افغانستان …(1)

چکی کے دو پاٹوں کے درمیان بالشت بھر کا ایک ’دُھرا‘ ہوتا ہے۔ یہی تُل یا دُھرا دونوں پاٹوں کے مابین اس نپے تلے فاصلے کو قائم رکھتا ہے جو آٹا پیستے وقت دونوں پاٹوں کو باہمی ٹکرائو سے بچانے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہر سماج اپنی ریتوں، روایتوں، اپنے قوانین اور دساتیر کے ’دُھرے‘ پر گھومتا ہے۔ جب کسی ملک ، قوم یا سماج کا یہ ’دُھرا‘ گڑبڑا جائے تو اس کا داخلی توازن گڑ بڑا جا تاہے۔ ایسے سماج میں طبقاتی، علاقائی، نسلی اور مذہبی تضادات شدید ترین جدل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس نوع کے ٹکرائو کی واضح مثال افغانستان اور عراق بھی ہیں اور بہت سے افریقی ممالک بھی۔ یہ سبھی ممالک انارکی کاشکار بھی ہیں اور وارلارڈز کے پنجۂ ستم میں گرفتار بھی۔ کسی میں رنگ و نسل کے نام پر کشت و خون جاری ہے تو کسی میں مذہب و ملت کے زیرِ عنوان۔ ان ممالک میں خانہ جنگی کی شکل کچھ یوں ہے کہ ایک نے سب کے خلاف جہاد کا اعلان کر رکھا ہے تو سب نے سب کے خلاف۔ یوں تو افغانستان نے بڑے بڑے صدمات سہے ہیں لیکن اپریل 1978 ء کا سوشلسٹ انقلاب 9سکیل کا سماجی اور سیاسی زلزلہ تھا، جس نے صدیوں سے ماضی کے غاروں میں رینگتے ہوئے افغان سماج کے سارے طبقات ، قبائل اور نسلی گروہوں کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا۔ سوشلسٹوں نے اس پسماندہ سماج کا قدیمی توازن تو پرے اکھاڑ پھینکا لیکن وہ اسے نیا محور دینے میں ناکام رہے، نتیجتاً افغانستان اس دور کی دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ کا اکھاڑہ بن گیا۔ اس خانہ جنگی کے دوران پانچ ملین افغان بے وطن اور بے گھر ہو گئے۔ اس اندھی جنگ میں قتل اور معذور ہونے والے بدنصیبوں کی مجموعی تعداد دس لاکھ سے زائد تھی۔ آزادی، انقلاب، اسلام اور جہاد کے نام پر افغانستان کو خون میں نہلا دیا گیا۔ مجاہدین کے جیوش سکولوں، کالجوں اور تکنیکی اداروں کو ٹڈی دل کی طرح چاٹ گئے۔ یہ خوفناک جنگ سارے ملک کی سڑکوں اور بجلی گھروں کو نگل گئی۔ پوری قوم کی ترقی صدیوں پیچھے جا پڑی۔ مگر یار لوگ زندگی سے غیر متعلقہ مسائل پر بحث کو اسلام کے احیائے نو سے عبارت کرتے رہے۔ 1992ء میں مجاہدین کابل میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس شہر کا رہا سہا عرق نچوڑ کر رکھ دیا۔ اس بدقسمت شہر کے شمال مشرقی حصے پر احمد شاہ مسعود نے قبضہ کر لیا اور اس کے جنوب مغربی علاقے پر حکمت یار کی افواج مورچہ زن ہو گئیں۔ دشت برچھی اور قلعۂ شاداں کے مناطق پر ہزارہ قومیت نے خندقیں کھود لیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف توپ، طیارے اور راکٹ کا آزادانہ استعمال کیا اور کابل شہر کی کوئی عمارت سالم نہ بچی۔ دکانیں لوٹ لی گئیں، حتیٰ کہ پختہ قبروں کا سنگ مرمر تک اکھاڑ کر بیچ ڈالاگیا۔ اسلام کی سر بلندی اور اس کی نشأۃ ثانیہ کا عزم رکھنے والے مجاہدین اب پشتون اور تاجک بن گئے یا پھر ہزارے اور ازبک ہو گئے۔ چھ ماہ کی اس خونیں جنگ کے بعد گلبدین شکست کھا کر عقب نشینی پر مجبور ہو گیا، مگر اس کی دہکائی ہوئی نفرتوں کی آگ نے ہر پشتون اور غیر پشتون گھرانے کو لپیٹ میں لے لیا ۔ مختصر یہ کہ امریکہ کے ’خوانِ نعمت‘ پر پلنے والے چار برسوں تک کھلے عام ایک دوسرے کی گردن بھی مارتے رہے اور اپنے اپنے ’شہداء‘ کو جنت کا پروانہ بھی جاری کرتے رہے۔ کئی سالوں پر محیط یہ نفسانفسی، انارکی اور کشت و خون بالآخر ایک ایسی مذہبی شدت پسندی پر منتج ہوئی جس نے بدبختی کے گردابِ بلا میں غوطے کھاتی افغان قوم کاجینا بھی دوبھر کر دیا اور مرنا بھی۔ نئے تازیانے کا نام طالبان تھا۔ طالبان کی اکثریت افغان جہاد کی ’برکات‘ سے یتیم ہونے والے بے آسرا بچوں پر مشتمل تھی۔ یہ بے سہارا بچے افغان مہاجر کیمپوں میں بھیک مانگ کر آتش شکم بجھاتے، اپنے بازو کو تکیہ بنا کر سر کے نیچے رکھتے اور کھلے آسمان تلے کسی فٹ پاتھ پر سو جاتے۔ ان یتیم بچوں کو سڑکوں سے جمع کر کے مذہبی مدارس میں لے جانے کا اصل سہرا ایک معروف عالم دین سیاست دان کے سر جاتا ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ان ٹھکرائے ہوئے بچوں کے ذہن میں اُبلتی ہوئی نفرتوں اور ان کی روح پر کچوکے لگاتی محرومیوں نے مذہبی تعلیم کو انسان سے محبت کے بجائے سماج سے انتقام لینے کا ذریعہ سمجھا، ورنہ انہوں نے مولانا کے درس سے مولانا کے سے سیاسی دائو پیچ بھی سیکھے ہوتے۔ ان کا بھی ایک پائوں اقتدار میں ہوتا تو دوسرا اپوزیشن کے ساتھ۔ شمار دانۂ سُبحہ بھی جاری رہتا اور بساط سیاست پر وہ بھی مہرے دوڑاتے پھرتے۔ یہ دنیا شاد رہتی تو وہ دنیا آباد۔ تاہم اسے کیا کہیے کہ طالبان کو ایک مسلّح قوت میں ڈھالنے او رپھر انہیں اپنی انگلی سے چلا کر اقتدار پر بٹھانے کا کارنامہ محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے سرانجام دیا۔ محترمہ کے دورِ حکومت میں ملا عمر کو سرپرستی سے نوازا گیا۔ انہی کی آشیر باد سے اس نے پہلی بار قندھار پر قبضہ کیا اور پھر آہستہ آہستہ سارا افغانستان اس کے پائوں تلے لرزنے لگا۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں