مانچسٹر سے واپسی پر میں کوئی ہفتہ بھر کے لیے فرینکفرٹ میں رُکا۔جرمنی میں عام انتخابات کی مہم اپنے آخری مرحلے پر تھی۔ ہر پارٹی نے بلدیہ کی مقرر کردہ جگہوں پر اپنے اپنے پوسٹر لگا رکھے تھے مگر کیا مجال کہ کسی پوسٹر کا سائز 2x2فٹ سے زائد ہو۔ نہ کہیں دکانوں اور مکانوں کی دیواریں انتخابی نعروں سے لتھڑی ہوئی نظر آئیں اور نہ سڑکوں پر رسیوں سے باندھے گئے فلیکس ہوا میں لہراتے ملے۔ نہ کہیں لاکھوں کے جلسے اور نہ ملین مارچ کے دعوے۔ نہ مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروانے کے اعلان اور نہ سب کا ’رگڑا‘ نکال دینے کی خواہش کا اظہار۔ نہ ووٹروں کو بسوں یا ویگنوں میں لاد کر پولنگ بوتھ لے جانے کا کوئی تصور اور نہ کسی کو اپنی ذات، برادری یا فرقے کے نام پر ووٹ مانگنے کی ضرورت۔ نہ کہیں ’فخرو بھائی‘ جیسا کوئی کریکٹر دکھائی دیا، جو اس آخری عمر میں زندگی بھر کی شہرت کو راکھ کے ڈھیر میں بدلنے کے لیے کیچڑ کے اکھاڑے میں آن کودا ہو۔ انتخابی مہم کی انتہا یہ کہ مختلف شہروں میں بلدیہ کے ہال یا اپنی اپنی پارٹی کے دفاتر میں اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے دوچار میٹنگز میں اُن سے خطاب کر لیا…اور بس! یکم ستمبر کی شام چانسلرشپ کے دونوں امیدواروں کے مابین ٹی وی پر باہمی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا تھا مگر یہ ہمارے ہاں والا ٹاکرا نہ تھا جس میں اینکرپرسن دونوں امیدواروں کو ایک دوسرے کے خلاف اشتعال دلانا ہی اپنی بہترین پرفارمنس اور ریٹنگ (Rating) فرض کرتے ہوں۔ اپنا تو جہان ہی دوسروں سے نرالا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر اینکر پرسنز نہ تو ملک کی تاریخ اور جغرافیے سے واقف ہیں اور نہ کسی پارٹی کی صحیح تاریخ سے آگاہ۔چانسلرشپ کے دونوں امیدواروں کی بحث 90منٹ پر محیط تھی۔ انٹرویو لینے والے چار اینکرز تھے۔ یعنی دو خواتین اور دو مرد حضرات۔ دو اینکرز ایک امیدوار سے انتہائی مختصر مگر جامع سوالات پوچھتے رہے جبکہ دوسرے دو اینکرز نے دوسرے امیدوار کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا۔ اینکرز نے ہمارے ہاں کی مانند اُن میں سے کسی کی پرانی ٹیپ چلا کر اُسے شرمندہ کرنا چاہا اور نہ اُنہیں ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے پر اُبھارا۔ اس مذاکرے کا مطمح نظر ان دونوں امیدواروں سے مستقبل کی پالیسی واضح کروانا تھا تاکہ سُننے والے لوگ آسانی سے فیصلہ کر سکیں کہ کس پارٹی کو ووٹ دینے سے ان کے ہاں کس قسم کی بہتری آ سکے گی۔ پروفیسر ستائن بروک (Prof. Stein Brook) سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوار ہیں جبکہ موجودہ چانسلر انجیلا مرکل (Anjela Merkel) کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیں۔ چانسلر مرکل کی سادہ پوشی کا اندازہ اس بات سے کر لیجئے کہ نہ تو انھوں نے کانوں میں سونے کے بڑے بڑے کانٹے یا بالیاں پہن رکھی تھیں اور نہ بازو سونے کی چوڑیوں سے پُر تھے۔ نہ گلے میں ڈائمنڈ کا ہار کیمروں کی روشنی میں، اپنی چمک سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا اور نہ ہاتھوں میں کوئی قیمتی گھڑی تھی۔ نہ انھوں نے لاکھوں روپے کی عینک پہن رکھی تھی اور نہ ان کے پاس ہیرے جڑا ہوا ہینڈ بیگ تھا…یعنی ان سے تو ہماری حنا ربانی کھر ہی کو بدرجہا بہتر جانئے جن کی عینکیں کئی لاکھ کی تھیں اور پرس اُن سے بھی سوا لاکھ زیادہ مہنگا۔ جس غربت زدہ ملک میں ایک عام وزیر کا یہ حال ہو، وہاں بڑے لوگوں کا بھلا کیا مقابلہ؟ سچ پوچھئے تو مجھے ان دونوں جرمن امیدواروں پر رحم آیا کہ نہ تو انھوں نے ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے کی کوشش کی، نہ ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات عائد کیے اور نہ کسی نے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے نعرے لگائے ۔ ان کی گفتگو کا مرکز اپنے ملک کے اہم ترین مسائل پر اپنی اپنی پارٹی کا منشور واضح کرنا تھا۔ پروفیسر ستائن بروک نے سماج کے بزرگ افراد کی بہبود اور معذور بچوں کی امداد کے لیے اپنی پارٹی کا نقطہ نظر واضح کیا جو ان کی مخالف انجیلا مرکل سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نے صحتِ عامہ اور بچوں کے جیب خرچ میں زیادہ بجٹ صرف کرنے کا پروگرام دیا جبکہ ان کی مخالف پارٹی کا پروگرام بھی ان سے کم نہ تھا۔ سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اگر وہ جیت گئے تو وہ جرمنی کو دوبارہ معاشی قوت بنانے کی خاطر ’مارشل پلان‘ سے مشابہہ کوئی منصوبہ مرتب کریں گے۔ یاد رہے کہ جنگِ جہانیٔ دوم میں جیتنے یا ہارنے والے ممالک معاشی طور پر کنگال اور تباہ ہو گئے تھے۔ اِسی جنگ میں اتحادیوں کو اپنا اسلحہ بیچنے کے نتیجے میں امریکہ کے خزانے میں کئی بلین ڈالر کا اضافہ ہو گیا تھا۔ امریکہ نے اس اضافی رقم کو جنگ سے تباہ شدہ ممالک میں ’مارشل پلان‘ کے عنوان سے انویسٹ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں امریکی معیشت پھیل کر پہلے سے کئی گنا زائد ہو گئی اور جرمنی نئی صنعتیں لگنے کے باعث ایک بار پھر اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا۔ پروفیسر ستائن بروک نے یہ بھی کہا کہ اگر جنگ کے بعد جرمنی کی امداد کی گئی تھی تو آج ہمیں بھی اپنے ساتھی ممالک (مثلاً سپین، اٹلی اور یونان )کی معاشی امداد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ فی الوقت جرمنی میں جنرل سیلز ٹیکس 19فیصد ہے۔ پروفیسر ستائن بروک نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر ان کی پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو وہ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کر دیں گے۔ اس سے جو رقم حاصل ہو گی،اس سے اسٹیٹ کے قرضے واپس ادا کیے جائیں گے۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتے چلیں کہ جرمنی نے صرف اپنے بنکوں اور مختلف اداروں سے کئی سو بلین یورو کا قرض لے رکھا ہے، جسے جرمن اپنی زبان میں ’قرضوں کا پہاڑ‘ سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ جرمن ووٹرز نے پروفیسر ستائن بروک کی اس تجویز کو پسند نہیں کیا۔ دوسرے دن کے اخبارات میں یہ خبر جلی سرخیوں میں شائع ہوئی کہ سوشلسٹ پارٹی جرمن عوام کی جیبیں مزید خالی کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ ان کے مقابلے میں چانسلر مرکل نے سیلز ٹیکس میں اضافے کی کسی بھی تجویز کو رَد کرتے ہوئے کہا کہ جرمن اکانومی اس اضافے کے بغیر بھی اپنی نمو بہترین انداز میں جاری رکھے ہوئے ہے، چنانچہ آنے والے وقت میں ہم یہ قرضے اتارنے کی پوزیشن میں ہو جائیں گے۔ اگر ٹیکس بڑھا تو لوگ انویسٹمنٹ نہیں کریں گے، جس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ شام کی جنگ کا ذکر بھی چھِڑا…سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار نے واضح طور پر کہا کہ ہم جنگ کے خلاف ہیں کیونکہ جنگ سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ ہماری اپنی تاریخ جنگ اور تباہی سے عبارت ہے۔ البتہ اگر اقوام متحدہ کی جانب سے مینڈیٹ ملے اور ہماری پارلیمنٹ بھی رضامند ہو تو ہم محدود پیمانے پرشرکت کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف چانسلر مرکل نے یہ تجویز دی کہ وہ سب سے پہلے چین اور روس سے مل کر اس جنگ کو ٹالنے کا کوئی راستہ تلاش کریں گی۔ اس مباحثے کے دوران دونوں امیدواروں کی ریٹنگ جاری رہی۔ تقریباً 18فیصد سُننے والوں نے پروفیسر ستائن بروک کی پرفارمنس اور ان کے پروگرام کو پسند کیا جبکہ 22فیصد نے انجیلا مرکل کے حق میں رائے دی…لیکن ووٹرز اور سامعین کی ایک بڑی تعداد نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ یعنی وہ اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تھے۔ جب یہ ڈیبیٹ اپنے اختتام کو پہنچی تو میں نے سوچا کہ انقلاب تو رہا بہت دور کا خواب…کیا کبھی ہماری سیاست، ہماری جمہوریت اور ہمارا سماج انتخابات کے دوران اس طرح کے جمہوری انداز کو اپنا پائے گا؟ کیا ہماری ریاست انتخابی اخراجات پر قدغن لگا سکے گی تاکہ پڑھا لکھا متوسط درجے کا کوئی امیدوارانتخابات میں حصہ لے سکے؟