اندھا کنواں

یہ 11 مئی کا واقعہ ہے۔ میں گھر کی جانب جا رہا تھا کہ مجھے سر میں ایک شدید جھٹکا لگا۔ ہوش میں آیا تو ہسپتال میں تھا۔ دس بارہ دن کے بعد جب میں ذرا ہلنے جلنے کے قابل ہوا تو ڈاکٹروں کی تجویز کے مطابق مزید علاج کی خاطر مجھے اہلِ خانہ نے جرمنی پہنچایا۔ کوئی تین ہفتے جرمنی کے Bethanien نامی ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد میں جسمانی طور پر تو کچھ بہتر ہو گیا لیکن میری یادداشت جیسے کہیں اندھے کنویں میں کھو گئی۔ الفاظ کا وہ سمندر جو میرے آگے پیچھے ٹھاٹھیں مارا کرتا تھاوہ جیسے کسی ریگستان میں ڈھل گیا ہو۔ الفاظ کو ڈھونڈنا اور پھر فقرہ کی شکل میں باہم جوڑنا میرے لیے مشکل ٹھہرا۔ کوئی لفظ یا نام یاد آ گیا تو غنیمت…ورنہ چُپ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ ربِ کائنات کا بہت بڑا کرم تھا کہ ہفتے ڈیڑھ میں ہی میری یادداشت اور میرا جسم عین پہلی حالت میں میرے پاس آ گیا۔ یہیں ہسپتال میں یہ خبر بھی پڑھی کہ نائیجیریا کے دو پناہ گیر مسلمان نوجوانوں نے لندن میں ایک انگریز فوجی کا سر اس کے تن سے جدا کر دیا۔ ان دونوں میں سے ایک تو وہیں مارا گیا اور دوسرا گرفتار ہو گیا۔ دوسرے دن ہی اسی طرح کا واقعہ پیرس میں پیش آیا۔ ان دونوں واقعات کا اتنا شدید ردِ عمل ہوا کہ برطانیہ میں آباد مسلمانوں کے خلاف پہلی بار شدید مظاہرے ہوئے۔ ہماری بدبختی کا یہ عالم ہے کہ بھوک سے تڑپتے اور بلکتے ہوئے لاکھوں مسلمان یورپ کے خیرات خانوں کے باہر دھکے کھا رہے ہیں۔ ہمارے اپنے اپنے ملکوں میں ہمارے عوام کی مدد کا انتظام موجود ہے اور نہ کوئی اہتمام…اس کے بجائے کہ ہم اپنے اپنے نظام کو درست کریں اور علم و ٹیکنالوجی کی دنیا میں یورپ اور چین کی مانند اپنا غلبہ قائم کریں‘ ہم بم دھماکوں سے اپنے ہی عوام کے جسموں کے پرخچے اُڑا رہے ہیں۔ اگر کہیں باہر پہنچ گئے تو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی جانب مائل کرنے کے بجائے وہاں بھی انھیں دہشت گردی کے سراب میں دھکیل رہے ہیں۔ اسلام کی سربلندی کا راز کھوپڑیوں کے رقص میں پوشیدہ نہیں اور نہ یہ نشاۃِثانیہ کا نقطۂ آغاز ہے۔کاش ہم خون کا یہ دریا جلد سے جلد پار کر سکیں۔ نئی حکومت سے بیرونِ ممالک پاکستانیوں کی بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ وہ دن رات اس خبر کے انتظار میں رہتے ہیں کہ بجلی کی طلب و رسد پر حکومت کب تک قابو پا لے گی؟ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہمارے ملک کا سب سے بڑا خزانہ ہیں۔ اگر حکومت ان کے لیے انویسٹمنٹ کا کوئی بہتر انتظام کرے تو وہ پاکستان کے بہت سے مسائل میں قوم کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ حکومت کے سامنے بہت کٹھن راستہ ہے۔ معاشی طور پر ایک نیم جان ملک میں ازسرِ نو نئی روح پھونکنا، قوم کو ایک نقطے پر جمع رکھنا، دھماکوں اور قتل و غارت کو روکنا، شدید دگر گوں داخلی اور خارجی مسائل سے عہدہ برآ ہونا…کوئی آسان کام نہیں۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ سب کچھ کیے بغیر ہمارے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو گا۔ جرمنی نے پہلی بار اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے مکاتب میں اسلام کی تدریس بھی کرے گا۔ اسلامی نصاب تیار کرنے کے لیے اس نے مسلمانوں کی مختلف تنظیموں سے رابطہ کیا۔ اس نصاب کی تیاری کے لیے ترکوں کی ایک بڑی تنظیم اور جماعتِ احمدیہ نے اپنی خدمات پیش کیں۔ چنانچہ ان دونوں کو اسلامی نصاب تیار کرنے کا کنٹریکٹ مل گیا۔ اس پر جماعتِ احمدیہ نے اپنی کامیاب پالیسی پر خوشی کے ڈھول بجائے۔ اِدھر ہماری کسی مذہبی تنظیم نے اس جرمن اشتہار کو پڑھا اور نہ سفارت خانہ نے یہ زحمت گوارہ کی کہ اپنی حکومت کو اس جرمن پالیسی سے آگاہ کرے۔ یعنی سانپ تو کب کا گزر چکا… سفارت خانہ اب لکیر کو پیٹ رہا ہے۔ رہے ہمارے آشفتہ سر…تو انھوں نے پہاڑوں پر بندوقیں اُٹھا رکھی ہیں اور پیٹ پر بم باندھ رکھے ہیں…اور بچے کھچے مذہبی قائدین نے اسلام کے نام پر ووٹیں سمیٹنے کا کشکول اُٹھا رکھا ہے۔ لہٰذا کون جرمن نصاب میں شمولیت کی درخواست دیتا، یہاں تولوگوں نے اپنا نصاب تک نہیں پڑھا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں