ہم اپنے کلچر سے متنفر، اپنے وجود سے شرمسار اور اپنی تاریخ سے گریز پا ایک ایسی قوم ہیں جو دوسروں کی کھال اور دوسروں کے ماضی میں زندہ رہنے پر بضد ہو۔ چنانچہ ہم نے نہ صرف تاجکیوں، ازبکوں، منگولوں، افغانوں، عربوں اور ایرانیوں کی تاریخ پر ’ناجائز قبضہ‘ کر رکھا ہے بلکہ احساس کمتری کی اسی نفسیاتی فضا کے زیر اثر ہم اپنے آبائو اجداد کو ’امپورٹڈ‘ ثابت کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ جو عربی اور عجمی نہ بن سکا، وہ وسط ہند سے آیا ہوا ’مہاجر‘ کہلوا کر ہی خوش ہو لیا۔ اسی پر کیا موقوف، ہمارے ہاں تو اڑھائی ہزار سال پرانے ’مہاجرین‘ بھی آباد ملتے ہیں یعنی جس کسی نے تاریخ کے جس حصے میں اس سرزمین پر قدم رنجہ فرمایا، وہ اب تلک اسی نکتے پر اٹکا ہوا ہے۔ مقصد یہ کہ اس ’اجنبی‘ سرزمین کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق، کوئی رشتہ اور کوئی واسطہ نہیں۔ دنیا کی ہر قوم اپنی دھرتی کو اپنی ماں سمجھتی ہے، جبکہ ہم اسے اپنی ایک مفتوحہ کنیز سمجھتے ہیں۔ جبھی ہم نے اس کا چہرہ نوچ رکھا ہے۔ آج کے تلخ حقائق یہ ہیں کہ جہاں کبھی طارق بن زیاد نے کشتیاں جلائی تھیں، اب بھی مراکش کے بربر، رات کے اندھیرے میں سپین کے اسی ساحل پر کشتیوں سے اترتے تو ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ آج ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بجائے سیاسی پناہ کی درخواستیں ہوتی ہیں اور وہ مال غنیمت اکٹھا کرنے کے بجائے سوشل سکیورٹی(خیرات) کی بھیک مانگتے ہیں۔ گویا زمانے کی گردش کسی ایسی قوم کو معاف نہیں کرتی جو اس کے ساتھ قدم نہ ملا سکے۔ کیا ترکوں کی عظمت رفتہ چیخ چیخ کر اپنے عبرتناک حال کا ماتم نہیں کر رہی کہ کل تک جن ترکوں کی فوجیں ویانا کے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں، آج ان کی نسلیں اسی ویانا کی سڑکوں پر جھاڑو لگانے کو بھی اپنی خوش بختی سمجھتی ہیں۔ وقت کا اژدہا سبکتگینوں، الپتگینوں، التمشوں، ایبکوں، غزنویوں اور غوریوں کی قبروں کے نشان تک چاٹ گیا۔ آج ہمارے دانشوروں کی تحریریں یا پھر ہمارا تعلیمی نصاب ہی ان کی آخری آرام گاہ ہے۔ ہم نے تاریخ کی عبرت سرا سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے ’نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر‘ ماضی کے ان مزاروں کی حفاظت کو ہی اپنے وجود کی ضمانت سمجھ رکھا ہے۔ آج دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی؟ اور ہم کشکول لیے ماضی بھی مانگ رہے ہیں اور حال بھی۔ طرفہ تماشا یہ کہ ہم اس مصنوعی خول سے باہر آنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اپنی آنکھیں کھولنے پر آمادہ۔ زندہ اقوام کس طرح زندہ ہوتی ہیں؟ اس کے لیے ہمیں چین، جاپان، جرمنی اور امریکہ جانے کی ضرورت نہیں کہ ان پیش رفتہ ممالک کے ساتھ ہماری کوئی نسبت ہے اور نہ ان کے ساتھ مقابلے، مسابقے اور موازنے کا ہی کوئی امکان! چلیے سنگاپور ہی کی مثال لیتے ہیں جس کا حجم ہمارے گجرات ’شریف‘ سے بھی کم ہو گا۔ اس میں کسی قسم کی معدنیات موجود ہیں اور نہ پٹرول ایسا کالا سونا ہی برآمد ہوتا ہے؛ چنانچہ اس شہر نما چھوٹے سے ملک کی ساری ترقی کا انحصار اس کی محنت اور پلاننگ کا نتیجہ ہے۔ آج اس کی ایئرلائن دنیا کی بہترین ہوائی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس نئے جہازوں کا اتنا بڑا بیڑہ موجود ہے کہ جسے یورپ اور امریکہ میں بھی رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔سنگاپور کے مقابلے میں اپنی ایئرلائن، اپنی اپنی فی کس آمدنی کا حوالہ دینا، خود کو شرمندہ کرنے کے مترادف ہے۔ سنگاپور کی ہوش ربا معاشرتی ترقی کا آغاز 80ء کی دہائی میں ہوا۔ اس ملک کے داخلی امن و امان، سماجی تحفظ، مذہبی رواداری اور سیاسی استحکام کی کیفیت نے یورپی اور امریکی سرمائے کو اپنی جانب کھینچا۔ آج اس کے بینک زرمبادلہ کے ذخائر سے بھرے پڑے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب پٹرول کی قیمتوں میں کمی آئی تو وہاں بجلی، پٹرول اور کرائے سستے ہو گئے اور ادھر ایک ہم ہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے الائو میں دہک رہے ہیں۔ لوگوں کو ملازمت اور روزگار کے مواقع بہم پہنچانے کے بجائے، ڈائون سائزنگ کے کلہاڑے سے ان کا معدہ چھلنی کرنے میں مصروف ہیں۔ ہماری غلط ترجیحات نے ہمارا بیڑہ غرق کیا۔ 1960ء کی ابتدا میں قومی معیشت نے جونہی اوپر کی جانب اٹھان بھری جنرل ایوب خان نے 1965ء میں ’دمادم مست قلندر‘ کا بگل بجا دیا۔ اس بے نتیجہ جنگ کا ایک خوفناک نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا نے ہماری معاشی امداد منقطع کر دی اور دوسرا نتیجہ 1971ء کی جنگ کی صورت میں برآمد ہوا، جس نے ہمارا جغرافیہ بھی آدھا کر دیااور معیشت بھی صفر کر دی۔ 1972ء میں بھٹو برسراقتدار آئے، ہماری سب بڑی غلطی یہ تھی کہ ہم نے متعفن جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے بجائے نیشنلائزیشن کے ذریعے عام صنعتی ارتقا کو ہی جامد کر دیا۔ 1977ء میں جنرل ضیا قوم کے کندھوں پر سوار ہو گئے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کی خاطر ادھر بھٹو کو تختۂ دار پر کھینچااور ادھر ملک کو اسلام کے نام پر فرقہ واریت اور ’افغان جہاد‘ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ گویا دنیا نے 80ء کے عشرے میں امریکی سرمائے سے صنعتیں لگائیں اور اپنی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار کرلی اور ہم امریکی جنگ لڑتے پھرے۔ ہمارے جملہ مسائل نے بڑھاپے کی بیماریوں کی مانند ایک دوسرے سے جنم لیا ہے۔ لہٰذا ان کے اجتماعی علاج ہی سے قوم کو شفا مل سکتی ہے۔ ہماری معیشت آئی ایم ایف کی تجوری میں گروی پڑی ہے اور وہ صرف اس لیے کہ شدید معاشی زبوں حالی کرپشن، بدعنوانی، بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کے باعث آئی ایم ایف کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک یا ادارہ ہمارے ہاں روپیہ لگانے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ ہماری اپنی ذہنی حالت یہ ہے کہ جس کسی کے پاس پانچ دس لاکھ کی پونجی جائیداد تھی، وہ اسے بیچ بٹا کر ملک سے باہر بھاگنے کے چکر میں ہے۔ اگر بے روزگاروں پر مشتمل فوج بنائی جائے تو شاید یہ دنیا کا سب سے بڑا لشکر ہو۔ المختصر معاشی بحران اور بے سمتی نے پورے معاشرے کے پائوں اکھاڑ رکھے ہیں۔ فرقہ وارانہ منافرتوں کا یہ عالم ہے کہ کسی مسجد میں کوئی نمازی محفوظ نہیں۔ ہر فرقے نے ’جہاد‘ کے نام سے اپنے اپنے مسلح جتھے بنا رکھے ہیں، جن سے پورا ملک لرز رہاہے۔ دفاعی افواج کی موجودگی میں ان مسلح جیوش کا کیا لزوم ہے اور کیا جواز ہے؟ حکومت کو اس ضمن میں ایک واضح اور دو ٹوک پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کا کوئی سا بھی حل کشمیریوں سے کہیں زیادہ ہماری ضرورت ہے۔ ہماری زندگی کے 65سال اس تنازع کی نذر ہو چکے ہیں اور جب تک ہماری سرحدات پر تشنج اور تنائو کی کیفیت موجود ہے، ہم سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار بنے رہیں گے۔ اس مسئلے پر ایک ایسا نتیجہ خیز رویہ اپنایا جائے جو ہمیں بند گلی کی ڈپلومیسی سے نجات دلا سکے۔ حکومت ایسی پالیسی بنائے جو افغانستان کے اندر امن قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو تاکہ ہم کئی ملین افغان مہاجرین کے ناقابل برداشت بوجھ کو کچھ تو ہلکا کر سکیں۔ ہم اپنے امروز مسائل اور دوسروں کے دیروزہ ماضی سے نجات حاصل کیے بغیر زندہ اقوام کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے۔ وقت ہمارے ہاتھ سے تیر کی مانند اڑ رہا ہے، اگر موجودہ حکومت ان حالات میں بھی سکون کی نیند سو سکتی ہے…تو پھر اس کے حوصلے کی داد ہی دی جا سکتی ہے۔