راہِ نجات

جون 1937ء میں مہاراشٹر کے کسی دُور افتادہ گائوں میں، ایک غریب کسان کے گھر، کمزور اور نحیف و نزار کالا سانولا سا بچہ پیدا ہوا۔ کسان اپنے چھ بچوں کو پالنے پر قادر نہ تھا۔ اُس کی ایک بے اولاد چچی اِس نومولود بچے کو اپنے ساتھ ممبئی لے گئی۔ اس بچے نے غربت کے ہاتھوں ساتویں جماعت میں سکول کو خیر باد کہہ دیا اور اپنی گزر اوقات کے لئے، ممبئی کے ڈاڈر نامی علاقے میں پھول بیچنے لگا۔ 1962ء میں بھارت چین جنگ چھِڑ گئی۔ اگرچہ اُس کا قد کاٹھ پورا نہ تھا، اس کے باوجود، اُسے فوج میں بحیثیت ڈرائیور بھرتی کر لیا گیا۔ 1965ء میں پاک بھارت جنگ نے اُس کی زندگی کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ 11ستمبر 1965ء کی شام، اُس کے کانوائے پر پاک فضائیہ کے جنگی طیارے جھپٹے۔ اُن کی بمباری سے اُس کا ٹرک فضا میں اُڑ گیا۔ اس کے سارے ساتھی مارے گئے۔ ایک گولی اُس کے سر کو چھُوتی ہوئی نکل گئی۔ لیکن وہ معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا۔ اُس نے اپنے ساتھیوں کی جلتی ہوئی لاشوں پر بیٹھ کر، پہلی بار زندگی کی بے ثباتی پر سوچا۔ اُس کے ذہن میں یہ سوال اُبلنے لگا کہ جب زندگی کا مفہوم واضح ہے اور نہ اُس کے معنی، نہ اُس کے آغاز کا علم ہے اور نہ اُس کے انجام کی خبر…تو پھر زندہ رہنے کا جبر جھیلنے کا کیا فائدہ؟ اُن دِنوں وہ اکثر اوقات خودکشی کے متعلق سوچتا رہتا۔ ایک دن اُسے ریلوے اسٹیشن سے کسی سادھو سنت کی ایک ایسی کتاب مل گئی، جس نے اُسے زندگی کے ایک نئے مفہوم سے روشناس کرایا۔ سادھو نے لکھا تھا کہ زندہ رہنے کا صرف ایک ہی جواز ہے کہ انسان بے نوا، غریب، لاچار اور دُکھی لوگوں کی خدمت میں اپنا ہر لمحہ گزار دے۔ 1978ء میں وہ ایک اور انتہائی خوفناک ایکسیڈنٹ سے بچ تو نکلا لیکن اب اُس نے اپنی زندگی صرف دوسروں کے لئے گزارنے کا عہد کر لیا۔ اُس نے 38برس کی عمر میں، فوج سے ریٹائرمنٹ لی اور اپنے قحط زدہ اور غربت کے صحرا میں گھرے ہوئے گائوں کی جانب واپس لوٹ گیا۔ اُس نے کسانوں سے شراب چھڑوانے کے لئے نوجوانوں پر مشتمل ایک تنظیم بنائی۔ جونہی اُس کی ’سماج سدھار تنظیم‘ کی کامیابیوں کا شہرہ پھیلا، ان گنت پُر جوش نوجوان جوق در جوق اُس کے ساتھ شامل ہوتے چلے گئے۔ اِردگرد کے دیہات میں رہنے والے کسانوں کو بھی، اُس نے شراب کی لت سے نجات دلا دی۔ اُس کی ’سماج سُدھار تنظیم‘ نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک نہر کھودی اور صدیوں سے اِس خشک، بنجر اور نیم آبادعلاقے کو سرسبز لہلہاتے کھیتوں میں بدل دیا۔ اُس نے اپنے علاقے میں ذات پات کے بندھن کو توڑا۔ مشترکہ شادیوں کو رواج دیا…تاکہ لوگوں کا خرچہ کم ہو۔ آہستہ آہستہ پورا مہاراشٹر، اُس کا ہم آواز بھی ہو گیا اور اُس کا ہم رکاب بھی! اُس نے بے پناہ عوامی دبائو کے تحت 2005ء میں لوکل باڈیز کے قانون کو تبدیل کروا دیا۔ اِس نئی ترمیم کے بعد، ہر گائوں کے باشندے، اپنی اپنی ترقیاتی سکیمیں عوامی نمائندوں کی بجائے، براہِ راست خود تیار کرتے ہیں اور ضلعی انتظامیہ ان کے ساتھ مل کر ان کے پلان پر عمل درآمد کرتی ہے۔ 1991ء میں اُس نے کرپشن کے خلاف بڑی طاقتور موومنٹ چلائی۔ بدعنوان مافیا نے اُسے تین ماہ کے لئے قید کروا دیا…لیکن بے پناہ عوامی حمایت کے باعث، بالآخر وہ دو کرپٹ صوبائی وزرأ کو حکومت سے نکلوانے میں کامیاب ہو گیا۔ درسی تعلیم سے محروم، اِس غریب دہقان زادے نے اپنی مسلسل جدوجہد سے پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون پاس کروایا، جس کے مطابق حکومت ہر شہری کو اُس کی طلب کردہ معلومات مہیا کرنے کی پابند ہو گئی۔ …اور کچھ عرصہ قبل انڈیا کی تاریخ میں پہلی بار کرپشن کے خلاف، بِل پاس کروانے کے لئے اُس نے اپنی زندگی دائو پر لگا دی۔ جونہی اُس نے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا، حسبِ توقع حکومت نے اُسے امن و امان خراب کرنے کے جرم میں پابندِ سلاسل کر دیا…کہ حکومتیں اپنی جان بچانے کے لئے سب سے پہلے اِسی قسم کے ڈھکوسلوں سے کام لیا کرتی ہیں۔ لیکن صرف تیرہ دنوں کے اندر اندر، پورے ہندوستان کا سیاسی کلچر، اس دہقان زادے کے قدموں پر لرزتا ہوا ڈھیر ہو گیا۔ حکومت بدعنوانی کے قانون میں ترمیم کرنے پر آمادہ ہو گئی۔ اس دہقان زادے کی اس تاریخی کامیابی پر پورے ہندوستان کے غریب اور مفلوک الحال عوام نے جشنِ فتح منایا۔ اور اِدھر ایک ہم ہیں کہ ڈھیروں کے حساب سے بدعنوان پیدا کئے جاتے ہیں، لیکن اُن کا قلع قمع کرنے کے لئے ہمارے ہاں کوئی انا ہزارے جنم نہیں لیتا۔ دوسروں کے ہاں تو ایک نیم خواندہ ریٹائرڈ فوجی ڈرائیور، اپنے سماج اور اپنے ملک کو بدلنے کے لئے ایک نئی تاریخ رقم کر دیتا ہے جبکہ ہمارے ہاں چار جرنیل کرپشن ختم کرنے کا عَلم لہراتے ہوئے، باری باری اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔ لیکن جب وہ گئے تو بدعنوانی کی غلاظت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ انہوں نے کسی وزیراعظم کو تختۂ دار پر کھینچا اور کسی کو جلاوطنی کے سراب میں دھکیلا۔ انہوں نے گاہے قانون کو اپنے قدموں تلے روندا اور گاہے آئین کا چہرہ مسخ کیا کہ ہم بدنصیبوں کے مقدر میں شاید اس کے سوا کچھ نہیں لکھا۔ ہمارے ہاں کرپشن کرنے والا طبقہ بھی اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے اور اُس کی مخالفت کرنے والے بھی اُسی طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ایک سیاسی رہنما اگر اپنے مخالف سیاستدان پر کرپشن کا الزام لگاتا ہے تو وہ جوابِ آں غزل کے مصداق، اُس سے کہیں زیادہ اتہامات کا کیچڑ، اُس کے چہرے پر پھینک دیتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں کرپشن کا کھیل بھی جاری ہے اور ایک دوسرے کے منہ پر کیچڑ پھینکنے کا مشغلہ بھی چل رہا ہے! عدمِ اعتماد کا بحران اس درجے تک پہنچ چکا ہے کہ کوئی کسی کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ کرپٹ مافیا نے حج‘ زکوٰۃ و صدقات تک کو نہ چھوڑا جو کچھ ہاتھ لگا‘ ڈکار گئے۔ کیا ہماری دہقان مائوں نے سرفروش اور قربانی دینے والے بچے جنم دینا بند کر دیئے ہیں؟ نہیں! ایسا ہرگز نہیں۔ اُن کے دودھ کی ایک ایک بوند سے کئی کئی اناہزارے جنم لیں۔ مگر اِس بات کا کیا علاج کہ ہمارے ہاں اِن غریب بچوں کو اپنے پیٹوں پر بم باندھ کر، انسانی جسموں کے پرخچے اُڑانے کی تحریک دی جاتی ہے۔ چنانچہ وہ دُکھی انسانیت کی خدمت میں اپنی جنت تلاش کرنے اور سماج کو بدلنے کی بجائے، بے گناہوں کو خون کا غسل دینے میں ہی اپنی راہِ نجات گردانتے ہیں۔ لیکن ان معصوم بچوں کا بھی کیا قصور…جنہیں ظلم، جبر، مہنگائی، ناانصافی، محرومی اور غربت کے خلاف سربکف ہونا سکھایا ہی نہیں جاتا؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں