1919ء میں جب تیسری برٹش افغان جنگ چھِڑی تو اِن قبائلی ایجنسیوں نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر افغانستان کا ساتھ دیا۔ انھی قبائلی لشکروں کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ افغان فوج ٹانک تک پہنچ سکی۔ صرف اِسی علاقہ سے افغان فوج نے پیش قدمی کی تھی، باقی سب علاقوں سے اُس نے کئی کلومیٹر تک پسپائی اختیار کی۔ شمالی وزیرستان کا رہنے والا ’فقیر آف ایپی‘ (Faqir of Epi) ایک ناقابلِ فراموش جنگجو کردار تھا۔ وہ 1903ء میں پیدا ہوا، 1923ء میں حج کیا اور 1929ء میں اس نے انگریز کے خلاف بندوق اُٹھائی۔ اس جنگ کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ رام بی بی نام کی ایک پندرہ سالہ ہندو لڑکی کو ایک مسلمان استاد کوہاٹ سے اغواکر کے شمالی وزیرستان لے گیا۔ وہاں جرگے نے رام بی بی کا نام، اسلام بی بی رکھا۔ بالآخر انگریزوں کے شدید دبائو اور اس وعدے پر لڑکی کو واپس کیا گیا کہ اس کے والدین اس کی باقاعدہ شادی کریں گے، اس کے بعد وہ جہاں چاہے جا سکتی ہے۔ جونہی لڑکی شمالی وزیرستان سے باہر نکلی، اُسے کوہاٹ کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں پہنچا دیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے لڑکی کے والدین کو بُلوایا اور اُسے اُن کے حوالے کر دیا۔ لڑکی کے والدین اُسے لے کر پنجاب کی جانب بھاگ گئے۔ اس بات کو پشتونوں کی توہین قرار دیتے ہوئے فقیر آف ایپی نے ہتھیار اُٹھا لیے اور 1947ء تک انگریزوں کے خلاف لڑتا رہا لیکن انگریزوں کے جانے کے بعد اس کی نفرت کا رُخ نوزائیدہ پاکستان کی جانب ہو گیا۔ چنانچہ وہ تادمِ مرگ (1963ء تک) پاکستان کی فوج سے برسرِ پیکار رہا۔ یہاں افغانوں کا یہ قانون یاد رہے کہ جہاں بغاوت کا شعلہ بھڑکتا تھا، وہ اُس علاقے کے سارے گائوں کو جلا دیا کرتے تھے۔ انگریزوں نے بھی یہی کارروائی جاری رکھی۔ غالباً 1963ء تک پاکستان نے بھی اسی سزا پر عمل کیا۔ 1979ء کے افغان انقلاب سے ’یاغستان‘ کا علاقہ دہشت گردی کا بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر بن گیا۔ڈیورنڈلائن موجودہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خطِ تقسیم ہے۔ اس کے شمالی حصہ میں گیارہ میل کی پٹی ایک دُم کی شکل میں موجود ہے۔ یہ حصہ افغانستان کانہیں تھا۔ اس کے حکمران علی مردان شاہ تھے۔ انگریز یہ نہیں چاہتا تھا کہ برٹش انڈیا کی سرحدات براہ راست روس سے مل جائیں کیونکہ اِس پٹی کی ایک جانب روس تھا۔ چنانچہ یہ دُم نما پٹی انگریز نے جبراً امیر عبدالرحمان کے سر پر تھوپ دی حالانکہ امیر یہ علاقہ لینے سے انکار کرتا رہا۔ علی مردان شاہ کو انگریزوں نے پینشن وغیرہ دے کر ٹرخا دیا۔ شاید ہی کسی کو اس اہم ترین بات کا علم ہو کہ آج کے افغانستان کے چاروں جانب جو سرحدات پائی جاتی ہیں، وہ ڈیورنڈ نے ہی کھینچی تھیں۔ دریائے آمو کے اُس پار افغانوں کی چند ایک چوکیاں موجود تھیں۔ اِسی طرح دریائے آمو کی اِس جانب روس کی کچھ چوکیاں تھیں۔ ڈیورنڈ کی کامیاب ڈپلومیسی کا اندازہ اس بات سے کر لیجئے کہ اس نے ان دونوں ممالک کو اپنی اپنی چوکیوں سے دستبردار ہونے پر آمادہ کر لیا…چنانچہ دریائے آمو کو بین الاقوامی سرحد کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اُدھر افغانستان اور چین کی سرحد بھی کسی نشاندہی کے بغیر تھی۔ ڈیورنڈ نے اس مشکل سرحد کی بھی حد بندی کرائی، جو آج تک اُسی طرح موجود ہے۔ یعنی چین کے ساتھ افغانستان کے سرحدی جھگڑے کو ڈیورنڈ نے بخوبی نمٹا دیا۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج کے افغانستان کی ساری سرحدات ڈیورنڈ کی کھینچی ہوئی ہیں۔ 1979ء سے لیکر آج تک اِنھی قبائلی ایجنسیوں کو افغان جہاد کی بھٹی میں دہکایا جاتا رہا۔ چونکہ ان علاقوں پر عملاً پاکستانی قانون لاگو نہیں ہوتا لہٰذا یہاں عرب، چیچن ، افریقائی مسلم ممالک کے جنگجو اور خود پاکستان سے اس جہاد میں شامل ہونے والے نوجوان بکثرت موجود ہیں بلکہ اب تو حقانی نیٹ ورک کا صدر دفتر بھی وہیں بتایا جاتا ہے۔ ان نیٹ ورکس کے متعلق امریکہ کو مکمل معلومات حاصل ہیں ، لہٰذا اس نے شمالی وزیرستان کو ڈرون حملوں کا سب سے بڑا ہدف بنا رکھا ہے۔ دراصل قبائلی شورش کے خلاف ہمارے فوجی حملوں اور ڈرون حملوں کا اصل پسِ منظر یہی ہے…! ڈیورنڈلائن کی تقسیم کے تحت صرف یہی پانچ ایجنسیاں تھیں جن کی ننانوے سال کی لیز موجود تھی۔ان کے علاوہ افغانستان کے چاروں جانب کوئی ایسا علاقہ موجود نہیں جو لیز پر دیا گیا ہو۔ 20نومبر 1992ء میں ان ایجنسیوں کی لیز ختم ہو چکی ہے۔ ہمیں خواہ یہ بات بُری لگے یا اچھی …مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ان علاقوں میں بروقت نہ تو ریفرنڈم کروا سکے، نہ اُنھیں پاکستان میں ضم کرنے کے لیے کسی جرگے سے تصدیق کروائی اور نہ ہی کوئی اور قانونی جواز مہیا کر پائے۔ صرف حکومتیں بنا لینا، انتخابات کروا لینا یا وزیر بن جانا…آئین پر عمل نہیں ہوتا بلکہ آئین عوام کو غربت و افلاس، بیماری و لاچاری اور جہالت اور نا انصافی سے نجات دلانے کی ضمانت ہوا کرتا ہے۔ جب تک ہم قبائلی علاقہ جات کو یہ تصور اور یہ ضمانت پیش نہیں کریں گے یا اس پر صدقِ دل سے عمل پیرا نہیں ہوں گے…آئین بارہ صفحات کی وہی دستاویز رہے گا جسے تن تنہا جنرل ضیاء الحق کئی برسوں تک اپنے بوٹوں تلے کچلتا رہا۔(جاری)