ہمارے ہاں چھوٹے سر کے ایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں جو اب تک ماضی کی لکیر عبور نہیں کر پائے لہٰذا وہ ہمہ تن گوش ساحل دیبل پر رینگنے میں مصروف ہیں۔ وہ کسی ایسے نئے محمد بن قاسم کی آمد کے منتظر کھڑے ہیں جو انہیں آج کے مسائل کے راجہ داہر سے نجات دلا سکے۔ ایسے مایوس و ناکام ریٹائرڈ جرنیلوں کی بھی وافر تعداد موجود ہے، جنہوں نے اپنے اپنے چہروں پر نسیم حجازی کے افسانوی کرداروں کا خول چڑھا رکھا ہے۔ یہ حضرات اخبارات کے قلزم میں الفاظ کے گھوڑے دوڑائے پھرتے ہیں۔ درہ خیبر سے اٹھنے والے بگولوں کے غبار میں، تاجکوں، مغلوں، ازبکوں اور ترکمانوں کے علم تلاش کرتے کرتے ان کی آنکھیں پتھرا چلی ہیں۔ یہ وہ طائفہ ہے جسے اپنے عوام اپنی مٹی اپنے ماضی اور اپنی تاریخ سے کوئی محبت اور کوئی سروکار نہیں ورنہ ہمارے پاس خوشحال خان خٹک، دلا بھٹی اور رائے احمد حیات کھرل سے لیکر عزیز بھٹی اور سوار محمد حسین تک ان گنت قومی ہیروز کا انتہائی قابل فخر اثاثہ موجود ہے۔ وائے حسرت کہ اس کے باوجود ان لوگوں نے ہمیں احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا ہے اور ہمارے لیے باہر سے ہیروز درآمد کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ظہیرالدین بابر برصغیر میں ’مغلوں کی حکومت‘ کا بانی تھا‘ اُس نے ’تزک بابری‘ کے عنوان سے اپنی یادداشتیں قلمبند کیں۔ اس کتاب کا پہلا باب پڑھ لیجیے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ بابر کی فتوحات کا محرک دنیاوی دولت اور خاندانی جاہ واقتدار تھا یا پھر دین کی تبلیغ و تشہیر؟ اس نے اپنی تلوار سے برصغیر کے مسلم عوام کی گردنیں کاٹیں یا پھر ’کفار‘ کی؟ اس نے اپنے جدامجد چنگیز خان اور امیر تیمور گورکانی کی مانند جن بے گناہوں کے سروں سے اپنی فتح کے مینار چنے وہ ہندو تھے یا مسلمان؟ ’تزک بابری‘ کے پہلے باب سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’بگرام (کابل) میں ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ (ہندوستان پر حملے کے لیے) کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ باقی چغانیانی نے یہ صلاح دی کہ کوہاٹ (کے راستے سے) چلیں‘ جہاں کے لوگ بہت آسودہ ہیں۔ وہاں سے بہت دولت ہاتھ آئے گی۔ ابھی سورج نکلا ہی تھا کہ ہم کوہاٹ پر نازل ہو گئے۔ بہت سی گائیں اور بھینسیں مال غنیمت میں ہاتھ آئیں؛ تاہم اس سفر میں اتنا مال ہاتھ نہیں لگا جتنا کہ باقی چغانیانی نے کہا تھا۔ باقی چغانیانی کو اپنی اس مبالغہ آمیز اطلاع پر سخت ندامت ہوئی۔‘‘ یہاں یہ بات یاد رہے کہ بابر نے کوہاٹ کے جن محنت کش پٹھانوں کا مال لوٹا وہ عقیدے کے لحاظ سے کٹر مسلمان تھے۔ ان کی بابر کے ساتھ کوئی دشمنی تھی اور نہ انہوں نے اس کے لشکر پر ہی حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد اگلی منزل کا حال ملاحظہ ہو۔ ’’یہاں سے ہم نے ہنگو کی راہ لی۔ کوہاٹ اور مہلویا کے درمیان ایک درہ ہے اس کے دونوں طرف پہاڑ ہیں جونہی ہم اس درے میں داخل ہوئے پٹھانوں (جن کا مال وہ پہلے ہی لوٹ چکے تھے) نے مختلف جتھوں کی شکل میں ہم پر حملے شروع کر دیے۔ ہم نے انہیں پھانسنے کے لیے ایک جنگی چال چلی اور لڑتے لڑتے انہیں پہاڑ پر لے آئے اور پھر انہیں ہر چہار جانب سے گھیر لیا۔ جو پٹھان ہمارے گھیرے میں آئے، ان کی تعداد سو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہو گی۔ ان میں سے کچھ تو ہم نے وہیں مار ڈالے اور کچھ کو زندہ پکڑ لیا۔ پٹھانوں کا دستور ہے کہ جب وہ شکست تسلیم کر لیں تو منہ میں تنکا پکڑ لیتے ہیں۔ ان اسیر پٹھانوں نے بھی منہ میں تنکے پکڑ لیے لیکن ہم نے ان کی شکست قبول نہیں کی۔ ہم نے ان کے سر کاٹ کر اس مقام پر ایک مینار چن دیا۔ ‘‘ یعنی ان بے گناہ پشتونوں کے سروں کی ہڈیاں بعدازاں کتوں، بلوں، بھیڑیوں اور گیدڑوں نے چبائی ہوں گی۔ ان کا واحد جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے گھر بار کا دفاع کیوں کیا؟ ذرا اگلا پیراگراف ملاحظہ ہو؛ ’’دوسرے دن یہاں سے چلے اور نہکو کے قریب منزل کی۔ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر پٹھانوں نے پہاڑ پر سنگر (مورچہ) بنا رکھا تھا۔ ہم نے اس پر یورش کی اور دو تین صد سرکش پٹھانوں کو پکڑ کر قتل کر دیا‘ ان کے سر کاٹ لیے اور ان کے سروں سے یہاں بھی مینار چن دیے۔‘‘ گویا مسلمان عوام کے خون سے ہولی کھیلنا بابر کا محبوب مشغلہ تھا لہٰذا جس بستی سے اس کا گزر ہوا اس نے وہیں سروں کے مینار چن دیے۔ خود بابر کے اپنے الفاظ میں اگلے پڑائو کی لوٹ کھسوٹ کا ذکر کچھ یوں درج ہے؛ ’’نہکو سے روانہ ہوئے تو بنگش کی نچلی سمت کے ایک بلند مقام تنبیل پر پڑائو ڈالا۔ کچھ سپاہی ادھر ادھر کی بستیوں کو لوٹنے کے لیے چھائونی سے نکلے بعدازاں بڑی مصیبتوں سے دوچار ہونے کے بعد ہم بنوں کے نواح میں پہنچے۔ جو گائیں‘ بھینسیں اور دوسرے مویشی اس یلغار میں لوٹے تھے، وہ سب کے سب راستے میں ہی رہ گئے۔ مشیروں نے رائے دی، وشتا قریب ہے اس کی مال دار آبادی کو لوٹتے چلیں۔ ہم وشتا کے ایک گائوں میں پہنچے۔ کچھ فوج نے یہاں لوٹ مار کی اور کچھ آگے کو چلی۔ پورا ایک دن اور ایک رات فوج نے نواحی بستیوں کو لوٹا اور وہ بہت سی بھیڑ بکریاں اور بہت سا دوسرا سامان لوٹ لائی۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ ساری بستیاں غریب مسلمانوں کی تھیں جنہیں بابری لشکر لوٹتا پھرا اور اب ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ بابر نے اس سفر کے دوران عیدالفطر کیسے منائی؛ ’’یہ عیدالفطر کا دن تھا۔ عید کی نماز دریائے کوتلی پر پڑھی۔ دو کوس کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ کچھ پٹھان ہم سے آن ٹکرائے۔ ان میں سے کئی ایک کو تو ہم نے مار ڈالا اور باقی بھاگ نکلے۔‘‘ گویا موصوف نے عیدالفطر کے مبارک دن بھی مقامی آبادی کا خون بہانے کا شغل جاری رکھا۔ جب وہ اسی طرح آبادیوں کو اجاڑتے اور بستیوں کو ویران کرتے ہوئے ملتان کے قریب دریائے سندھ پر پہنچا تو بابر کے الفاظ میں ہر سپاہی نے اتنی لوٹ مار کی کہ اس کے پاس تین تین چار چار گائیں اکٹھی ہو گئیں۔ یہ ’تزک بابری‘ کے صرف پہلے دس صفحات کی تلخیص ہے۔ پوری کتاب ہضم کرنے کے لیے ایک حوصلہ چاہیے۔ ہمارے ہاں کے ان دانشوروں اور تاریخ دانوں کا بس خدا ہی حافظ جانیے جو انسانیت کا خون پینے والے ان جابر و فاسق بادشاہوں کے دور حکومت کو ’اسلامی دور‘ قرار دینا جائز گردانتے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے قلعوں، محلات اور مساجد کی بنیادوں میں جانے کتنے بے گناہ مسلمانوں کی ہڈیاں شامل ہوئی ہوں گی۔ تاریخ کی آبرو ریزی کرنے والے انہی دانشوروں نے بابر ایسے جابر حکمران کو ’ولی اللہ‘ کے درجے پر فائز کر رکھا ہے۔ ان کے تخلیق کردہ افسانوں کے مطابق جب لاکھوں مائوں کی گود اجاڑنے والے بابر کا اپنا بیٹا ہمایوں شدید بیمار پڑا تو بابر نے اس کی چارپائی کے اردگرد چکر کاٹتے ہوئے یہ دعا مانگی کہ ہمایوں کی بیماری اسے لگ جائے۔ خدائے ذوالجلال نے اس ’خدا رسیدہ اور انسانیت نواز‘ نیک دل حکمران کی دعا قبول فرما لی؛ چنانچہ اس کی خواہش کے عین مطابق ہمایوں کی صحت دن بہ دن سنبھلنا شروع ہو گئی اور اس کی جگہ وہ خود بیمار ہوتا چلا گیا۔ یوں ہمایوں بچ گیا اور بابر مر گیا۔ طبی لحاظ سے اس کہانی میں شاید اتنی سی صداقت ضرور موجودہو کہ جس بیماری کے حملے سے نوجوان ہمایوں بچ نکلا تھا اسی بیماری کے وائرس سے کہنہ سال بابر جانبر نہ ہو سکا۔ انسانی سروں کے مینار چننے والے ان حکمرانوں کو فصد کھلوانے کے سوا کسی بیماری کا کوئی علاج معلوم تھا اورنہ یہ خبر کہ چھوت چھات سے لگنے والے بعض وائرس ناقابل علاج ہوتے ہیں۔ بہرطور ہمیں اپنی نئی نسل کو ماضی کے ان مردہ فاتحین سے منسوب جھوٹے سچے قصے سنانے کی بجائے اس کے اذہان آج کے سائنسی علوم کی لو سے منور کرنے چاہئیں تاکہ وہ قوانین فطرت پر غلبہ پا سکے، تخلیق کائنات کے اصل راز کو کھوج سکے اور اپنی دھرتی اور اپنی تاریخ کا ماضی اور حال سمجھ سکے۔