تاریخ کی دہلیز پر (1)

بیرونی دنیا برسوں سے سر پر ہاتھ رکھے یہ دہائی دے رہی تھی کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بھی ہے اور اُن کی تربیت گاہ بھی! امریکہ، یورپ اور افغانستان تو کھلے بندوں پاکستان پر یہ الزام عائد کرتے رہے کہ اسامہ بن لادن، مُلا عمر اور اُن کے ہم نوا گروہ نہ صرف پاکستان میں جاگزیں ہیں بلکہ وہ یہیں سے افغان جنگ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران دنیا میں دہشت گردی کا جہاں کہیں کوئی واقعہ رونما ہوا، بدقسمتی سے اُس کا کوئی نہ کوئی حوالہ اور سُراغ بالآخر پاکستان کی سرزمین تک پہنچا دیا گیا۔ چنانچہ پوری دنیا خاک و خون میں غلطاں پاکستان کو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اس بحران کا ذمہ دار قرار دیتی رہی۔ یکم اور 2مئی 2011ء کی درمیانی رات نے بالآخر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی ناقص پالیسی کو بھی ظاہر کر دیا اور یہ رات ہماری دفاعی استعداد پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گئی۔ آج اندرونِ ملک ہر گھر، گلی اور کوچے میں عوام کی زبان پر ان گنت سوالات مچل رہے ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی شہ رگ کے اتنے قریب اسامہ بن لادن کی موجودگی سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ اگر اُسے کہیں سے سرپرستی حاصل نہیں تھی تو پھر ایبٹ آباد میں اسامہ کی موجودگی ہمارے خفیہ اداروں کی کارکردگی کو دھندلا نہیں گئی؟ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اسامہ کے خلاف ایک گھنٹہ چالیس منٹ تک آپریشن جاری رہا، اسلحہ کا کھُلا استعمال ہوا، حتیٰ کہ اس آپریشن کے دوران ایک امریکی ہیلی کاپٹر بھی گِر کر تباہ ہو گیا لیکن اس سارے المیے کی نہ تو کسی فرد کو خبر ہوئی نہ قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ حرکت میں آیا۔ کوئی ہفتہ بھر کی خاموشی کے بعد قوم کو یہ تسلی دی گئی کہ جب حملے کا علم ہوا، تب تک غنیم بخیرو عافیت افغانستان میں واپس جا چُکا تھا…اور یہ بھی کہ اگر ہم نے مدافعت کی ہوتی تو امریکی طیارے جوابی حملہ کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ گویا ہم دنیا کو اس بات پر قائل کرنا چاہتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن کا کھوج نہ لگا سکنا، ہمارے خفیہ اداروں کی ناکامی تھی اور امریکی حملے کا سُراغ اس لئے نہ لگا پائے کہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی کی کمی تھی۔ کاش یہ مسئلہ یہیں تک محدود رہ سکتا! لیکن اس آپریشن کے اختتام سے ہمارے مسائل ختم نہیں ہوئے بلکہ 2مئی کی رات ہمارے مستقبل کو زہر آلود کر گئی اور ایک نئی گمبھیرتا کو بھی جنم دے گئی۔ اس نئی گمبھیرتا کے نتائج ہمارے لئے اور ہماری قومی بقا کے لئے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ آج پوری دنیا کی انگلیاں پاکستان کی جانب اُٹھی دکھائی دیتی ہیں اور اس وقت دنیا کے اکثر ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے۔ چین نے امریکی آپریشن کے خلاف دبی زبان میں محض ایک رسمی سا بیان جاری کیا۔ کسی مسلمان ملک نے کھل کر پاکستان کی حمایت نہیں کی۔ وہ ’اُمّہ‘ جس کے لئے پاکستان کی کئی مذہبی جماعتوں نے پورے ملک کو کئی برسوں سے اپنے سینگوں پر اُٹھا رکھا تھا، آج اُس کا کوئی فرد پاکستان کی حمایت میں بولنے کو تیار ہے اور نہ کہیں سے کوئی آواز ہمارے حق میں سنائی دیتی ہے۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا معاشی طور پر جاں بہ لب، انتظامی طور پر مفلوج، حکومتی لحاظ سے کسی قیادت کے بغیر اور لرزہ براندام پاکستان، آنے والے شدید خطرات اور مسائل سے عہدہ برآ ہو سکے گا؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے جیسے ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، ہماری حکومت اور ہمارے دانشور، ہمارے مذاکرے اور ٹاکرے، ہماری جانب لمحہ بہ لمحہ بڑھتے خطرے کا ادراک کرنے سے قاصر ہوں۔ لہٰذا یار لوگوں نے الیکٹرانک میڈیا پر جُگت بازی کا نیا تھیٹر لگا رکھا ہے۔ ذہنی طور پر الجھائو کے شکار یہ حضرات پوری قوم کو کنفیوز کرنے کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔ کسی کے لئے یہ بات حیران کن ہے کہ اسامہ بن لادن کی تین بیویوں کے چودہ بچے کیسے پیدا ہو گئے؟ کسی کے نزدیک وہ پہلے ہی مارا جا چکا تھا…اور کوئی اُسے اب بھی زندہ سمجھتا ہے۔ ان میں سے کوئی اس خوفناک حقیقت کا ادراک کرنے کو تیار نہیںکہ آج ہمارا وجود تاریخ کی دہلیز پر ایک سوالیہ نشان کی مانند آویزاں ہے۔ کاش کہ ہم اپنے ماضی میں ذرا جھانکیں کیونکہ 2مئی 2011ء کی رات…ایک ہی رات میں نہیں آئی۔ اس خوفناک رات تک پہنچنے کے لئے پاکستان کی عسکری قوت کو بڑی بے رحمی سے کُچلا اور تباہ کیا گیا۔ 2مئی کی جانب سب سے پہلا قدم ایبٹ آباد کے قریب ہری پور میں جنم لینے والے پاکستان کے پہلے فوجی سپہ سالار نے اُٹھایا۔یہ جنرل ایوب خان تھا۔ اس نے 8اکتوبر 1958ء کی رات ملک کے پہلے آئین کو قدموں تلے روندتے ہوئے اقتدار پر پہلا شب خون مارا اور بڑی بے دردی سے قوم کی اس دفاعی مشین کو اقتدار کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اُس نے خفیہ ادارے دشمن کا کھوج لگانے کے بجائے سیاستدانوں کو بنانے، جوڑنے اور توڑنے میں لگا دیے۔ نتیجہ یہ کہ 1965ء کی جنگ کے دوران جب انڈیا کا ایک پورا ڈویژن خفیہ اداروں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو ایوب خان نے اُن کی گوشمالی کرنا چاہی۔ انٹیلی جنس کے سربراہ نے انہیں بتایا کہ وہ 1964ء کا پورا سال ایوب خان کی صدارتی مہم چلانے میں مصروف رہا؛ لہٰذا وہ دشمن کی نقل و حرکت کے متعلق تمام معلومات جمع نہ کر سکا۔ اپنی ادھوری معلومات اور نیم پروفیشنل تیاری کے بغیر 1965ء کی جنگ میں پاکستان آزادیٔ کشمیر کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں