نکیال سے ہاؤس آف لارڈز تک

یہ 2007ء کا واقعہ ہے۔ برطانیہ کے ایک جلسے میں میاں شہباز شریف صاحب کے ہمراہ لارڈ نذیر صاحب کے ساتھ میری پہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ مجھے اعتراف کرنے دیجئے، مجھے تب لارڈ نذیر صاحب کی خندہ رُو طبیعت اور خوش خلق شخصیت کی تہ میں سلگتے ہوئے جوالہ مکھی کا ادراک نہ تھا۔ میں ان کی دو کتابوں کے پبلشر چوہدری عمران صاحب کا تہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو لارڈ صاحب کو جاننے اور بوجھنے کا موقع فراہم کیا۔ میرپور کے نکیال نامی گائوں کے سکول میں نذیر نام کا ایک چودہ پندرہ سالہ بچہ اپنے والد کے پاس محنت و مشقت کرنے کے لیے برطانیہ میں قدم رکھتا ہے۔ وہاں پہنچتے ہی اس کے دوسرے بھائی تو کام کاج پر لگ جاتے ہیں جبکہ وہ نوجوان کتابیں ہاتھ میں تھامے سکول کے دروازے پر جا دستک دیتا ہے۔ وہ اپنے خاندان کا پہلا آدمی ہے جو برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے، انھی درسگاہوں میں الیکشن لڑتا ہے اور کسی برادری، علاقے یا ملک کے بغیر تن تنہا ہونے کے باوجود انتخابی معرکہ مار لیتا ہے۔ نکیال کے اس جوان کے ساتھ سیاست کا یہ پہلا معانقہ تھا۔ اپنی تعلیم کے دوران ہی وہ لیبر پارٹی سے متاثر ہوا اور تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ اس کی باقاعدہ رکنیت حاصل کرتا ہے۔ ہم جیسے ممالک سے جانے والے بہت سے مہاجرین لیبر پارٹی کا ہی ساتھ دیتے ہیں۔ سوشلسٹ پارٹی ہونے کے ناتے لیبر پارٹی تمام انسانوں اور سارے مذاہب کو یکساں طور پر دیکھتی ہے۔ سچ پوچھئے تو جنگِ جہانیٔ دوم کے بعد اگر چرچل کی کنزرویٹو پارٹی کی جگہ لیبر پارٹی برسرِ اقتدار نہ آتی تو کم از کم 1947ء اگست میں نہ برصغیر آزاد ہو پاتا اور نہ پاکستان کا قیام وجود میں آتا۔ 20برس تک لیبر پارٹی اور لیبر موومنٹ میں شب و روز کام کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ نذیر احمد صاحب کی پارٹی نے اُنھیں M.Pکے لیے ٹکٹ جاری کیا۔ جب وہ اپنی سیٹ کلیئر نہ کر سکے تو انھیں دوبارہ ٹکٹ جاری کیا گیا۔ بدقسمتی سے وہ بہت تھوڑے فرق سے اپنی سیٹ ہار گئے مگر اپنا دل چھوٹا کیے بغیر وہ پارٹی کے ساتھ کام کرتے رہے یعنی اُمیدِ بہار رکھے بغیر وہ شجر سے پیوستہ رہے۔ ایک شام اچانک انھیں وزیراعظم ٹونی کا فون آ گیا کہ ٹوپی پہنئے اور لارڈ ہائوس پہنچ جائیے۔گویا کوہِ نور تو لاہور سے انگریز کے ہاتھ لگا تھا…جبکہ نکیال کا ہیرا محض خوش بختی کے باعث انھیں کسی جنگ و جدل کے بغیر مل گیا۔ یعنی ہم نے برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کا پہلا طاقتور امیدوار کھو دیا اور برطانیہ لارڈ نذیر جیسا وزیراعظم گنوا بیٹھا۔ لارڈ نذیر نے نہ صرف پاکستان اور کشمیر کی نمائندگی کی بلکہ دنیا بھر میں جہاں کسی غریب کے خون کا قطرہ گِرا وہ بلا تاخیر وہاں پہنچ گئے۔ انھوں نے عرب ممالک اور مسلم دنیا کے ہر اُس ملک کی حمایت کی جو سامراج کا نشانہ بنا۔ انھوں نے بہت مشکل معاملات میں اپنی کمیونٹی کی رہنمائی بھی کی اور برطانیہ کو بھی ایسے دلائل پیش کیے جنھیں تسلیم کرنے سے وہ انکار نہ کر سکے۔ آپ نے شادی کے قوانین پر ایک تاریخی تقریر بھی کی۔ بہت سے پاکستانیوں کو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ 1947-54ء تک پاکستان کا اسٹیٹس ایک ڈومینین کا تھا لہٰذا برطانیہ کی پریوی کونسل ہی ہمارے لیے سپریم کورٹ کی مانند فیصلے کیا کرتی تھی۔ لارڈ نذیر نے اس تاریخی پہلو کو اُٹھایا اور کہا کہ پرسنل لأ سے آگہی برطانیہ کی گھُٹی میں پڑی ہے۔ میرا مقصد کسی خاص کمیونٹی کے لیے کوئی استثنیٰ حاصل کرنا نہیں بلکہ میری بات کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ مذہبی اقلیتیں اپنے مذہبی حقوق پر اصرار کریں بشرطیکہ وہ سول لأ سے انحراف نہ کرنے کی ضمانت بھی دیں۔ لارڈ نذیر صاحب نے سوڈان پر امریکی حملے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک انتہائی غلط قدم قرار دیا۔ یاد رہے امریکہ نے الشفأ نامی ایک دواساز کمپنی کو اپنے کروز میزائل سے تباہ کر دیا تھا۔ سوڈان کے اصرار کے باوجود امریکہ نے اپنے انسپکٹر نہیں بھیجے کہ اس طرح اُسے فیکٹری کے ادریس نامی مالک کو معاوضہ بھی دینا پڑے گا اور اس سے معافی بھی مانگنا پڑے گی۔ حیرت ہے صدر کلنٹن نے بلغراد میں چینی سفارتخانے پر حملے کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے کئی بار چین سے معافی مانگی۔ لارڈ نذیر صاحب نے ہائوس آف لارڈ میں یہ سوال اُٹھایا کہ امریکہ کا یہ قدم صرف طاقتور ممالک تک محدود ہے گویا بین الاقوامی سیاست ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے اصول پر چل رہی ہے۔ لارڈ نذیر صاحب نے 9/11کے بعد ایک بہت ہی مشکل مرحلے میں پریشان حال مسلم ممالک کی رہنمائی کی۔ انھوں نے ہائوس آف لارڈز میں نیشنلٹی، امیگریشن، سیاسی پناہ کا قانون اور دہشت گردی کے علاوہ ان گنت دوسرے مسائل پر اپنی بیش بہا منطقی آرأ پیش کیں۔ لارڈ نذیر صاحب! اِسے برطانوی ریاست اور اس میں صدیوں سے چلتی ہوئی ڈیموکریٹک سیاست کا اعجاز جانئے کہ انھوں نے آپ کو ذہانت اور دیانتداری کے عوض ہائوس آف لارڈز تک پہنچا دیا۔ محترمہ سعیدہ وارثی، چوہدری محمد سروراور اب ان کے صاحب زادے پارلیمنٹ میں پہنچے۔ فقط وہی نہیں بلکہ ہر مہاجر اقلیت کے نمائندے پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ یہ بڑامناسب وقت ہے کہ آج پاکستان میں ایک ایسی جماعت برسرِ اقتدار ہے جسکی قیادت اقلیتوں کے لیے دردِ دل رکھتی ہے لہٰذا آج ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اقلیتوں کو ایسے ہی حقوق دیں جس طرح اُنھیں مہذب دنیا میں حاصل ہیں۔ آج ہمیں ان سے نفرت کی بجائے محبت کا کلچر پروموٹ کرنا چاہیے۔ لارڈ نذیر صاحب کی کتابیں اِن سب دقیق سوالوں کا بڑا منطقی جواب پیش کرتی ہیں۔ میری یہ دلی خواہش ہو گی کہ لارڈ نذیر صاحب کی تقاریر پر مشتمل کتاب ’صداقت کی گونج‘ کو قومی اسمبلی میں ایک سٹڈی کورس کے طور پر لگانا چاہیے تاکہ وہ بہت سے مسائل جن میں ہمارے سیاستدان اور حکیم پھنس جاتے ہیں ، وہ انھیں شعور و دلائل کی کسوٹی پر پارلیمنٹ میں پیش کر سکیں۔ لارڈ صاحب کا یہ کہنا ہے کہ برطانیہ میں بننے والی مساجد میں امام صاحبان کو پاکستان اور کشمیر کے دیہات سے امپورٹ کیا گیا ہے لہٰذا ان کے نزدیک مذہب کی تعبیر و تشریح، ان کا ڈکشن اور استعارہ ہمارے ہاں کی مانند فرقہ ورانہ ہے۔ مزید یہ کہ یہ مولوی حضرات برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی زبان بولنے پر قادر نہیں ۔ وہ قوم کو ہمیشہ یہ تحریک دیتے ہیں کہ امام صاحبان کو جدید علوم اور انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے۔ مجھے آپ کی تقاریر میں کہیں تاریخ اور سیاق و سباق کی غلطی نظر نہیں آئی۔ البتہ 1965ء کی جنگ کی وجوہات، اس کے آغاز اور انجام کے حقائق کے ساتھ ساتھ اخباری پروپیگنڈہ کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ میں یہ فرض کرتا ہوں کہ آپ کی تقاریرکو بطورِ ریفرنس اگر کل تاریخ میں حوالہ دیا جانا ہے تو اس میں حقائق کو برتری حاصل ہونی چاہیے۔ آپ کی کتاب میں 1965ء کی جنگ پر ایک تقریر شامل ہے جس میں مجھے دلائل کی تھوڑی کمی نظر آئی۔ اگر آپ حقائق جاننا چاہتے ہیں تو اس جنگ پر 2006ء میں شائع ہونے والی پاکستان آرمی کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی 1000صفحات پر مشتمل کتاب آپ کے لیے اسلام آباد سے اُٹھا لایا ہوں تاکہ جب کبھی آپ 65ء کی جنگ کو Quoteکریں تو کوئی اسے چیلنج نہ کر سکے۔ راسٹم چھوڑنے سے پہلے آپ کو مرزا غالب کا یہ شعر پیش کیے جاتا ہوں جو آپ کی شخصیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ؎ کون ہوتا ہے حریفِ مردِ مے افگنِ عشق ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد (نوٹ:۔ یہ مقالہ لارڈ نذیر احمد کی کتاب ’’صداقت کی گونج‘‘ پر پی سی ہوٹل لاہور میں 8ستمبر2013ء کو پڑھا گیا۔ )

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں