اہل زبان تحصیلدار ڈپٹی کمشنر کا حکم سنتے ہی کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔ نائب تحصیلدار گوجرانوالہ کا باسی تھا۔ وہ اس علاقے کو بھی اچھی طرح جانتا تھا اور بابا کھیم سنگھ کے اثرورسوخ کو بھی۔ اس نے ڈپٹی کمشنر سے کہا: ’’اگر بابا کھیم سنگھ کے کسی صاحبزادے کو اس کے ہمراہ کر دیا جائے تو سڑک تیار ہو جائے گی۔‘‘ الغرض نائب تحصیلدار بابا کھیم سنگھ کے صاحبزادے اوتار سنگھ کے ساتھ بگھی میں سوار ہو کر کلرسیداں کی جانب چل پڑا۔ راستے میں آنے والے ہر گائوں میں وہ یہ منادی کرتا جاتا کہ کل پنجاب کا لاٹ صاحب بابا کھیم سنگھ کے ہمراہ کلر سیداں آ رہا ہے، لہٰذا اپنے اپنے علاقے کی سڑک درست کر لو۔ علاقے کے لوگ یہ اعلان سنتے ہی کدا لیں، بیلچے اور پھاوڑے لے کر کام پر جت گئے۔ دوسرے دن جب لاٹ صاحب کا قافلہ روانہ ہوا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پگڈنڈی کی جگہ ایک مکمل ہموار سڑک پر ان کی بگھی سرپٹ دوڑ رہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ لوگوں نے دھول اور مٹی کو روکنے کی خاطر سڑک پر دھان کی پرالی کا فرش بچھا دیا تھا۔ اتنے کم وقت میں سڑک کا تیار ہو جانا کسی کرشمے سے کم نہ تھا۔ لاٹ صاحب کی بگھی صرف دو گھنٹے میں کلر سیداں پہنچ گئی۔ آج ٹریفک کی بھیڑ کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ ہم کار میں یہی فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں بمشکل طے کر پاتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ لاٹ صاحب کی بگھی کے راستے میں مانکیالہ نامی گائوں بھی آیا۔ یہاں سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر وہ قدیم تاریخی سٹوپے واقع ہیں جنہیں مقامی زبان میں توپ مانکیالہ کہا جاتا ہے۔ سکھوں کے آخری جرنیل شیر سنگھ نے بالآخر تھک ہار کر اپنے پندرہ سپاہیوں سمیت 1846 ء میں یہیں انگریز کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے۔ کلرسیداں میں لاٹ صاحب کا بڑا پرجوش استقبال ہوا۔ رات کے کھانے پر گورنر نے بابا کھیم سنگھ سے پوچھا کہ اگر روس براستہ افغانستان انگریز پر حملہ کر دے تو وہ سرکار کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ بابا جی نے اپنی تمام تر سادگی کے ساتھ کہا، ’’پہلے دن ایک لاکھ روپیہ نقد اور دس ہزار مسلح جوان اور ایک مہینے بعد اس سے دوچند۔‘‘ گورنر نے سر کو خم دے کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے لاہور واپس جا کر انہیں کئی ہزار ایکڑ اراضی تو ساہیوال میں الاٹ کر دی مگر ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھی جاری کر دیا کہ باباجی کی ساری مصروفیات پر مکمل نظر رکھی جائے۔ اگر اتنے با اثر آدمی نے کبھی بغاوت کر دی تو انگریز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ عمر بھر وہ جہاں جاتے سی آئی ڈی ان کے پیچھے پیچھے رہتی۔ بابا کھیم سنگھ کو سرکار کی جانب سے سر (Sir) کا خطاب بھی دیا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی طرح دو شادیاں کر رکھی تھیں۔ ان کی ایک بیوی کشمیر کے مہاراجہ کی بیٹی تھی، جس سے ان کے چار بیٹے ہوئے۔ دوسری بیوی سے ان کے دو بیٹے تھے جو ساہیوال میں آباد ہوئے۔ کلرسیداں والوں میں بابا گورو بخش سنگھ بیدی نے بے پناہ شہرت پائی جبکہ ساہیوال والوں میں کنور مہندر سنگھ بیدی اور بابا راجندر سنگھ بیدی مشہور ہوئے۔ یہ خاندان ہمیشہ مسلمانوں میں گھل مل کر رہا، لہٰذا ان کی بیشتر عادات پر مسلمانوں کی گہری چھاپ ملتی تھی۔ شکاری پرندوں اور جانوروں کے ساتھ شکار اس خاندان کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔ کہتے ہیں کہ صرف کلر سیداں میں ان کے ہاں صدہا امپورٹڈ شکاری کتے، باز، شکرے اور بحریاں ہوتی تھیں۔ دہلی کے قریب گوڑ گائوں میں ان کی تین سو مربع زمین تھی جہاں وہ سردیوں میں شکار کھیلا کرتے۔ اورنگزیب کی ماراماری کے دور میں جب بیدی خاندان کلرسیداں آیا تو یہاں کے باشندوں نے اس خاندان کی مدد کی۔ جب سکھوں کے دور میں بیدی خاندان پر عروج آیا تو بیدیوں نے قصر کے صحن میں اس درویش کا مزار بنایا اور وہاں ہر رات دیا روشن کرتے رہے۔ یہ مزار آج بھی موجود ہے لیکن اس پر اب کوئی دیا روشن نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ اپنے دور حکومت میں کئی بار بیدی خاندان کے چرن چھونے کلرسیداں آیا۔ میں نے نہ بٹوارہ دیکھا اور نہ گلیوں اور بازاروں میں انسانی خون کی ارزانی دیکھی۔ تاہم تقسیم کے پانچ سات برس بعد جب میں نے سکول میں قدم رکھا تو اپنے قصبے کے ساٹھ فیصد مکانات راکھ کا ڈھیر پائے۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر نے بیدی محل پر ’قبضہ‘ جما لیا تھا۔ چنانچہ میں نے دس سال تک اپنی ابتدائی تعلیم ’بیدی محل‘ کے فراخ دامن میں حاصل کی۔ گویا اس محل کے ہر کنج و کنار میں میرے بچپن کی ان گنت یادیں بکھری پڑی ہیں۔ اس کے اندرونی راستوں میں انتہائی خوبصورت چراغ دان آویزاں تھے۔ جھروکوں میں سنگ مرمر کی جالیاں، کمروں میں بیش قیمت فانوس، خواتین کے کمرے سامان آرائش سے ناک تک بھرے ہوئے، ہر رنگ اور ہر موسم کے لباس، الغرض ایک دنیا کی آسائشات موجود تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ سب کچھ ’ غَفَرلہٗ ‘ ہو گیا۔ گزشتہ ساٹھ برسوں سے نہ اس محل کی مرمت کی گئی اور نہ کسی نے اسے رنگ و روغن ہی کیا۔ بچوں نے اسے اکھاڑ پچھاڑ کر رکھ دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ محکمہ اوقاف اس تاریخی عمارت کا اہتمام اپنے ہاتھ میں لے لیتا مگر ہم تاریخ اور جغرافیے سے بے نیاز لوگ ہیں۔ جہاں لوگوں نے راولپنڈی شہر کے وسط میں لال حویلیاں اپنے نام پر کروا رکھی ہیں، وہاں ’بیدی محل‘ بھی کسی دن لینڈ مافیا کے معدے میں ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں