نیلسن منڈیلا…اور ہم!

عظیم نیلسن منڈیلا آخر چل بسے۔ غالباً بیسویں صدی کے وہ سب سے بڑے سیاست دان تھے۔ اُن کا نام دنیا کے ان عظیم رہنمائوں میں شمار ہوتا ہے جن کا ذکر کیے بغیر مستقبل کا مورخ بیسویں صدی کی تاریخ نہیں لکھ سکے گا۔ منڈیلا نے انسانی برابری کے عظیم آدرش کی خاطر اپنی زندگی کے 27قیمتی سال جیل کی سیاہ دیواروں کے پیچھے گزار دیے۔ جیل کی یہ چوتھائی صدی ان کی جوانی بھی دھول کر گئی اور اُن کا جسم بھی جھولا گئی۔ تاہم سفید فام نسل پرست حکومت بالآخر منڈیلا کے سامنے دو زانو ہونے پر مجبور ٹھہری۔ ان کی یہ اصولی فتح جنوبی افریقہ میں آزادی اور برابری کا ترانہ بن گئی۔ پہلے عام انتخابات میں حسب توقع نیلسن منڈیلا صدر منتخب ہو گئے۔ اگر وہ چاہتے تو باقی ماندہ زندگی بھی جنوبی افریقہ کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اقتدار سے دائمی علیحدگی کا اعلان کر کے انہوں نے یہ حقیقت ثابت کر دی کہ انہوں نے وصلِ لیلائے اقتدار کی خاطر جیل نہیں کاٹی تھی بلکہ ان کا ہدف حیات اپنے ملک میں ایک ایسا مساویانہ سیاسی و سماجی نظام رائج کرنا تھا جس میں گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہ ہو۔ جب یہ نظام حقیقت کا روپ دھار گیا تو انہوں نے کرسی سے چمٹے رہنا مناسب نہ جانا اور باعزت انداز میں ایک جانب ہو گئے۔ اگر اقتدار کو لات مارنا نیلسن منڈیلا کی درویشی تھی تو پھر 'بھریا میلہ چھڈ دینا‘ ان کی سب سے بڑی دوراندیشی! منڈیلا نے یہ دونوں کام کر دکھائے اور خود کو امر کر دیا۔ 
اور اب آئیے بیسویں صدی کے سب سے زیادہ جابر اور طاقتور حکمران کی جانب جس نے آخری لمحے تک اقتدار کو اپنے دانتوں میں دبوچے رکھا۔ یہ ایران کا بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھا جس نے ایران پر ساڑھے 37برس تک حکومت کی۔ ہمارے حکمرانوں نے رضا شاہ کو خوش کرنے کی خاطر ہمارے ملک میں کئی شاہراہوں کو 'پہلوی روڈ‘ کا نام دے رکھا تھا۔ اکتوبر 1971ء میں رضا شاہ نے ایرانی بادشاہت کا پچیس سالہ جشن منایا تو اس تقریب پر پانچ سو ملین ڈالر کی خطیر رقم ہوا میں پھونک دی۔ اس جشن میں دنیا کے 50سربراہان مملکت شریک ہوئے اور باقی ماندہ نے اپنے اپنے نمائندے بھیجے۔ پچیس صد سالہ جشن منانے والے اس شہنشاہ نے اگر صرف اپنے پیشرو بادشاہوں کا انجام ہی پڑھ لیا ہوتا تو نہ وہ یہ جشن مناتا اور نہ اسے اس ذلت و رسوائی سے گزرنا پڑتا جو بعد ازاں اس کا مقدر بنی۔ ان اڑھائی ہزار سالوں میں ایران میں 350بادشاہ گزرے...جن کا انجام کچھ یوں تھا۔ 
85بادشاہ اپنے ہی باپ، بھائیوں، بیٹوں یا بیوی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان میں سے کئی ایک کو زہر دیا گیا اور کچھ کی آنکھوں میں گرم سلائی پھروا کر ان کی آنکھوں کی روشنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لی گئی۔
128بادشاہوں کو غضبناک رعایا نے قتل کر دیا۔
62بادشاہ اقتدار کی جنگوں کا نوالہ ٹھہرے۔
67 بادشاہ جیلوں میں گل سڑ کر مرے...ان میں سے کئی ایک ایران سے بھاگتے ہوئے مارے گئے اور کچھ نے جلاوطنی میں سسک سسک کر جان دی۔
ان میں سے کسی کا کوئی نام و نشان شاہ ایران کے دور میں بھی موجود نہ تھا کیونکہ ہر فرماں روا اپنے پیشرو کا نام و نشان کھرچنا اور مٹانا اپنا اولین فریضہ گردانتا رہا۔
1979ء میں خود رضا شاہ کی باری بھی آ گئی۔ اس نے بھاگنے سے ایک رات قبل اپنے باپ کی قبر کھدوائی اور اس کی ہڈیاں ایک صندوق میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گیا۔ اسے خوف تھا کہ ایران کا نیا فرماں روا خمینی اس کے باپ کی ہڈیوں کو بھی تختہ دار پر لٹکانے سے گریز نہیں کرے گا۔ رضا شاہ کا یہ خوف کچھ ایسا بے جا بھی نہ تھا کیوںکہ خمینی نے برسراقتدار آتے ہی اس کے باپ کا مزار زمین بوس کروا دیا۔ جب رضا شاہ جلاوطن ہوا تو یہ کرۂ ارض اس پہ کچھ اس طرح سے تنگ ہو کر رہ گیا کہ دنیا کے ہر ملک نے اسے پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ سب سے پہلے اس کے آقائے ولی نعمت امریکہ نے اس سے آنکھیں پھیریں۔ رضا شاہ نے جلاوطنی کی ٹھوکروں میں جان دی۔ اس کی قبر مصر میں نشانِ عبرت ہے۔ وہیں اس کے باپ کی ہڈیاں بھی دفن ہیں۔ اس سے بڑا تازیانہ اور کیا ہو گا کہ باپ بیٹے نے جس ایران پر نیم صدی تک حکم چلایا، اس سرزمین نے ان کی ہڈیوں کو بھی اپنے دامن میں جگہ دینے سے انکار کر دیا۔ مصر میں وہ دونوں بطور 'امانت‘ دفن ہیں کہ شاید کبھی ان کی نسل میں سے پھر کوئی تخت جم پر بیٹھے اور ان کی ہڈیاں ایران لے جائے۔
اور ادھر ہماری باون سالہ تاریخ بھی کچھ یوں ہے کہ جو کوئی ایک بار ایوان اقتدار میں در آیا، اسے مستعفی ہونے کی سعادت نصیب نہ ہوئی۔ وہ معزول کر کے ایوان اقتدار سے جبراً نکالا گیا یا پھر 'شہید‘ ہو کر اگلے جہان پہنچا! سچ پوچھیے تو ہمارے سیاسی کلچر میں کرسی چھوڑنے ایسا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔ اپنے ہاں اگر ہیڈ کانسٹیبل کرسی پر بیٹھ جائے تو وہ اٹھنے کا نام نہیں لیتا تو پھر 'بادشاہ‘ لوگ بھلا کیوں اقتدار چھوڑنے لگے!
بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کے بعد ہمارے ہاں اقتدار کا سبق آموز کھیل شروع ہو گیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو جلسہ عام میں قتل کر دیا گیا اور اس کے بعد معزولینِ اقتدار کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے۔ پاکستان کے پہلے صدر سکندر مرزا کو ان کے یارغار جنرل ایوب خان نے معزول کر کے جلاوطن کر دیا تو وہ لندن کے کسی ہوٹل میں منیجر کی ملازمت کرتے ہوئے فو ت ہوئے۔ ان کی بیگم ناہید اسکندر مرزا 1996ء تک لندن میں سوشل سکیورٹی کی امداد پر گزر بسر کر رہی تھیں، اب کا مجھے علم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا ...اس عبرت سرائے دہر کو خدا حافظ کہہ گئیں؟ پاکستان پر گیارہ برس تک حکومت کرنے والے جنرل ایوب خان کو جس توہین سے گزر کر اقتدار سے معزول ہونا پڑا،وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اور یحییٰ خان کے مقدر میں جو ذلت 
ٹھہری، وہ بھی ناقابل فراموش ہے۔
بھٹو ایسا تیز طرار اور ذہین انسان کس خوفناک انجام سے دوچار ہوا؟ میں نے ان کی ٹیم میں بھی کام کیا اور ان کا فکری پیروکار بھی رہا لیکن آج مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ معزول ہونے کے بعد اگر وہ اقتدار کی دوڑ سے عارضی طور پر خود کو الگ کر لیتے تو شاید انہیں اس حشر سے دوچار نہ ہونا پڑتا! ان کی پھانسی سے انہیں خود کچھ ملا اور نہ عوام کو کچھ حاصل ہو پایا۔ بلکہ ہوا الٹا یہ کہ ان کے دونوں بیٹے بھی اسی دوڑ میں جان کی بازی ہار گئے۔ یادفراموشی کے دشت بسیط میں گم اُن کی بیوہ بھی سالہا سال اذیتیں سہنے کے بعد اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ اُن کی پتری لیاقت باغ میں گولی کا نشانہ بنی۔ بھٹو کے داماد نے پانچ سال تک حکمرانی کا ذائقہ چکھا اور رُسوا ہو کر کوئے اقتدار سے نکلے! لیکن خواہشِ اقتدار کا سودا اس حال میں بھی اُن کے سر سے نہیں گیا۔
جنرل ضیاء نے بھٹو کے ساتھ ساتھ دراصل اپنے بلیک وارنٹ پر دستخط کر دیے تھے۔ انہوں نے مسندِ اقتدار کو اپنی زندگی کی ضمانت سمجھا لیکن تابہ کے؟ اگر انہوں نے ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں سے واپسی کے سارے راستے خود ہی مسدود نہ کر دیے ہوتے تو یقینا وہ 'جامِ شہادت‘ نوش کرنے سے بچ جاتے۔
تو پھر کیا انسان اتنا کوتاہ نظر ہے کہ سامنے کھڑی حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا؟ جب تک زندہ ہو‘ موت کو فراموش کیے رکھتا ہے اور کرسی اقتدار پر بیٹھ جائے تو اترنے کے متعلق سوچنا گناہ سمجھتا ہے لیکن اس کے آنکھیں بند کر لینے سے نہ موت ٹلتی ہے اور نہ زوال کا پل پل آگے بڑھتا ہوا لمحہ ہی رُک پاتا ہے...گویا خسروانِ مملکت اس نوشتہ دیوار کو پڑھنے سے معذور رہتے ہیں!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں