ہر محاذ پر غیروں کی کامیابی اور اپنی پسپائی، اُن کی آسودگی اور اپنی ناآسودگی کے ذکر سے طبیعت بے رنگ اور بے مزہ سی ہو جاتی ہے۔ دل و دماغ سے ہُوک سی اُٹھتی ہے کہ آخر ہم ہی اتنے گئے گزرے، بے سمت اور بے منزل کیوں نکلے؟ ہم نے کیوں اپنے اِردگرد جھوٹ پر مبنی ایسی مصنوعی فضأ تخلیق کیے رکھی، جس کا نہ حقائق سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہمارے حال یا مستقبل سے کوئی واسطہ؟ ہم جھوٹ لکھنے، جھوٹ بولنے، جھوٹ سُننے…اور پھر اُس کی تشہیر پر سر دُھننے میں مشغول ہیں۔ ہم ایسے قوال ہیں، جو اپنے ہی سُرتال پر، خود ہی وجد اور حال میں آجاتے ہیں۔ نہ تو ہمیں سچائی میں حُسن نظر آتا ہے اور نہ حُسن میں سچائی! پورا سماج اسی روش کا اسیر ہے۔ جہاں کسی نے اختلافِ نظر کے لئے لب کھولے، ہم اُسے سنگسار کرنے کو دوڑے! ہم اتنی سی بات سمجھنے کو تیار نہیں کہ اپنے اردگرد کی دنیا کو دیکھے، جانے، سمجھے اور بوجھے بغیر، نہ تو ہم آج کی دنیا میں کوئی مقام حاصل کر سکتے ہیں اور نہ کسی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ ہندوستان ہی کو لیجئے، اس کی ساری تاریخ ہمارے ساتھ جُڑی ہے۔ جغرافیائی جسم بھی ایک دوسرے سے پیوست ہے۔ ہندی عوام کوئی آسمان سے نہیں اُترے۔ اُن میں وہ سب خامیاں اور خوبیاں بدرجہ اُتم پائی جاتی ہیں، جو ہماری رگ و پے میں بھی اُسی طرح دوڑ رہی ہیں۔ آخر وہ ہم سے آگے کس طرح نکلے؟ اُن کے ادارے کیونکر ہم سے زیادہ توانا اور فعال ہوئے؟ اس فرق کو جاننے کے لئے اس بات کا مطالعہ ضروری ہے کہ اُن کے ہاں صنعت و حرفت، درآمد اور برآمد، تجارت اور زراعت نیز جمہوریت اور سیاست کی نمو کس نہج پر ہوتی رہی ہے؟ یہ جاننا لازم ہے کہ اُن کے ہاں مارشل لأکا نفاذ کیوں نہیں ہوا؟ اُن کے سیاست دانوں نے سوئس بنکوں کے منہ کیوں نہیں بھرے؟ وہ کرپشن کی دوڑ میں ہم سے کیوں پیچھے رہ گئے؟ اُن کے تاجروں، صنعتکاروں اور حکمرانوں نے بنکوں کے قرضے کیوں ہڑپ نہیں کیے؟ اُن کے ہاں کس طرح عام تاجر بھی بنکوں کے پیسے کھائے بغیر، بہت بڑے صنعت کار بن پائے؟ گوتم ایڈوانی کی ہی مثال لیجئے…وہ ایک عام سے خاندان میں پیدا ہوا۔ اُس کی زندگی ایک ہنگامہ خیز فلمی داستان کی مانند گزری۔ دورانِ تعلیم اُسے ممبئی یونیورسٹی سے اخراج کا چرکا سہنا پڑا۔ یونیورسٹی بدر ہونے کے بعد، اُس نے ایک جوہری کے ہاں ملازمت تو اختیار کر لی لیکن اس نے تعلیم سے محرومی کے صدمے کو فراموش نہیں کیا۔ ہیروں کی تجارت سے اُس نے بے پناہ تجربہ سمیٹا لیکن اُس کا دل تجارت کی بجائے، صنعت کی جانب مائل تھا۔ چنانچہ وہ پلاسٹک کے ایک کارخانے میں ملازم ہو گیا۔ دو چار سال بعد اُس نے اِدھر اُدھر سے مانگ تانگ کر کچھ رقم اکٹھی کی اور یوں پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی فیکٹری کھڑی کر لی۔ اس کاروبار کے اسرار و رموز سے تو وہ پہلے ہی بخوبی واقف تھا، اب اسے پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کا یہ زریں موقعہ ملا تو چند ہی سالوں کے اندر اُس نے کایا پلٹ کر رکھ دی۔ لیکن سیاہ ہیرے (کوئلے) کے سلگتے جسم سے برق کی تولید، اُس کی اصل منزل تھی۔ اُس نے تولیدِ برق کے شعبے میں ایسا کمال کر دکھایا کہ آج اُسے صنعتی دنیا کا ’مُغلِ اعظم‘ کہا جاتا ہے۔ 49سالہ گوتم، آج ہندوستان کا چھٹا بڑا صنعت کار ہے۔ اُس کے صنعتی اثاثے 20ارب ڈالر (یعنی ہمارے فارن ایکسچینج سے تقریباً 10بلین زیادہ) کی حدود عبور کر چکے ہیں۔ گوتم نے آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں نہ صرف کوئلے کی اپنی ذاتی کانیں خرید رکھی ہیں بلکہ وہاں اُس کی نجی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ اُس کا اپنا بحری بیڑہ ہے، جو ان دونوں بندرگاہوں سے دنیا کا بہترین کوئلہ، ہندوستان کی مندر نامی بندرگاہ پر پہنچاتا ہے۔ گجرات کے ساحل پر واقع ’مندر‘ نامی یہ بندرگاہ بھی اُس کی ذاتی ملکیت ہے۔ اُس نے اپنی اس بندرگاہ سے کئی کلومیٹر لمبا ریلوے ٹریک بچھا رکھا ہے۔ وہ اسی ٹریک سے یہ کوئلہ اپنے تھرمل پاور پلانٹس تک پہنچاتا ہے۔ آج وہ نجی شعبے میں اپنے ملک کے لئے سب سے زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انڈیا بھی لوڈشیڈنگ اور بجلی کی شدید کمی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ لیکن اس کمی کی وجہ ہمارے ہاں کی مانند، دفاتر اور محلات میں ’گھرر گھرر‘ چلتے ائرکنڈیشنز نہیں… بلکہ اُس کی صنعتی پیداوار میں ناقابلِ یقین اضافہ ہے۔ سرکاری اعداد کے مطابق چین کے بعد، ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے اور اُس کی قومی پیداوار 8.6فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ منموہن سنگھ کے دورۂ امریکہ کے دوران اوباما نے تو یہاں تک کہہ دیا، ’’ سردار جی! آپ کے پاس غیر سرکاری اداروں اور چھوٹے نجی کاروبار میں اضافے کے صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ہمارے معلوماتی سروے کے مطابق انڈیا کی اکانومی 12.5فیصد کی شرح سے نمو کر رہی ہے۔‘‘ الغرض انتہائی سرعت سے پھیلتے ہوئے انڈین صنعت کے جسم کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لئے بجلی کی ضرورت ہے اور اس کمی سے نمٹنے کیلئے ہند سرکار، دریائے چناب، جہلم، راوی اور ستلج پر پن بجلی پیدا کرنے کے صدہا ڈیمزِ تعمیر کر رہی ہے۔ اس کے باوجود بجلی کی بڑھتی ہوئی صنعتی مانگ کو پورا کرنا ہندوستانی حکومت کے بس سے باہر ہے۔ چنانچہ اس خلأ کو انتہائی تیزی کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر پُر کر رہا ہے۔ دنیا کے تین ممالک یعنی انڈونیشیا، سائوتھ افریقہ اور آسٹریلیا میں کوئلے کی اعلیٰ ترین کوالٹی میسر ہے جس میں نمی (Moisture) اور فاسفورس انتہائی کم مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں دو بڑے سائنسدان تھر میں دریافت ہونے والے کوئلے سے بجلی بنانے کے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ جبکہ کوئلے کے بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اس عام کوالٹی کے کوئلے سے بجلی بنانا کوئی منافع بخش کام نہیں ہو گا۔ بلکہ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ نمی اور فاسفورس کی زیادہ مقدار اُس کارخانے کی مشینری کو ہی چند سالوں میں تباہ کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر اس کی کوالٹی کسی بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوتی تو دنیا کی صدہا کمپنیاں بجلی بنانے کی آفر لے کر پاکستان کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہوتیں۔ مزید برآں کہ آئی ایم ایف نے بجلی بنانے کے صرف کسی ایسے پراجیکٹ میں امداد کا عندیہ دیا جس میں انڈونیشیا کا اعلیٰ درجے کا کوئلہ استعمال ہو۔ حال ہی میں گوتم ایڈوانی اور پاکستان کے مابین بجلی کی خرید اور ترسیل کے سلسلے میں مذاکرات ہوئے۔ گوتم ایڈوانی کا تقاضا 11روپے فی یونٹ تھا جبکہ پاکستان انھیں 9روپے فی یونٹ دینے پر آمادہ تھا چنانچہ یہ معاملہ وہیں اٹک کر رہ گیا۔ …اور اب آئیے ذرا اپنی جانب! ہم پچھلی کئی دہائیوں سے نہ تو کالاباغ ڈیم بنا سکے اور نہ پن بجلی کا کوئی نیا منصوبہ ترتیب دے پائے۔ عروس البلاد کراچی، ہمارا سب سے بڑا شہر بھی ہے اور بندرگاہ بھی! ملک کی 70فیصد صنعت اسی شہر کے سینے پر آباد ہے، مگر حشر دیکھئے… کہ پچھلے بیس برسوں سے اس شہر کو ایک پل سکون کا سانس نہیں لینے دیا گیا۔ روز بروز اس کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ کبھی کشت و خون کے دریا بہنے لگے تو کبھی بموں کے دھماکے، جلائو اور گھیرائو کا سماں پیدا ہو گیا۔ کبھی ٹارگٹ کلنگ کی تحریک اپنے عروج پر پہنچی تو کبھی لاشوں کو بوریوں کا کفن پہنایا جانے لگا۔ بمشکل کوئی ایسا خوش نصیب دن گزرتا ہو گا کہ جب لاشیں اس بدنصیب شہر کی گود میں نہ گرتی ہوں! رہی صنعت…تو اُس کا جام پہیہ ایک عرصے سے زنگ خوردہ ہو چکا ہے۔ بجلی اور گیس کے میسر ہونے…نیز مہنگائی اور دہشت گردی سے نجات پانے کے لیے قوم پل پل گِن کر زندگی گزار رہی ہے۔ عوام کا موجودہ حکومت سے یہ توقع رکھنا عبث نہیں ہو گا کہ وہ اِن گنجلک مسائل کو سمجھتی بھی ہے اور اُنھیں حل کرنے کے لیے تگ و دو بھی کرے گی۔ مبصرین کے نزدیک چین کا حالیہ دورہ اِسی منزل کی جانب پہلا قدم ہے۔ پاک چین معاہدوں پر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر فوری عمل درآمد ہی ملک کے لیے بہتر نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ’’(اعتذار:۔ میں نے مصر کے سابق صدر مُرسی پر اپنا گزشتہ کالم جرمنی سے فون پر لکھوایا تھا۔ لائن صاف نہ ہونے کے باعث محمد بدیع کے ساتھی رہنمائوں کی 27بیگمات کی بجائے، محمد بدیع کی 27بیگمات کا لفظ چھپ گیا۔ برائے کرم درستگی کر لیجئے)‘‘۔