باکمال لوگ

اکتوبر 1946ء میں مسٹر اصفہانی نے تین ہوائی جہازوں پر مشتمل اورینٹ ایئرویز (Orient Airways) کے نام سے ایک ہوائی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ ایرانیٔ النسل اصفہانی بڑے سیانے اور جہاں دیدہ صنعت کار تھے۔ وہ جانتے تھے کہ نئے ملک پاکستان میں کسی مقابلے کے بغیر بزنس چلے گا لہٰذا انہوں نے پاکستان کے لیے ایک سال پہلے ہی اورینٹ ایئرویز کا اہتمام کر لیا۔ یہ پاکستان کے لیے گھاٹے کا سودہ تھا اور نہ مسٹر اصفہانی کے لیے۔ نومبر 1955ء میں اورینٹ ایئرویز پاکستان کی نئی فضائی کمپنی ’پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز‘ میں مدغم ہو گئی۔ 1955ء سے ہی پی آئی اے کی فلائٹس ملک سے باہر چلنا شروع ہو گئیں۔ اسے ایئر کموڈور نور خان کی بہتر ایڈمنسٹریشن کا کمال جانیے کہ پی آئی اے جلد ہی پورے ایشیا پر چھا گئی۔ یہ ایشیا کی پہلی ایئرلائنز تھی جس نے 1960ء میں بوئنگ 707طیارہ خریدا اور لندن تا کراچی کا سفر 7گھنٹوں سے بھی کم وقت میں طے کیا۔ پی آئی اے کے فضائی بیڑے نے 1965ء کی جنگ میں سرحدات پر فوجی سامان کی نقل و حمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مشہورِ زمانہ کپتان بیگ بوئنگ 720 کو 1962-66ء کے عرصہ میں امریکی شہر سیاٹل (Seattle) سے لندن اور کراچی تک چلاتے رہے۔ پی آئی اے نے 1964ء میں چین کی جانب پہلی پرواز کی تو اس جہاز کوایئرکموڈور نور خان نے پائلٹ کیاتھا۔ اس زمانے میں پی آئی اے کا اشتہار صرف چار الفاظ پر مشتمل تھا جو پڑھنے والے کے دل و دماغ میں اُتر جاتے تھے۔ یہ اشتہار کچھ یوں تھا؛ با کمال لوگ‘ لا جواب پرواز 1972ء میں نور خان کو ایک بار پھر چیئرمین لگا دیا گیا۔ 1974ء میں پی آئی اے نے کارگو لائن چلائی۔ جنوری 1978ء کی صبح کراچی ایئرپورٹ پر اُڑنے سے پہلے ہی ایک جہاز اغوا کر لیا گیا۔ نور خان گفت و شنید کے بہانے طیارے کے اندر گئے اور انہوں نے دہشت گرد کو اپنی بانہوں کے آہنی شکنجے میںجکڑ لیا۔ دہشت گرد نے ان پر گولی چلا دی‘ لیکن وہ اپنی گردن چھڑوا لینے پر قادر نہ ہو سکا۔ 1990ء کی دہائی میں جب دنیا بھر کی فضائی کمپنیاں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھیں، پی آئی اے نیچے کی جانب لڑھکنا شروع ہو گئی۔ پی آئی اے کا یہ رجحان اکیسویں صدی میں بھی اُسی شدت سے جاری رہا۔ نہ وہ با کمال لوگ رہے اور نہ وہ لاجواب پرواز باقی رہی۔ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ 2007ء میں پی آئی اے کے طیاروں پر یورپی یونین کی فضا میں پرواز کرنے یا کسی ایئرپورٹ پر اُترنے پر پابندی عائد کر دی گئی مگر 6ماہ بعد یونین کو یہ یقین دہانی کرانے پر کہ حکومت سب طیاروں کی مرمت کروا چکی ہے…یہ پابندی اُٹھا لی گئی۔ 2010ء میں پی آئی اے کے مسافروں میں 74فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ 2011ء میں یہ تعداد 72فیصد کے نقطے پر لڑھکتی رہی۔ پی آئی اے کی پہلی پرواز میں تو نہ جانے کون کون لوگ سوار ہوں گے، میں 4ستمبر کو اس کی آخری فلائٹ پر فرینکفرٹ سے سوار ہوا۔ اس ایئربس کی اندرونی حالت دیکھ کر رونا آیا۔ جہاز کے فضا میں اُڑتے ہی بڑی شدت سے کھڑ کھڑ کی آوازیں آنے لگیں۔ چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ جہاز کی وسطی دیوار پر نصب ٹیلی ویژن‘ جہاز کے فرش پر آن گِرا۔ مسافر ’یا غفور، یا رحیم‘ کا ورد کرنے لگے کہ کہیں اُکھڑے ہوئے ٹی وی سے بجلی کی رو سے آگ نہ بھڑک اُٹھے۔ واش رومز کی یہ حالت کہ جس کسی نے اندر قدم رکھا، وہ رومال سے ناک پکڑے ہی باہر نکلا۔ کہیں واش رومز کا سینک (Sink) پانی سے اٹا پڑا ہے تو کہیں ٹائلٹ پیپرز کا ڈھیر تھا۔ چائے دستیاب تھی مگر دودھ نایاب۔ کھانا میسر، مگر بے ذائقہ بھی اور بے سواد بھی… ہلکے ہلکے باسی پن کی مہک میں رچا ہوا۔ ایئرہوسٹس نے ایک مسافر کو بتایا کہ فرینکفرٹ سے پی آئی اے کی یہ آخری پرواز ہے۔ اس پر مسافروں کی آزردگی دیدنی تھی۔ پی آئی اے کے بحران اور اس کی توڑ پھوڑ کا آغاز 1970ء سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو کسی تجربے اور مہارت کے بغیر لاکھوں کی تنخواہوں پر پی آئی اے کے سر پر آن بٹھایا۔ جنرل ضیا نے پی آئی اے میں ڈائون سائزنگ کا نعرہ تو لگایا لیکن انہوں نے بھٹو کے بھرتی کیے ہوئے ملازمین کو برخاست کر کے ان کی جگہ پی آئی اے کو جماعتِ اسلامی کے ’صالحین‘ سے بھر دیا۔ ضیا کے جانے کے بعد بھٹو دور کے نکلے ہوئے پیپلز پارٹی کے لوگ تمام سابقہ مراعات سمیت واپس اپنی اپنی جگہوں پر آ گئے اور ضیا کے بٹھائے ہوئے افسر خاصی تعداد میں فارغ کر دیے گئے۔ یعنی ایسی ایسی مثالیں بھی موجود تھیں کہ جنرل ضیا نے ایک ہی گھر کے تین تین افراد پی آئی اے میں بھرتی کر لیے۔ جنرل ضیا کے بعد مسئلہ آسان ہو گیا۔ بے نظیر آئیں تو انہوں نے جنرل ضیا کے بھرتی ملازمین کو فارغ کر دیا۔ جب وہ دو اڑھائی سال بعد آئی ایس آئی کی نظرِ کرم سے فارغ ہوئیں اور ان کی جگہ ان کی مخالف جماعت مسند نشین ہوئی تو ملازمین کا تناسب پھر بدل گیا۔ بی بی کی دوبارہ واپسی نے پی آئی اے میں ملازمین کے تناسب کو ازسرِ نو سر کے بل کھڑا کر دیا۔ دونوں جماعتوں میں پنگ پانگ کا یہ سلسلہ کوئی دس سال تک جاری رہا، اس کے بعد جنرل مشرف کی باری آئی تو انہوں نے پی آئی اے کے جسم سے بچا کھچا خون نکال لیا۔ 2008ء میں جب اقتدار پیپلز پارٹی کے ہاتھ لگا تو اس نے کمال کر دکھایا۔ باقی محکموں کی مانند زرداری صاحب نے پی آئی اے کی ہڈیاں بھی نچوڑ لیں۔ مقصد یہ کہ یہ ’کمائو بچہ‘ پروفیشنل ملازمین، پائلٹوں ، ایئرہوسٹسوں یا مسافروں کی وجہ سے ناکام نہیں ہوا بلکہ وہ ہماری بے حسی اور بے رحمی کا نشانہ بنا رہا۔ آج بھی پی آئی اے میں 9000کے لگ بھگ ملازمین فالتو ہیں۔ ان میں سے 272 کی ڈگریاں جعلی ہیں…اوران محکموں کا کمال دیکھئے کہ اس حال میں بھی وہ پی آئی اے کے ساتھ ساتھ ریلوے اور واپڈا کو بھی انٹرنیٹ پر منافع بخش ادارے قرار دے رہے ہیں۔ اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا کوئی ہمارے افسرانِ بالا سے سیکھے۔ پی آئی اے کے پاس اب بھی تیس کے لگ بھگ سال خوردہ جہازوں کا بیڑہ ہے۔ پاکستان کے اندربھی اس کے پاس بے پناہ قیمتی اور کمرشل علاقے پائے جاتے ہیں۔ افواہوں کے مطابق پی آئی اے کا آخری وقت آن پہنچا ہے یعنی جو کوئی اس ادارے کو خریدے گا، وہ ایک ہی دن میںدھنی بھی ہو جائے گا اور غنی بھی! شکر ہے کہ ایئرکموڈور مارشل نور خان جیسے لوگ آج زندہ نہیں ہیں جنہوں نے اس ادارے کو اپنے خون سے سینچا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں