امن کی تلاش

سرخ افواج نے دس برسوں تک افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے سر ٹکرانے کے بعد 1989ء میں واپسی کا رختِ سفر باندھا۔ اس انخلأ کے تین برس بعد 1992ء میں اُس دور کے افغان مجاہدین جونہی ڈاکٹر نجیب اللہ کا تختہ اُلٹ کر کابل پر قابض ہوئے تو حسبِ توقع اس شہر کو پہلے دوستم کے لشکر نے لوٹاپھر احمد شاہ مسعود کے مجاہدین اور حکمت یار کے مابین ایک خوفناک جنگ چھِڑ گئی۔ اس خون آشامی سے شاید ہی کابل کے تاریخی شہر کا کوئی گلی کوچہ، مکان یا کونہ کھدرا بچ پایا ہو۔ اس باہمی جنگ نے کابل کو قبرستان میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ امریکی سرپرستی کے سایہ تلے پاکستان 1979ء سے ان جہادی رہنمائوں کا میزبان بنا رہا۔ افغانستان کی تاریخ سے نابلد جرنیل شاہی اس حقیقت کو نہ سمجھ سکی کہ افغانستان میں آگ لگانا جتنا آسان ہے، کل اس کو بجھانا اُتنا ہی مشکل ہو گا۔ روسی فوجوں کے انخلأ کو ہمارے میڈیا اور سیاستدانوں نے پاکستان کی عظیم فتح قرار دیا حالانکہ ہماری فتح صرف اتنی تھی کہ مجاہدین کی باہمی جنگ کا آتشیں ملبہ بالآخر ہمی پر آن گرا۔ 1992ء میں میاں نواز شریف کا پہلا دورِ حکومت تھا، اس ملبے کو صاف کرنا اب اُنھی کی ذمہ داری ٹھہری۔ انھوں نے مجاہدین میں امن بحال کرانے کے لیے پہلے تو افغانستان کا دورہ کیا اور پھر مجاہدین رہنمائوں کو پاکستان میں بلوایا…لیکن امن کا قیام ممکن نہ ہو سکا۔بالآخر انھوں نے مجاہدین کے مابین صلح کرانے اور اس اُلجھی ہوئی ’گُتھی‘ کو سلجھانے کا ایک نیا حل تلاش کیا۔ وہ افغان مجاہدین رہنمائوں کو ایک جہاز میں بھر کر سعودی عرب لے گئے، جہاں’جلالت مآب‘ کے حضور افغان رہنمائوں نے جنگ بندی اور باہمی صلح کا عہد کیا۔ بعد ازاں ان سارے افغان رہنمائوں نے خانہ کعبہ میں قرآن کے صفحات پر اس معاہدے کو لکھا اور اس پر دستخط بھی ثبت کیے۔ لیکن جونہی یہ رہنما واپس کابل پہنچے، انھوں نے اپنے اپنے دفاتر میں ایک ایک عدد کالے دُنبے کے گلے پر چھُری پھیری اور یہ قربانی دینے کے بعد وہ قرآن پر تحریر کردہ معاہدے سے منحرف ہو گئے۔ انھوں نے ایک بار پھر اسلام کے نام پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کا ’کاروبار‘ شروع کر دیا۔ اس حقیقت کو سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے کہ افغانستان میں دین دھرم پر کوئی جھگڑا ہے اور نہ کہیں فرقہ پرستی کا یُدھ!نہ کہیں شیعہ سُنی قتال اور نہ وہابی اور غیر وہابی کے درمیان جنگ! افغان جنگ کا میکنزم صدیوں سے کچھ یوں چلتا آ رہا ہے کہ جب کبھی باہر سے کسی نے افغانستان پر فوج کشی کی، افغانوں نے مل کر اُس کا مقابلہ کیا۔ لیکن جونہی بیرونی لشکر افغانستان سے باہر نکلا، افغان جنگ ہمیشہ ایک نئی شکل اختیار کرتی رہی۔ یعنی قبائلی، نسلی، قومیتی اور لسانی بنیادوں پر اقتدار کی خاطر انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اُٹھا لیے۔ ہمیں قطر مذاکرات کو افغان تاریخ کے اسی سیاق و سباق میں دیکھنا چاہیے۔ یعنی قطر مذاکرات کی کامیابی اس بات کی ضمانت نہیں ہو سکتی کہ امریکہ اور طالبان اچانک افغانستان میں امن کا نیا سورج طلوع کر پائیں گے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ افغانستان میں طالبان کے بہت سے مخالفین اور دشمن موجود ہیں (مثلاً چھوٹی قومیتیں، مذہبی اور لسانی گروہ، خواتین وغیرہ )جواُن کے دورِ حکومت میں ان کی سخت گیر پالیسیوں کا شدید نشانہ بنے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران موجودہ افغان حکومت اور اس کے حامیوں نے طالبان کے خلاف ایک خونی جنگ لڑی۔یعنی افغانستان میں موجودہ حکومت، طالبان اور سابق شمالی اعتماد کے رہنمائوں کو مفاہمت کی میز پر اکٹھا کیے بغیر افغانستان میں کسی ایک گروہ کے ساتھ امن کا معاہدہ امن کے قیام کے مترادف نہیں ہو سکتا۔ اگر امریکہ علاقائی اقتدار کو ان تینوں گروپوں کے درمیان کچھ اس طرح منقسم کرتا ہے کہ جنوبی اور مشرقی افغانستان پر طالبان کا غلبہ رہے، شمالی علاقاجات پر شمالی اتحاد کا اور مرکز میں یہ سارے گروہ باہم مشترکہ شامل ہوں…یہ ایک ناقابلِ عمل فارمولا ہے جو بالآخر افغانستان کو باہم تقسیم کرنے پر منتج ہو گا۔ شاید ہی کوئی افغان گروہ اس مضر معاہدے کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ ان سارے گروپوں کو ایک چھاتے تلے جمع کر کے اُن کی رائے سے امن کا کوئی مستقل حل نکالا جائے۔ بصورتِ دیگر جانے ہم کب تک امن کی تلاش میں مذاکرات کے سراب میں بھٹکتے رہیں گے۔ آج افغان سرکاری فوج کا عدد ساڑھے تین لاکھ سے کچھ زائد ہے۔ اگر افغان مسئلے کا کوئی مستقل رائے حل نہ نکلا تو اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ قومی فوج (1992ء کی مانند) کہیں لسانی، علاقائی اور نسلی بنیادوں پر منقسم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار نہ ہو جائے۔ پاکستان کو افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے لیکن اُسے کسی خاص گروہ کے بجائے سبھی افغان رہنمائوں سے یکساں سلوک اور یکساں روابط رکھنے چاہئیں کیونکہ جب تک افغانستان میں امن کا خواب ادھورا رہے گا، اُس کا سب سے بڑا نقصان ہمی کو پہنچے گا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف افغان ایشو کی پیچیدگیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انھیں اپنے ساتھ ایک ایسی ٹیم لینی چاہیے جو اس مسئلے کے پس و پیش پر بھی وارد ہو۔ افغانستان کی دہکتی ہوئی آگ سے پاکستان کو بچانا اور امن کی جانب قدم بڑھانا ہی موجودہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ دنیا، برطانیہ کو امریکی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل مندوب سمجھتی ہے۔ لہٰذا ڈیوڈ کیمرون کی افغانستان اور پاکستان میں آمدورفت کو اِسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔یعنی جہاں امریکہ براہ راست گفتگو سے گریز کرتا ہے وہاں وہ کسی ٹونی بلیئر یا ڈیوڈ کیمرون کو آگے کر دیتا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنی اپنی ضرورت کے مطابق بڑے خوشنما نعرے اور خوبصورت الفاظ جگالنے کو ہی کامیاب ڈپلومیسی گردانتی ہیں۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد 1973ء میں جب بھٹو نے امریکہ کا دورہ کیا تو امریکی صدر نے ہوا میں جام لہراتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پاکستان، امریکی خارجہ پالیسی کا سنگِ بنیاد ہے۔ (بعد میں اس سنگِ بنیاد کا جو حشر ہوا، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔) کچھ اِسی طرح ڈیوڈ کیمرون کا یہ فرمانا کہ پاکستان کا دشمن، اُن کا دشمن ہے…سُننے کو تو یہ بات دل کو بہت بھاتی ہے لیکن اے کاش ان الفاظ میں کچھ صداقت کا بھرم بھی موجود ہو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں