امریکہ نے نائن الیون کی آگ میں خاکستر ہونے والے جڑواں ٹاورز کا ملبہ اُٹھانے سے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ القاعدہ اور اس کے ہم نوائوں کو کسی صورت میں نہیں بخشے گااور پاتال کی تہہ تک اُن کا پیچھا کرے گا، دنیا کے جس ملک میں بھی ان کا سراغ ملا، وہ اُس کی حکومت سے اجازت لیے بغیر اُنہیں نیست و نابود کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس کا یہ اعلان دراصل اس کے 'نظریۂ ضرورت‘ کے مطابق تھا کیونکہ جس کے پاس توپ و تفنگ کا انبار زیادہ ہو، وہ اپنی ضرورت کے مطابق قانون بنا لیا کرتا ہے۔ چنانچہ امریکہ نے اپنے اِسی ہدف کی تکمیل کی خاطر وزیرستان کے پہاڑوں کو دُھنک کر رکھ دیا۔
دوسری جانب پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دنیا کے کئی ممالک سے آئے ہوئے ہزاروں مسلح انتہا پسند مورچہ زن ہیں۔قبائلی علاقوں کے اصل باشندے نہ صرف ان کے میزبان ہیں بلکہ ان کے ہم نوا بھی ہیںاورہم رزم بھی۔1980ء کی دہائی میںجن باغیوں کو 'مجاہدین‘ کا عنوان دیا گیا تھا،آج کے طالبان اُنہی کا جدیدایڈیشن ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ 1980ء کی دہائی میں پائے جانے والے 'مجاہدین‘ صرف افغانستان پر حملہ آور ہوتے تھے مگر اس جدید ایڈیشن نے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کھال بھی اُدھیڑ کر رکھ دی ہے۔ شاید ہی پاکستان کا کوئی گلی کوچہ ایسا ہو جہاں صدہا بے گناہوں نے بم دھماکوں سے تڑپ تڑپ کر جان نہ دی ہو...مارے جانے والوں کی تعداد چالیس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ہم اپنی اندھی، بہری اور گونگی پالیسیوں کے نتیجے میں آج امریکہ اور طالبان کی دو انتہائوں کے درمیان ایک فالج زدہ لوتھڑے کی مانند اپنا دھڑ گھسیٹ رہے ہیں۔
پاکستان کی اس سے بڑی بدقسمتی اورکیا ہوگی کہ اگر اسامہ بن لادن، ایبٹ آباد سے برآمد ہوا توحقانی نیٹ ورک کے سب سے اہم رہنما ڈاکٹر ناصر الدین حقانی کوکسی نے اسلام آباد میں قتل کر دیا، تب یہ راز افشاہوا کہ وہ اسلام آباد کے مضافات میں رہائش پذیر تھا۔ایسے معاملات میں ہماری خفیہ ایجنسیاں جانے کہاں خوابیدہ رہتی ہیں کہ اُنہیں نہ کسی کے آنے کی خبر ہوتی ہے اورنہ جانے کا علم۔ الغرض ہماری اِنہی کمزوریوں کے باعث افغان جنگجو اپنی جنگ کو ہمارے صحن تک کھینچ لائے ہیں۔ اِنہی واقعات کے باعث پاکستان دنیا میں اپنا اعتماد کھو بیٹھاہے،اگرامریکی میڈیا اُسے دہشت گردوں کا سرپرستِ اعلیٰ قرار دیتا ہے تو طالبان اُسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔
احوالِ واقعی یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے جن مناطق میں مسلح جنگجوئوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، وہاں نہ تو صبحِ صادق کے وقت بِگل کی آواز کے ساتھ پاکستان کا پرچم بُلند ہوتا ہے اور نہ شام کو اِسی اعزاز کے ساتھ اُسے نیچے اُتارا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں نہ کہیں پولیس اسٹیشن موجود ہے اور نہ کہیں امن و امان قائم رکھنے والوں کی چوکیاں پائی جاتی ہیں،وہاںنہ کوئی قانون چلتا ہے اور نہ کسی کے خلاف کسی عدالت میں رِٹ کی جا سکتی ہے...اور اگر کسی نے پاکستان کے کسی پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کروانی ہو تو اس سے زیادہ کیا لکھوائے گا کہ چند قبائلیوں نے فلاں جگہ پر بموں اورگولیوں سے شہری ہلاک کر دیے ہیں۔ یہ رپورٹ کم و بیش اُسی طرح ہو گی جس طرح ہنگو میں ڈرون حملوں کے خلاف سی آئی اے اورڈرون جہازپرایف آئی آردرج کروائی گئی ہے۔وہ عظیم تھانیدار کب پیدا ہوگاجوسی آئی اے اورڈرون اٹیک کروانے والوں کو پکڑ کر ہماری عدالتوں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے؟ کیا اس طرح کا سیاسی شغل ایک انتہائی تکلیف دہ واقعے کا مذاق اُڑانے کے مترادف نہیں؟ ہمارے ہاں دہشت گردی کے الزام میں ان گنت ملزم گرفتار ہیں مگر وہ سزا پاتے ہیں اور نہ رہا ہو سکتے ہیں کیونکہ اکثر و بیشتر ان کے مقدمات سُنے ہی نہیں جاتے۔ جب کسی مسلح تنظیم کا جی چاہتا ہے، وہ (بنوں کی طرح) جیلوں کے دروازے توڑ کر اپنے ساتھیوں کو خود ہی رہا کروا لیتی ہے۔ ہمارے قوانین صرف بے کسوں، کمزوروں اور بے نوائوں پر لاگو ہوتے ہیں؛چنانچہ اُنہی سے ہماری جیلیں بھری پڑی ہیں۔
جب پاکستان ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے توامریکہ کی منطق کچھ یوں ہوتی ہے:''اگر پاکستان قبائلی علاقوں کواپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے تواسے چاہیے وہاں سے مسلح غیر ملکیوں کو باہر نکال دے، صرف اِس صورت میں ہم ڈرون حملے نہیں کریں گے‘‘۔ یعنی پاکستان 'نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘کی کیفیت سے دوچارہے۔نہ تحریکِ طالبان کے مسلح گروہ اس کی کوئی بات ماننے کو تیار ہیں اورنہ امریکہ ڈرون حملوں سے باز رہنے پر آمادہ... پچھلے گیارہ بارہ برسوں سے پاکستان اِنہی دو پاٹوںکے درمیان پِس رہا ہے اور جب تک وہ اصل حقائق کو سمجھنے سے گریزاں رہے گا، اس کا شکنجے سے باہر آنا آسان دکھائی نہیں دیتا۔ ذرا سوچئے تو سہی،طالبان کا جھگڑا افغانستان میں موجود غیر ملکی فوجوں کے ساتھ ہے۔ پاکستان پر وہ اس لیے حملہ کرتے ہیں کہ پاکستان اس دبائو میں نیٹو کی سپلائی لائن روک دے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یہ سپلائی لائن جب افغانستان میں داخل ہوتی ہے تو وہاں اُسے کوئی نہیں روکتا۔ نہ کوئی پیٹ پر بم باندھتا ہے، نہ کوئی پُل توڑتا ہے، نہ کنٹینرز جلاتا ہے اور نہ کوئی دھرنا دیتا ہے۔ یار لوگ اِن سب کاموں کے لیے پاکستان کی سرزمین ہی کو استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا 'غیرت بریگیڈ‘ شاید افغانوں کو غیرت مند نہیں سمجھتا اس لیے اُس نے اُن کی غیرت کا بوجھ بھی اپنے شانوں پر اُٹھا رکھا ہے۔
اس گمبھیرتا کو ٹی وی چینلز پر ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے سے سلجھانا ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے اندازِ فکر کو آج کے حقائق کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ اگر ہم اپنی انتہائی ناگفتہ بہ حالت کے باوجود خود کو ایک عالمی قوت سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہیں اور محترم منور حسن صاحب کی ہدایت کے مطابق امریکہ پر پِل پڑتے ہیں تو پھرہمیں آج کے دور کا سینچو پانزا (Sancho Panza) ہی قرار دیا جائے گا۔ علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس پر عبور حاصل کیے بغیرہم آج کی دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ بھوک اور افلاس سے بلکتے ہوئے زبوں حال عوام، بموں اور دھماکوں سے سڑکوں پر بہتا ہوا لاوارث خون اور کرپشن کی غلاظت میں دفن سماج کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر ہم کوئی معرکہ نہیں مار سکتے۔ اگر ہمیں اپنی غیرت اور اپنے وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو پھر ہمیں چاہیے کہ مانگی ہوئی کلاشنکوفوں سے جنگ لڑنے کی بجائے ملک میں امن کی بحالی کو اوّلین ترجیح دیں۔ملک میں امن کی فضا قائم کیے بغیر نہ کسی قسم کی ترقی ممکن ہے اور نہ باہر سے سرمایہ آنے کا کوئی امکان۔ یہ صرف
تبھی ممکن ہے جب ہر طبقۂ فکر، ہر سیاسی جماعت اور ہر صوبہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہو۔ پاکستان میں دہشت گردی سے نہ نیٹو کو کوئی نقصان ہے اور نہ امریکہ کا کوئی زیاں! پاکستان میں امن کی بحالی خالصتاً پاکستانی ایجنڈاہے۔
انڈیا کے ساتھ ویزے کی پابندیاں اُٹھا لینے میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ اس طرح ہم باہمی تجارت سے خاصے مالی فوائد حاصل کر سکیں گے۔ مگر صرف اتنا ہی کیوں؟ہمیں چین اور ایران کے ساتھ بھی ویزے کی پابندیاں ختم کر دینی چاہئیں...تاکہ اُن کے ساتھ بھی تجارت اور نقل و حمل میں اضافہ ہو۔ افغانستان کے ساتھ پہلے ہی ویزے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔سارے افغان ویزے کے بغیر پاکستان میں آتے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے پشتون بھی کسی ویزے کے بغیر افغانستان میں آ اور جا سکتے ہیں۔ افغانستان میں جانے کی یہی سہولت اگر پاکستان کے باقی ماندہ صوبوں کو بھی بہم کر دی جائے تو ہماری ایکسپورٹ میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ سرحدیں کھولنے کا مطلب سرحدیں ختم کرنا نہیں ہوتا۔ آج یورپ کے 28ممالک نے ایک دوسرے کے لیے سرحدیں کھول رکھی ہیں۔ ان ممالک کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے یہ وہی ممالک ہیں جنھوں نے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں انہی سرحدوں پر کروڑوں انسان تہ تیغ کر دیے تھے۔ مختصراً یہ کہ چاروں ہمسایوں کے ساتھ ویزے کی پابندیاں اُٹھانے میں ہی پاکستان کا مفاد پوشیدہ ہے۔
اپنے مستقبل سے مایوس ہونا بہت بڑا گناہ ہے کہ ناکامیوں کے اندر کامیابیاں اور دُکھوں کے اندر راحتیں چھپی ہوتی ہیں۔ بقول فیض ؎
دل نااُمید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے