تاریخ کی دہلیز پر (2)

23مارچ 1969ء کی شام کے آٹھ بجے پاکستان کے تیسرے سپہ سالار جنرل یحییٰ خان نے ملک کو از سرِ نو ’فتح‘ کر لیا۔ چنانچہ 17دسمبر 1971ء کے منحوس دن ایک شرمناک شکست ہمارا مقدر ٹھہری اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ اس سانحہ پر حمود الرحمن کمیشن بیٹھا…لیکن بھٹو نے نہ تو اس کمیشن کی رپورٹ شائع کی‘ اور نہ 1971ء میں پاکستان کو دونیم کرنے والوں کا احتساب کیا۔ انہوں نے 1958ء کا مارشل لأ نافذ کرنے کے جُرم میں ایوب خان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے بھی گریز کیا۔ جنرل ایوب خان کا احتساب تو شاید اُن کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز ہی اُن کے زیرِ سایہ کیا تھا لیکن اُنہیں پاکستان کو دولخت کرنے والے ٹولے کو کسی صورت میں معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بھٹو کی اِس ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کا نتیجہ 5 جولائی 1977ء کی رات ایک نئے مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہوا۔ جنرل ضیاء نے نہ صرف پاکستان کا دوسرا متفقہ آئین نظرانداز کردیا بلکہ بھٹو ایسے نابغۂ روزگار سیاستدان کو بھی تختۂ دار پر کھینچ دیا۔ بھٹو ایسے ذہین سیاستدان کا یہ انجام افسوس ناک بھی تھا اور فکر انگیز بھی! لیکن وائے حسرتا… کہ کسی نے اس انجام سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ اگست 1988ء میں C-130طیارہ اپنے ساتھ جنرل ضیاء الحق کو بھی خاکستر کر گیا۔ اس حادثاتی خلاء میں پاکستان کا اقتدار کچھ عرصے کے لئے محترمہ بینظیر بھٹو کے حصے میں آیا۔ محترمہ نے نہ تو بھٹو کے ناروا قتل کا مقدمہ دوبارہ سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا فیصلہ کیا اور نہ جنرل ضیاء کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلانے کی استدعا کی۔ اگرچہ بھٹو اور جنرل ضیاء دونوں حیات نہ تھے۔ انہیں اس مقدمہ سے کوئی جسمانی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس کے باوجود کم از کم اس ملک میں ایک مثال تو بن جاتی اور آئندہ کوئی ادارہ آسانی سے آئینی حدود کو عبور نہ کر سکتا۔ لیکن محترمہ نے ’’عظیم مفاہمت‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے، وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُس کے حضور اُٹھانے سے بھی گریز نہ کیا، جس نے جنرل ضیا کے مارشل لاء کو نظریۂ ضرورت کا جامہ پہنایا تھا۔ محترمہ نے اپنی اسی ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کی پٹڑی پر چلتے ہوئے 1973ء کے آئین اور بھٹو مرحوم کے قتل میں ملوث گروہ کو ’تمغۂ جمہوریت‘ سے نواز دیا لیکن…محترمہ کا انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ 1999ء میں اچانک کارگل کے پہاڑ بم و بارود کے دھماکوں سے لرزنے لگے۔ اُس وقت کے سپہ سالار جنرل مشرف نے سیاسی حکومت کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے اپنے طور پر ہی اِس جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ نہ صرف آئین کے لحاظ سے یہ ایک مجرمانہ فعل تھا بلکہ جنرل مشرف نے برصغیر کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر بھی پہنچا دیا تھا۔ اگر اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے امریکہ جا کر اس خطرے کی پیش بندی نہ کر لی ہوتی تو آج برصغیر پاک و ہند ایٹمی بارود سے جلے ہوئے کوئلے کی شکل میں نشانِ عبرت بنا ہوتا۔ اگر کارگل کے ذمہ دار جنرل مشرف کو فی الفور کٹہرے میں کھڑا کر دینے کا حکم جاری کر دیا جاتا تو کاغذ پر ہی سہی‘ لیکن اس سے احتساب کی روایت تو قائم ہو جاتی۔ اگرچہ اس بات کا مکمل امکان موجود تھا کہ وہ کورٹ مارشل کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت کا تختہ اُلٹ دیتے‘ لیکن نتیجہ تو پھر بھی یہی نکلا۔ 12 اکتوبر 1999ء کی شام کے آٹھ بجے جنرل مشرف نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ تاریخ سے سبق سیکھنے والے سیاستدان میاں نواز شریف کے احساس میں شاید آج بھی یہ چبھن موجود ہو کہ جنرل مشرف کا کورٹ مارشل کرنے کا تاریخی لمحہ اُن کے ہاتھ سے کیسے اور کیوں پھسل گیا؟ جنرل مشرف کا نو سالہ دور پاکستان کی تاریخ کا بدبخت ترین زمانہ تھا۔ 2008ء میں این آر او کے چھاتے تلے پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو اُس نے نہ صرف جنرل مشرف پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے سے پہلو بچایا بلکہ اُسے اکیس توپوں کی سلامی کے ارتعاش میں رخصت کرنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے دیا۔ شکر جانیے کہ بات اکیس گولوں کی سلامی تک محدود رہ گئی…اگر جنرل مشرف کے گلے میں ’تمغۂ جمہوریت‘ بھی ڈال دیا جاتا تو کون روک سکتا تھا؟ پاکستان کے آئین کی بار بار تنسیخ، جمہوری حکومتوں کا پے در پے تختہ اُلٹا جانا، 1971ء میں پاکستان کا ٹوٹنا، وزیراعظموں کی جلا وطنی اور پھانسی، جنرل مشرف کا امریکہ کے ساتھ یک طرفہ معاہدے کرنا، ڈرون حملوں کی اجازت دینا، اپنے ملک کے شہریوں کو سی آئی اے کے حوالے کرنا، ملک کو معاشی طور پر دوسروں کا دست نگر بنا دینا…اور بالآخر ایبٹ آباد میں ہمارا یہ حشر ہونا، دراصل اُسی تلخ تاریخ کا آخری موڑ ہے جس کا آغاز 1958ء کے مارشل لاء کی صورت میں ہوا تھا۔ پاکستان میں شاید ایک بھی ایسا فرد نہ مل سکے، جو اپنی مسلح افواج سے محبت نہ رکھتا ہو۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شہری پایا جائے جو اپنے ملک کو ہزیمت خوردہ دیکھنا چاہتا ہو۔ شاید ہی کوئی ایسا انسان موجود ہو جو اپنی قوم کو تاریخ کے کانٹوں پر گھسٹتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہو۔ افواجِ پاکستان سارے عوام کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے دفاعی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ وہ اپنی افواج کی کارکردگی جاننے کا حق بھی رکھتے ہیں! یہ حقیقت ہے کہ موجودہ سپہ سالار جنرل کیانی نے مشرف کے ہاتھوں تباہ شدہ فوجی ادارے کو بڑی ہمت اور محنت سے ایک بار پھر ایک جنگی مشین کے قالب میں ڈھالنے کی پوری کوشش کی۔ جنرل کیانی ایک پیشہ ور سپاہی کی شہرت رکھتے ہیں، جن میں نہ جاہ طلبی کا عنصر پایا جاتا ہے اور نہ طالع آزمائی کا شوق! اُن کا المیہ یہ ہے کہ گزشتہ پچاس برس کی کوتاہیوں، غلطیوں اور چیرہ دستیوں کا ملبہ جمع ہو کر اُن کے صحن میں آن پڑا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ کے اس بارِ گراں کو نہ اُٹھائے رکھنا ممکن ہے اور نہ اُسے نظرانداز کرنا! فوج کا وجود اور طاقت صرف اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ صرف پیشہ ورانہ تربیت پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھے اور ہر حال میں سیاست سے کنارہ کش رہے۔ ایجنسیوں کو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کی سمت اور منزل طے کرنا، پارلیمنٹ کا فرض بھی ہے اور حق بھی! اگر آج اس بات کا فیصلہ نہ کیا گیا تو شاید کل ہمارے پاس یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہی نہ رہے۔ کیا ہمارے لیے یہ لمحۂ فکریہ نہیں کہ بجلی اور توانائی سے محروم قوم، مہنگائی اور لاقانونیت کے گرداب میں چرخاتے عوام، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی دہلیز پر سجدہ ریز ملک، امریکہ سے اُدھار مانگے ہوئے اسلحے کے ساتھ، امریکہ ہی کو کیسے شکست دے پائے گا؟ کیا ہمیں فوراً اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت نہیں؟ کیا اب بھی حکومتوں اور اداروں کے احتساب کا وقت نہیں آیا؟ کیا آج بھی پاکستان کو اپنی موجودہ ناکام ترین علاقائی پالیسی پر کاربند رہنا چاہیے؟ ہمارے زندہ رہنے کا صرف ایک ہی امکان باقی ہے کہ ہم پاکستان کی سرزمین کو ہر قسم کے دہشت گردوں سے پاک کر دیں اور بھیک مانگنے کی بجائے معاشی لحاظ سے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ اپنا احتساب کرنے اور دہشت گردی کا یہ جواز ختم کرنے کے بعد اگر پھر بھی امریکہ، پاکستان کی سرزمین پر تجاوز کرے تو ہمیں اپنے سر پر کفن باندھ کر اُس کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں