تاریخ کا سبق

یہ 1947ء ہے۔ انگریز نے برصغیر کے جسم پر بٹوارے کی جو لکیر کھینچی، کشمیر اُس سے باہر رہ گیا۔ پاکستان کے پاس تین ہی راستے تھے۔ پہلا یہ کہ کشمیر ازخود پاکستان میں شامل ہو جائے۔ دوسرا، اگر ہمارے ساتھ مدغم نہ ہو تو انڈیا کے ساتھ بھی نہ جائے… یعنی آزاد بھی رہے اور رسل و رسائل کے لئے پاکستان کا محتاج بھی…اور تیسری یہ کہ وہ منقسم ہو جائے۔ پاکستان نے ان میں سے ایک کا چنائو کیا۔ چنانچہ 27اکتوبر 1947ء کو ہزار، ہزار آدمیوں پر مشتمل، دس قبائلی لشکر، جنرل اکبر خان کی زیرِ سرپرستی، کشمیر میں داخل کر دیئے گئے۔ مہاراجہ کشمیر نے ایک عارضی عہد نامے کے تحت انڈیا کو اپنی مدد کے لئے بلا لیا۔ بالآخر سیز فائر کے نتیجے میں ایک عارضی کنٹرول لائن وجود میں آ گئی۔ اس جہاد کا سب سے بڑا فائدہ بھارت کو پہنچا کہ وہ کشمیر کے دو تہائی علاقہ پر قابض ہو گیا۔ پانی کے سارے منابع کی شہ رگ، اُس کی گرفت میں آ گئی۔ اس گوریلا جنگ سے پہلے کشمیر کے سارے راستے پاکستان سے ہو کر گزرتے تھے۔ اُس کی اکثریت مسلمان آبادی پر مشتمل تھی۔ مہاراجہ نے غیر جانبدار اور آزاد رہنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ میرے خیال میں اگر قبائلی لشکر اُس پر حملہ آور نہ ہوتے تو وہ کبھی بھارت کے پائوں پر نہ گرتا۔ وہ جانتا تھا کہ کشمیر کا تاریخی اور جغرافیائی رشتہ، لوگوں کا آنا جانا اور مرنا جینا پاکستان میں شامل علاقوں سے جُڑا ہوا ہے۔ بہرطور کشمیر چھِن گیا لیکن میرپور، ڈڈیال، مظفرآباد، کوٹلی اور راولا کوٹ کے محنت کش کشمیریوں کو داد دیجئے، جنہوں نے بیرونِ ملک جا کر، اپنا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا اور ہمارا بھی! ورنہ پاکستان تو انہیں روٹی دینے کی پوزیشن میں بھی نہ تھا۔ …یہ 1964ء ہے۔ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو…جنرل اختر ملک اور اُس وقت کے سیکرٹری خارجہ، عزیز احمد نے کشمیر میں خطِ متارکہ جنگ کے دوسری جانب گوریلا سرگرمیوں کا پلان جنرل ایوب خان کو پیش کیا۔ جنرل موسیٰ نے اس آتشیں پلان کی شدید مخالفت کی، جو اُن کے خیال میں، بالآخر پاک ہند جنگ پر منتج ہو سکتا تھا۔ جنرل موسیٰ نے (جنرل ٹکا خان کی مانند) سپاہی سے سپہ سالار کا سفر اپنی ذاتی قابلیت کے بل بوتے پر طے کیا تھا۔ پاک فضائیہ کے چیف، ایئر مارشل نور خان اور پاک نیوی کے سربراہ، ایڈمرل اے آر خان کو اس بحث میں شریک ہی نہیں کیا گیا۔ انڈیا مسئلہ کشمیر کو ایک مُردہ گھوڑے سے تشبیہہ دیتا تھا اور وزیرِ خارجہ بھٹو کا یہ خیال تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں گوریلا تحریک اس گھوڑے میں جان ڈال دے گی اور پاکستان کے لئے مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں دوبارہ اُٹھانا آسان ہو جائے گا۔ جنرل ایوب خان ’ہاں اور ناں‘ کے درمیان لڑھکتا رہا۔ بالآخر بھٹو گروپ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو گیا۔ آپریشن جبرالٹر کے تحت، فوجی کمانڈوز اور مقبول بٹ جیسے پُرجوش قوم پرست، مقبوضہ کشمیر میں داخل کر دیئے گئے۔ اُن کی مسلح سرگرمیوں کا نتیجہ کشمیر میں پاک و ہند تصادم کی شکل میں نکلا۔ جونہی کشمیر پر دبائو بڑھا، 6ستمبر 1965ء کو بھارت نے براہِ راست پاکستان پر حملہ کر دیا۔ گوریلا تحریک کی کوکھ سے جنم لینے والی پاک بھارت جنگ، سترہ دنوں بعد، کسی نتیجے کے بغیر، اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ اس گوریلا تحریک میں کتنے ہی گھروں کے چراغ گُل ہوئے یا اس جنگ میں کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا، اُس کا نہ ہم نے کوئی تخمینہ لگایا اور نہ اس کی ناکامی سے کوئی سبق لیا۔ اُس دور کا پاکستان ایشیا کا صنعتی ٹائیگر سمجھا جاتا تھا۔ ہماری ترقی کی شرح بھارت اور چین دونوں سے دوچند تھی۔ بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (BECO) پاکستان میں ٹیوٹا کار کی پروڈکشن کے لئے جاپان سے گفت و شنید مکمل کر چکی تھی…یعنی پاکستان مکمل طور پر صنعتی ٹیک آف کی پوزیشن میں تھا۔ یہ بے ثمر اور بے نتیجہ جنگ، پاکستان کو ریورس گیئر (Reverse Gear) میں ڈال گئی۔ بیرونی ممالک نے پاکستان کی امداد بند کر دی اور اُس پر ہر طرح کی پابندیاں بھی عائد کر دیں۔ پاکستان میں مارشل لأ کا مسلسل نفاذ اور جرنیل شاہی کا غاصبانہ رویہ، بنگالیوں کو پاکستان سے مایوس کرنے کا سب سے بڑا سبب ٹھہرا۔ مارچ 1971ء میں جنرل یحییٰ نے بنگال آپریشن کا آغاز کیا؛ چنانچہ بھارت کو بنگال میں وسیع پیمانے پر گوریلا ایکشن کے ری پلے کا موقع مل گیا۔ اُس نے مکتی با ہنی کے سر پر دستِ شفقت رکھا تو ہمارے اداروں نے بنگال میں آباد بِہاریوں پر مشتمل ’البدر‘ اور ’الشمس‘ جیسی جہادی تنظیمیں تخلیق کر لیں۔ بالآخر 4دسمبر 1971ء کی صبح، جنرل یحییٰ نے بھارت کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا، جس کا نتیجہ 17دسمبر 1971ء کو بنگال کی علیحدگی کی شکل میں نکلا۔ الغرض دوتہائی کشمیر بھی ہاتھ سے نکل گیا اور آدھا پاکستان بھی…لیکن نہ ہمارے اداروں کی پالیسی بدلی، نہ جرنیل شاہی کے ہوسِ اقتدار میں کوئی کمی آئی، نہ کسی ادارے سے باز پرس ہوئی، نہ کسی پر شکست کی ذمہ داری عائد کی گئی اور نہ کسی پر کوئی مقدمہ چلا۔ پاکستان کی ریاست بھی اور دفاعی سیاست بھی اُسی ڈگر پر چلتی رہی۔ اپریل 1978ء میں کمیونسٹوں نے افغانستان کے صدر دائود کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس خبر پر پاکستان کے تیسرے ’’فاتح‘‘ جنرل ضیاء الحق نے خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے امریکہ کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔ 1989ء میں روس، افغانستان سے نکل گیا۔ 1992ء میں کمیونسٹ حکومت ختم ہو گئی اور مجاہدین برسرِ اقتدار آ گئے۔ 1996ء میں طالبان نے مجاہدین کا سر قلم کر دیا۔ دسمبر 2001ء میں امریکہ کے زیرِسرپرستی بین الاقوامی لشکر افغانستان میں آن اُترا اور اب طالبان، مجاہدین ہو گئے۔ ان ساری تبدیلیوں کے باوجود ہماری گردن آج تک افغانستان کے پھندے سے باہر نہیں آ سکی۔ 1989-99ء کے دوران، انہی تربیت یافتہ لشکریوں کا ایک حصہ، خفیہ اداروں کی سرپرستی میں، اسلام کا عَلم لہراتے ہوئے، ’’جہادی سرگرمیوں‘‘ میں مصروف ہو گیا۔ ہزاروں بانکے نوجوان اجنبی پہاڑوں پر اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ اس صورتحال نے 1999ء میں کارگل کے المیے کو جنم دیا، جو کسی بھی لمحے پورے برصغیر کو ایٹمی بھٹی میں جھونک سکتا تھا۔ دسمبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کا منطقی نتیجہ ’’جہادِ کشمیر‘‘ اور ’’جہادِ افغانستان‘‘ سے دست برداری کی شکل میں نکلا۔ ’’جہادی پالیسی‘‘ میں 180درجے کی تبدیلی کو ان لشکریوں کا ایک حصہ بھی اور ان کو تربیت دینے والے اداروں کے کچھ ملازمین بھی ہضم نہ کر سکے۔ الغرض پاکستان ایک نئے خونی بحران کا شکار ہو گیا۔ ان باغی لشکریوں نے ’’تحریکِ طالبانِ پاکستان‘‘ کے زیرِ عنوان، پاکستان کے عوام کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ آئی ایس آئی کے دفاتر، جی ایچ کیو، مختلف دفاعی تنصیبات اور پی این ایس مہران پر حملے اسی تسلسل کی داستان ہیں۔ لوگ یہ سوچ کر خوف سے تھرا اُٹھتے ہیں کہ اگر کوئی جہادی تنظیم ہمارے اداروں کے وجود میں سرائیت کر گئی تو کل ملک کی بقأ کا کیا بنے گا؟ پاکستان کا دفاع، افواجِ پاکستان کی پہلی اور آخری ذمہ داری ہے۔ جنگ ہو یا جہاد…یہ فریضہ کسی نجی لشکر نے نہیں بلکہ پاکستان کی فوج نے ادا کرنا ہے۔ اگر حکومت مناسب سمجھے تو ’’لازمی فوجی تربیت‘‘ کا قانون نافذ کر دیا جائے تاکہ سوسائٹی کا ہر شعبہ، ہر مسلک، ہر فرقہ، ہر علاقہ اور ہر فرد ضرورت پڑنے پر پاکستانی افواج کے پہلو بہ پہلو میدانِ جنگ میں اُتر سکے۔ یہ سیاسی حکومت کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ علاقائی امن اور ملکی تحفظ کے لئے پالیسی بنائے۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہمیں زمینی دہشت گردی سے بھی نجات دلائے اور فضائی دہشت گردی سے بھی! چونکہ ان فرائض کا بارِ گراں اب تک دفاعی اداروں نے اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا ہے، اس لئے قوم کی نظریں انہی کی طرف اٹھتی ہیں۔ حکومت کو بہرصورت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس صورتحال کو بدلنا چاہیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں