پاکستان میں ڈِس انفارمیشن کی سونامی سے ابھرنے والا طوفان مکمل طغیانی پر ہے۔ ڈِس انفارمیشن کے لئے ہماری ذہنی آمادگی کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوم نہیں کر سکتی۔ آج کے وہ سارے معاشی اور بین الاقوامی مسلمہ حقائق، جن کی بنیادوں پر امروزہ ڈپلومیسی کی بلندوبالا عمارت استوار ہے، ہمارے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتے۔ نہ ہمیں بیرونی دنیا سے کوئی غرض ہے اور نہ اُس کی سیاست سے کوئی مطلب! گزشتہ 65 سالوں کے جھوٹ اور افترا نے ہمارے اذہان کو اس قدر مسموم کر رکھا ہے کہ ہم کسی قسم کی کوئی منطقی بات سُننے، دیکھنے، سوچنے یا جاننے کے لئے تیار نہیں۔ ہماری ذہنی ژولیدگی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ آج ہم خود ہی افواہیں تخلیق کرتے ہیں، خود ہی اُنہیں پھیلاتے ہیں، خود ہی اُن پر تبصرے کرتے ہیں اور پھر خود ہی اُن پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ وہ بزرگ، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے 1947ء کا پُرآشوب زمانہ دیکھا، بتایا کرتے تھے کہ بٹوارے کے دوران، یہ افواہ پھیل گئی کہ ماجھے کے نہنگ سِکھ پاکستان پر چڑھ دوڑے ہیں۔ اس جھوٹی خبر کا پھیلنا تھا کہ خوف سے ڈسے ہوئے لوگ، اپنے اپنے گھروں سے بھاگ نکلے۔ اُن بیچاروں کا بھی کیا قصور کہ اُن کی پوری تاریخ پشتون اور ترک لشکروں کے حملوں یا سِکھ جتھوں کی قتل و غارت سے بچتے اور بھاگتے گزری تھی۔ چنانچہ انہوں نے افواہ کو حقیقت سمجھا اور اُسے جنگل کی آگ کی مانند پورے پنجاب میں پھیلا دیا۔ اٹک اور راولپنڈی کے دُور افتادہ دیہات میں بسنے والوں نے یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ راوی کے اُس پار سے سِکھ کیا ہوائی جہازوں پر بیٹھ کر اُن کے گائوں میں آن اُتریں گے؟ کیا چار سو میل کے راستے میں انہیں کوئی روکنے والا نہ ہو گا؟ لیکن پھر وہی بات کہ افواہوں کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 1965ء کی جنگ شروع ہوئی تو اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا کہ اگر لوگ کسی افواہ کے پیشِ نظر، خوف کے عالم میں اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنے لگے تو فوج کی نقل و حمل میں شدید رکاوٹیں اور مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس افتاد سے بچنے کی خاطر، جی ایچ کیو میں نفسیاتی جنگ کا ایک سیل بنایا گیا۔ اس سیل کا کام ایسی افواہیں پھیلانا تھا، جس سے عوام کا حوصلہ بلند رہ سکے۔ پروفیسر ڈاکٹر اجمل اس سیل کے سربراہ تھے۔ ڈاکٹر اجمل کو خدا بخشے، وہ بڑے خوشگوار مُوڈ میں بتایا کرتے تھے کہ ہم نے عوام کا حوصلہ بلند رکھنے کی خاطر، پہلی افواہ یہ پھیلائی کہ ہماری سرحدوں پر سبزپوش درویش پہرہ دے رہے ہیں؛ چنانچہ جونہی انڈیا سے کوئی گولہ یا بم ہماری جانب آتا ہے، وہ اُسے پھٹنے سے پہلے ہی اپنے ہاتھ میں تھام کر واپس انڈیا کی جانب پھینک دیتے ہیں۔ ایک دو اخبارات میں ایسے فرضی لوگوں کے بیانات شائع کئے گئے، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ان صاحبِ کشف و کرامات سبز پوش بزرگوں کو دشمن کے گولے اپنے ہاتھوں میں تھامتے اور پھر انہیں ہندوستان کی جانب پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم میں سے جس کسی کو 1965ء کی جنگ یاد ہے، اُسے ڈاکٹر اجمل کے تخلیق کردہ سبز پوش بزرگوں کی یہ کرامات بھی یاد ہوں گی۔ ہم اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ عبور کر چکے ہیں۔ آج ہمیں ڈِس انفارمیشن پھیلانے اور واہمے بکھیرنے کے لئے نہ کسی سیل کی ضرورت ہے اور نہ ان واہموں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ڈاکٹر اجمل ایسے کسی ماہرِ نفسیات کی! گزشتہ 65 سالہ افواہ سازی کی مسلسل مشق نے ہم میں سے ہر ایک کا دماغ از خود افواہیں تراشنے، انہیں عام کرنے اور انہیں حقیقت ثابت کرنے کے ایک خود کفیل کارخانے میں ڈھال دیا ہے۔ آج کسی حکومت یا ادارے کو جھوٹ پھیلانے کی ضرورت نہیں رہی کہ ہم سب اپنے اپنے مقام پر اس کام میں ہمہ تن مصروف بھی ہیں اور مشغول بھی! ہمارے پرنٹ میڈیا کی تحقیقاتی جرنلزم (Investigative Journalism) کا یہ عالم ہے کہ وہ کوچہ و بازار میں زیرِ گردش افواہوں کو نامہ نگارِ خصوصی کے زیرِ عنوان نمک مرچ لگا کر، ہر صبح عوام کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ ہمارے عوام انہی خبروں سے صبح کا ناشتہ کرتے ہیں اور دن بھر ایک دوسرے کو اُن کی صداقت پر قائل کرنے میں جُتے رہتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے اینکر پرسنز، پرنٹ میڈیا کے خصوصی نامہ نگاروں سے بھی کئی قدم آگے کھڑے ہیں۔ اُن میں طلعت حُسین کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا اینکر مل سکے، جو کسی بھی واقعہ کے دونوں رُخ اُجاگر کرتا ہو۔ اُن میں سے بیشتر سیاستدانوں کو باہم لڑوا کر یا پھر افواہوں کو حقیقت کا روپ دے کر اپنی بلندیٔ درجات (High Rating) کے لئے ریاضت میں مصروف رہتے ہیں۔ دفاعی واہمے اور جذباتی افواہیں پھیلانے کے میدان میں ہمارے دو سابق جرنیلوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ وہ آج تک عوام کو گمراہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے لے کر آج تک یہ حضرات افغانستان کو اپنی ایک دست نگر کالونی فرض کرتے ہوئے، اُسے اپنی جنگی حکمتِ عملی کی گہرائی (Strategic Depth) قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔ ہماری افواہ ساز فیکٹریاں، بیرونی قرضوں کے بارِ گراں تلے، لرزتے، کپکپاتے اور کشکول لئے گلی گلی صدائیں دیتے، پاکستان پر آج بھی رحم کرنے کو تیار نہیں! ہم نے جہاد کے نام پر باہمی کشت و خون اور قتل و غارت سے پاکستان کا یہ حشر کر دیا کہ آج نہ کہیں امن ہے اور نہ جائے امان…نہ کہیں قانون ہے اور نہ اُس کا نفاذ…نہ کہیں وِژن ہے اور نہ کوئی پلان…نہ بجلی میسر ہے اور نہ گیس…نہ منزل اور نہ منزل کی جانب سفر۔ افواہوں کے اس سیلاب میں عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہید ہیں یا امریکی ڈرون طیاروں کے میزائلوں سے مارے جانے والے؟ یار لوگوں کا کمال دیکھئے…کہ وہ اس حال میں بھی اپنے اپنے مقام پر ڈِس انفارمیشن پھیلانے کا فریضہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔