اینوک پاول (Enoch Powell) نے 1912ء میں، برمنگھم کے ایک متوسط انگریز خاندان میں جنم لیا۔ وہ بچپن ہی سے ایک انتہائی فطین بچہ تھا۔ اُس نے کِنگ نورٹن سکول (King Norton School) برمنگھم کے سالانہ امتحان میں 100% نمبر لے کر ایک ناقابلِ شکست ریکارڈ قائم کر دیا۔ اُس نے یونیورسٹی سے یونان کے کلاسیکل لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ قدیم یونانی زبان پر اُس کے عبور کا یہ عالم تھا کہ وہ تین کی بجائے، صرف ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہی، اپنا پیپر دے کر اُٹھ گیا۔ اُس نے افلاطون کی کلاسیکل زبان میں انگریزی افسانے کا ترجمہ کر کے، ممتحن کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ وہ 25برس کی عمر میں سڈنی یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوا۔ علم کی ساری تاریخ میں شاید نطشے (جرمنی) واحد ایسا عالم تھا، جو 24برس کی عمر میں باسل (Basel) یونیورسٹی میں پروفیسر بنا۔ اینوک پاول نے 1937ء میں روسی زبان سیکھ لی، کیونکہ اُس کی چھٹی حِس اُسے بتا رہی تھی کہ ہٹلر بالآخر رُوس پر حملہ کرے گا…واقعی پانچ برس بعد، اُس کا اندازہ درست نکلا اور ہٹلر کی افواج روس پر چڑھ دوڑیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران، اینوک نے پروفیسری چھوڑ دی اور فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اُس نے امریکیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے، وقت سے بہت پہلے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ امریکہ، انگریزوں کا جرمنی اور جاپان سے بڑا دشمن ثابت ہو گا کہ اگر وہ جنگ جیت بھی گئے تو امریکہ انہیں اُن کی کالونیوں سے محروم کر دے گا…اور واقعی جنگ کے بعد، سارے غلام ممالک برطانیہ کے قبضے سے نکل گئے، جس سلطنت پر کبھی سورج غروب نہ ہوا کرتا تھا، اب وہ سُکڑ کر فقط برطانوی جزائر تک محدود رہ گئی، جن پر کبھی کبھار سورج کا نظر آ جانابھی ایک عجیب واقعہ شمار ہونے لگا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اپنی فوجی ملازمت کے سلسلے میں اینوک کی پوسٹنگ ہندوستان میں ہو گئی۔ اس کی یہ بڑی خواہش تھی کہ وہ ہندوستان کا وائسرائے بنے، لہٰذا اُس نے اپنی فوجی ملازمت کے دوران، اُردو زبان سیکھ لی اور اُسے فرفر بولنے لگا۔ اینوک 1950ء سے 1974ء تک برطانوی پارلیمنٹ میں ٹوری پارٹی کا منتخب ممبر رہا۔ لیکن آج وہ پہلے ایسے برطانوی سیاستدان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جس نے 1960ء کی دہائی میں افریقی اور ایشیائی آبادکاروں کی برطانیہ میں آمد کے دُور رس منفی نتائج کے خلاف، انگریز کو خبردار کرنے کی مہم چلائی۔ اِسی مہم کی بنأ پر اُس کے مخالفین نے تب اُسے ہٹلر کی بھٹکی ہوئی رُوح سے مشابہہ قرار دیا تھا۔ اپریل 1968ء میں اُس نے برمنگھم میں ٹوری پارٹی کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے، مستقبل کا نقشہ، انتہائی خوفناک انداز میں کھینچا۔ اُس کی یہ مشہورِ زمانہ تقریر ’’خون کے دریا‘‘کے عنوان سے جانی جاتی ہے۔ اُس نے کہا، ’’آباد کاروں کی سماجی، ثقافتی روایات اور مذہبی رجحانات انگریزوں سے یکسر مختلف ہیں۔ لہٰذا وہ کئی نسلوں تک مقامی آبادی میں ضم نہیں ہو سکیں گے۔ نہ وہ انگریز بن پائیں گے اور نہ انگریز اِن کالے پیلے ہم وطنوں کو کبھی قبول کر پائے گا۔ اگر اُن کو آج نہ روکا گیا، تو برطانیہ کو مستقبل میں شدید ترین معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ‘‘ اُس نے مزید کہا کہ 2000ء تک آبادکاروں کا عدد ساڑھے تین ملین تک پہنچ جائے گا۔ ملازمتوں کے حصول میں شدید جھگڑے پیدا ہوں گے۔ اُس نے اپنی تقریر کا اختتام یونان کے دیومالائی کردار، ٹروجن (Trogan) کے ایک ساتھی کی زبان میں اِن الفاظ میں کیا، ’’میں دریائے طبر (Tiber) کو خون سے بھرا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اینوک پاول آبادکاروں کی آبادی میں اضافے کے معاملے میں غلطی کھا گیا۔ کیونکہ آبادکاروں کی پاپولیشن میں اضافہ اُس کی توقع سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوا، چنانچہ 2000ء میں اُن کی تعداد ساڑھے تین ملین کی بجائے، پانچ ملین ہو چکی تھی۔ یعنی ہر آٹھواں شہری غیر ملکی آبادکار تھا۔ یہ تناسب امریکہ سے بھی زائد تھا، جہاں ہر دسواں شہری سیاہ فام بتایا جاتا ہے۔ اگرچہ انگریز نے آبادکاروں کو اُن کی آبادی سے کہیں زیادہ اپنی پارلیمنٹ میں نمائندگی دی۔ اُنہیں مساوی حقوق سے نوازا۔ برطانیہ میں آباد ہندوئوں، مسلمانوں، سکھوں، پارسیوں، بُدھوں اور یہودیوں کو نہ صرف اپنی اپنی عبادت گاہیں بنانے، اپنے اپنے رواج پر عمل کرنے اور اپنے اپنے تہوار منانے کی مکمل آزادی دی بلکہ اپاہجوں، معذوروں، بیروزگاروں اور بچوں کو مکمل سماجی اور معاشی تحفظ دیا۔ اس کے باوجود، اینوک پاول کی پیشین گوئی ناقابلِ یقین حد تک درست ثابت ہوئی۔ آبادکاروں اور انگریز کے مابین فسادات کا پہلا دنگل 1985ء میں ہوا، خون کا دوسرا اکھاڑہ 2001ء میں جما…اور تیسرے سیلاب کا ریلا 2011ء میں مارک ڈُگن نامی افریقی نوجوان کے خون سے اُمڈا۔ ان فسادات میں جس وسیع پیمانے پر آتش زنی کی وارداتیں ہوئیں اور جس بے دردی سے اندھی لُوٹ مار مچائی گئی، اینوک پاول کے علاوہ شاید ہی کوئی شخص، پچاس برس قبل، اُس کا اندازہ اور احاطہ کر سکا ہو! شاید آبادکاروں کے خون کی جینیاتی ترکیب میں، اُن کا ماضی، اُن کا کلچر اور اُن کے عقائد کئی نسلوں تک چلتے رہتے ہیں۔ برطانیہ کو تو چھوڑئیے ایک طرف، 1947ء میں بِہار سے ہجرت کرنے والے لوگ آج بھی بنگال کے کیمپوں میں نمونۂ عبرت بنے پڑے ہیں، لیکن وہ بنگالیوں میں ضم نہیں ہو پائے۔ کراچی میں آباد مہاجرین، سابق صوبہ سرحد سے آنے والے پشتون اور پنجاب سے کراچی کا رُخ کرنے والے پنجابی بھی آج تک ایک دوسرے میں ضم ہو پائے اور نہ سندھ کے کلچر میں مدغم ہو سکے۔ گویا اپنے اپنے ماضی کے سراب میں بھٹکنے والے، افریقی اور ایشیائی آبادکاروں نے بالآخر لندن کو بھی بیروت بنا ڈالا! انگریز نے دنیا کے 44ممالک پر حکومت کی۔ وہ جہاں کہیں بھی گئے، ’’تقسیم کرو…اور حکومت چلائو‘‘ کے سنہری فارمولے پر، عمل پیرا رہے۔ لیکن آج انہیں ایک ایسی گھمبیرتا کا سامنا ہے، جو اُن کے تاریخی تجربے سے یکسر مختلف ہے۔ یعنی آج اُنہیں تقسیم کرنے کی بجائے، ’’ضم کرو…اور ملک چلائو‘‘ کا نُسخہ آزمانے کی ضرورت ہے۔ دیکھتے ہیں کہ برطانیہ کا جمہوری نظام اپنے سر پڑی اس افتاد کا کیا حل تلاش کرتا ہے؟ کیا اُن کے ہاں پھر کوئی اینوک پاول پیدا ہو گا؟ کیا اِس صورتحال سے کوئی ہٹلر جنم لے گا، جو ہر آبادکار کا سر قلم کرنا، جائز گردانے گا؟ یا پھر کوئی برٹرینڈ رسل جیسا عظیم فلسفی اِس اُلجھائو کا کوئی سلجھائو پیش کرے گا؟