یہ بھی عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ انڈیا اور پاکستان میں جوہری ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھنے والے دونوں سائنسدان مسلمان ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1952ء میں بھوپال سے پاکستان آئے۔ ان کی تاریخ پیدائش اپریل 1936ء بتائی جاتی ہے۔ وہ بھی تعلیم کے لحاظ سے ڈاکٹر عبدالکلام کی مانند Metallurgical انجینئر اور نیوکلیئر سائنسدان ہیں۔ ان کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ انھوں نے پاکستان کا بم بنانے کے لیے ایک نیا فارمولا استعمال کیا، جو ہالینڈ سے ان کے ہاتھ آیا۔ یہ گیس سینٹری فیوج یورینیم اِن رچمنٹ کا فارمولا تھا جسے 1944ء میں ترک کر دیا گیا اور وہ اب محض فائلوں کی حد تک موجود تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد برلن کی یونیورسٹی میں ریسرچ سکالر ہوئے پھر انھوں نے ڈاکٹریٹ کے حصول کے لیے ایمسٹرڈیم کا رُخ کیا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا۔ مغربی حصے کو پاکستان کا نام دے دیا گیا اور بھٹو اس کے پہلے حکمران بنے۔ دریں اثنا انڈیا نے پوکھران میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔ بھٹو نے بھی اعلان کر دیا کہ ہم بھی ایٹم بم بنائیں گے خواہ بعد میں ہمیں گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس دھماکے کے فوراً بعد پاکستان کے وزیراعظم کو ایک خط لکھا جس میں اپنے سائنسی تجربات کی بنا پر یہ دعویٰ کیا کہ پلاٹینم کے فارمولے پر عمل کرنے سے دس پندرہ سال سے پہلے بم نہیں بنایا جاسکے گا‘ اس کے برعکس انھوں نے یورینیم کا فارمولا پیش کیا جس کے ذریعے پاکستان جوہری ٹیکنالوجی میں بہت جلد کامیابی حاصل کر سکتا تھا۔ دسمبر 1974ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈ سے مکمل طور پر فارغ ہو کر پاکستان پہنچے۔ بھٹو کے ساتھ ان کی گفتگو رات گئے تک جاری رہی۔ اس گفتگو میں ڈاکٹر منیر اور ڈاکٹر مبشر حسن بھی شامل تھے۔ بالآخر 1976ء میں وہ پاکستان کے ایٹمی پراجیکٹ میں شامل ہو گئے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا شمار ایسے لوگوں میں بآسانی کیا جا سکتا ہے جو اپنے سر پر چھت کا سایہ بھی گوارا نہیں کرتے لہٰذا وہ جہاں بھی پہنچے‘ مخالفین پیدا کر لیے۔ انھوںنے ڈاکٹر منیر جیسے بلند پایہ سائنسدان پر کھلے بندوں شدید تنقید کی جس کے باعث ان کی اپنی شخصیت بارے لوگوں میں منفی تاثر پیدا ہوا۔ چند ہی سالوں میں پاکستان کی سیاست میں ایک زلزلہ آیا جس میں بھٹو تہہ خاک ہو گئے اور جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آگئے۔ انھوں نے بھٹو کا کِریا کرم کرنے کے بعد ریسرچ ڈائریکٹر، ڈاکٹر منیر کو بھی چلتا کیااور اس بلند ترین عہدے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فائز کر دیا۔ اس نئی خبر پر سائنسی برادری کا ایک حصہ حیران تھا اور دوسرا پریشان۔ بالآخر 28مئی کا وہ دن آ ہی گیا جب انڈیا کے پانچ دھماکوں کے مقابلے میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سربراہی میں بنائی گئی ٹیم نے چاغی کے مقام پر پانچ دھماکے کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان اب جوہری قوت ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بین الاقوامی سطح پر ان الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا کہ انھوں نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کی۔ ان کا ملک سے باہر جانا تو پہلے ہی ممنوع تھا اب ان پر سرکار نے بھی پابندی لگا دی۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جتنی عزت کمائی تھی اُسے خود ہی ریت کی طرح اُڑا دیا۔ اتنا باعزت انسان، جسے قوم نے ’محسنِ پاکستان‘ کا اعزاز دے کر اپنے شانوں پر بٹھائے رکھا بالآخر وہ ایک کمزور پارٹی میں شامل ہو گیا۔ وہاں بھی چندے انتظار کیے بغیر مستعفی ہوا اور اپنی ایک سیاسی پارٹی بنا لی۔ جب الیکشن قریب آئے تو انھیں یہ احساس ہو گیا کہ شاید ہی کوئی سرپھرا ان کی پارٹی کو ووٹ ڈالے۔ پہلے تو وہ میاں برادران کو شدید مغلظات سے نوازتے رہے پھر اچانک انھوں نے عمران خان کا جھنڈا اُٹھا لیا۔ دریں اثنا انھوں نے یہ بیان بھی جاری کیا کہ وہ میاں برادران کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور اگر انھیں صدارت کی کرسی پیش کی جائے تو و ہ اُسے قبول کر لیں گے۔ ان کا یہ سارا کھیل تماشا صرف ایک بات ہی ثابت کرتا ہے کہ لازم نہیں کہ ایک اچھا سائنسدان، ایک اچھا ٹیچر اور ایک اچھا کھلاڑی… ایک بہترین حکمران بھی ثابت ہو۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں قصاب بھی ٹوکے سے گوشت کے ٹکڑے کرتے ہوئے یہ اعلان کرتا جاتا ہے کہ اگر اُسے صرف دو ماہ کے لیے حکومت مل جائے تو وہ سب برائیوں کو گوشت کی مانند ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ ہر شخص اپنے اپنے مقام پر بھی بہترین پرفارمنس دے سکتا ہے۔ جس غلطی کو ڈاکٹر عبدالکلام بہت جلد سمجھ گئے اور انھوں نے دوبارہ انتخابات لڑنے سے انکار کر دیا حالانکہ وہ ہندوستان کے بلامقابلہ صدر تھے‘ وہ راز ڈاکٹر عبدالقدیر خان اب تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لیکن جیسے کہ پنجابی کی مثال ہے کہ گرے بیروں کا کچھ نہیں بگڑتا، انہیں صاف کر کے کھایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اب تک جو ہزیمتیں اُٹھا چکے، لوگوں کے تمسخر کا نشانہ بن چکے، اپنے ہمالہ جیسے قد پر خود ہی کلہاڑے چلا چلا کر اُسے بونا کر دیا… اگر وہ گلیوں میں ووٹوں کی بھیک مانگنے اور سیاسی نعرے لگانے کی بجائے اب بھی اپنی اصل فیلڈ یعنی سائنس کی جانب پلٹ آئیں تو قوم ان کی احسان مند ہو گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد‘ وقت کا ہر لمحہ ان کے لیے انتہائی اہم ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ ڈاکٹر عبدالکلام کی مانند ایک لاکھ نوجوان سائنسدان پیدا کرنے کا نعرہ دیں اور مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دے کر خود اپنے اس منصوبے کی قیادت بھی کریں۔ اگر وہ ایک لاکھ سائنس کے یہ نئے چراغ اس سرزمین پر روشن کر جائیں تو ہمارے ملک پر چھائے اندھیاروں کے بادل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں گے۔ ہمارے ملک کا اصل اثاثہ یہی نوجوان ہوں گے، جو ہماری ایجادات، ہماری صنعت اور ہمارے مستقبل کے ضامن ہوں گے۔ (ختم)