مریخ…اور کولہو کا بیل!

پاکستان میں حالات کا دھارا اس تیزی سے بہہ رہا ہے کہ ایک دن کی بریکنگ نیوز دوسری صبح سالوں پرانی لگتی ہے۔ وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ پر ابھی نقدونظر کے نشتر چل ہی رہے تھے کہ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کی خبر پاکستان کے میڈیا میں گونجنے لگی۔ یار لوگوں نے اس حقیقت کو ایک دم فراموش کر دیا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے ہاتھوں گزشتہ دس برسوں کے دوران کم و بیش چالیس ہزار سویلین اور فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کسی فوجی سپاہی کو معاف کیا نہ کسی جرنیل کی زندگی بخشی۔ بے دردی کا یہ عالم کہ انھوں نے 18 فوجیوں کی گردنیں اُتار کر اُن کی نعشیں پاکستان بھجوائیں۔ جی ایچ کیو سے لے کر نیوی یا پولیس کا کوئی ٹریننگ سنٹر ان کی دست بُرد سے نہیں بچا۔ اپنے اعلان کے مطابق وہ بے نظیر بھٹو کا خون بھی پی گئے، نیز انھوں نے کرنل امام اور کرنل خواجہ کو بھی اپنی گولی کا نشانہ بنا ڈالا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستان کی سرزمین پر نیٹو کی افواج موجود ہیں نہ کسی اور ملک کا لشکر‘ لہٰذا پاکستان کے سادہ لوح عوام کے خلاف ٹی ٹی پی کے پاس اس نوع کی خوفناک دہشت گردی کا کوئی جواز موجود نہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی لازم ہے کہ پاکستانی طالبان اور افغان طالبان میں بنیادی طور پرکوئی فرق نہیں۔ وہ ایک ہی سِکے کے دو رُخ ہیں۔ دونوں شدت پسند ہیں اور دونوں تعلیم و ترقی کو کافر گردانتے ہیں۔ دونوں کے نزدیک مسلمان صرف وہی ہے جو ان کی تعبیرِ اسلام کو درست قرار دیتا ہو۔ وہ ہر اختلاف کرنے والے کو کافر اورگردن زدنی سمجھتے ہیں۔ ان کے مقاصد 2014ء کے امریکی انخلا تک محدود نہیں بلکہ وہ پاکستان اور افغانستان دونوں پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک میں انھوں نے اپنے اپنے ’محاذ‘ سنبھال رکھے ہیں۔ ان کا اصل ہدف ان دونوں ممالک میں اپنے اپنے فرقے کی شرع نافذ کرنا ہے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں بلکہ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کے بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ان دونوں ممالک میں اپنی شرع نافذ کرنے کا ایک بار پھر اعلان کیا ہے۔ اِدھر ہماری حالت یہ ہے کہ جس علاقے پر ہمارا آئین چلتا ہے نہ قانون، جہاں ہمارا کوئی قومی ادارہ موجود نہیں، جس زمین پر ہم قدم نہیں رکھ سکتے، جہاں ہماری رِٹ نہیں چلتی، اُس علاقے میں ایسے مسلح لوگ مورچہ زن ہیں جنھوں نے اِس ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اگر یہ حضرات واقعی خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں تو انھیں ہتھیار پھینک کر پاکستان کی اسٹیٹ کے تابع ہونے کا عندیہ دینا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امن معاہدے میں وہ کس سطح پر پاکستان سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں؟ اور پاکستان اُن سے مذاکرات کی میز پر کیا منوانا چاہتا ہے؟ اگر مسئلہ صرف سپلائی لائن کی بحالی اور نیٹو افواج کے انخلا تک محدود ہے تو پھر اس طرح کا معاہدہ سبھی کے حق میں جاتا ہے تاکہ اس منطقے سے بیرونی افواج کا انخلا ہو سکے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ریاست پر حملہ آور ان مسلح باغیوں کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کریں جو غیرملکی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کی ریاست میں امن بحال رکھنے کا ضامن ہو۔ تاریخ 2014ء کے کسی خاص نقطے پر رُک نہیں جائے گی، لہٰذا ہمیں آنے والے وقت کی ابھی سے پیش بندی کر لینی چاہیے۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ امن معاہدوں کی تاریخ کچھ زیادہ درخشاں نہیں۔ 2004ء میں شمالی وزیرستان میں باغیوں کے سربراہ نیک محمد سے امن کا معاہدہ ہوا جس میں اس نے وزیرستان میں موجود ترکوں، چیچن باشندوں، ازبکوں اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کو شمالی وزیرستان سے خارج کرنے کی ذمہ داری اُٹھائی لیکن یہ معاہدہ زبانی جمع تفریق سے آگے نہ جا سکا۔ نتیجہ یہ کہ نیک محمد پاکستان میں ہونے والے پہلے ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا۔ فروری 2005ء میں حکومتِ پاکستان اور بیت اللہ محسود کے مابین ایک امن معاہدہ ہوا لیکن اس کا نتیجہ بھی شدید منفی صورت میں برآمد ہوا، یعنی جنوبی وزیرستان میں مسلح گروہوں نے پاک فوج پر اپنے حملے شدید کر دیے۔ بیت اللہ محسود بھی کچھ عرصے بعد ڈرون حملوں میں مارا گیا۔ جنوری 2013ء میں مُلا نذیر کے ساتھ ایک امن معاہدہ ہوا مگر اس پر بھی کوئی عمل نہ ہو سکا۔ بعد ازاں مُلا نذیر بھی ڈرون حملے کا نشانہ بنا۔ پھر ولی الرحمٰن کے ساتھ معاہدہ ہوا، یہ معاہدہ بھی بارآور ثابت نہ ہو سکا۔ چنانچہ مئی 2013ء میں ولی الرحمٰن بھی ایک ڈرون حملے کا شکار ٹھہرا۔ ایسی خبریں بھی زیرِ زمین پھیلتی رہیں کہ فوج اور طالبان نے خاموشی سے اپنے اپنے قیدیوں کا تبادلہ کر لیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ قدم مذاکرات کو ممکن بنانے کے لیے اُٹھایا گیا لیکن اس دوران طالبان نے اپنے حملے فوج اور سویلین آبادی پر جاری رکھے۔ کچھ عرصہ قبل جنرل نیازی کو چند افسروں سمیت انتہائی ظالمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر جماعتِ اسلامی کے رہنما سید منور حسن نے انھیں ’شہادت‘ کے رُتبے پر فائز فرما دیا۔ پاکستان کے سادہ لوح عوام کو یہ بات اب تک سمجھ نہیں آ سکی کہ چالیس ہزار بے گناہ پاکستانی‘ جو طالبان کے ہاتھوں مارے گئے، وہ شہید ہیں یا حکیم اللہ محسود؟ لیکن اس بات کا کیا علاج کہ ہمارے بیشتر مذہبی رہنما اپنی اپنی ضرورت کے مطابق شہادت کے درجات کو بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے پر ہمارے ہاں خاصا طوفان اُٹھا۔ کے پی کے کی اسمبلی نے عمران خان کی ہدایت پر یہ دھمکی جاری کر دی کہ اگر 20 نومبر تک حکومتِ پاکستان نے ڈرون حملوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا تو وہ نیٹو سپلائی بند کر دے گی۔ بہت سے لوگ نیٹو سپلائی بند کرنے کے خلاف یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ قدم تو ہم پہلے بھی اُٹھا چکے ہیں۔ نو ماہ نیٹو سپلائی بند رہنے کے باوجود صورت حال پر کوئی فرق نہ پڑ سکا تھا۔ سید منور حسن تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کو ڈرون طیاروں پر حملے کرنے چاہئیں۔ اُن کی یہ تجویز کوئی ایسی بُری بھی نہیں… اگر ہم نے اجتماعی خودکشی کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر ایسا اہتمام کرتے چلیں کہ جنازہ تو ذرا دھوم دھام سے اُٹھے۔ ویسے تو ہم نے باہمی کُشت و خون کا ایک ایسا دنگل رچا رکھا ہے کہ ہمیں کسی بیرونی حملہ آور کی ضرورت ہی نہیں، ہم خود ہی اپنا جنازہ نکالنے کے لیے کافی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں، جب ہماری بریکنگ نیوز انسانو ںکے قتال سے شروع نہ ہوتی ہو۔ ذرا ہماری بے ہوشی ملاحظہ فرمائیے کہ ہمارا ہمسایہ ہندوستان، مریخ پر اپنا پہلا میزائل پھینکنے جا رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس نے یہ میزائل اپنے ملک کے اندر ہی تیار کیا ہے۔ دنیا اپنی دوڑ میں جانے کہاں سے کہاں جا پہنچی اور ہم بدنصیب کولہو کے بیل کی مانند اپنی آنکھوں پر ’’کھوپے‘‘ چڑھائے وہیں کے وہیں گھوم رہے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں