جاسوسی کا نیا طریقہ

امریکہ نے دو عالمی جنگوں میں بھرپور حصہ لیا۔ ان دونوں جنگوں میں اس کی شمولیت اتحادیوں کی فتح کا باعث بنی۔ دوسری جنگِ عظیم کے آغاز میں جاپانیوںنے براہ راست امریکہ پر حملہ کرنے کا پلان بنایا۔ وہ طیارہ بردار بحری جہازوں کا ایک بیڑہ لے کر امریکہ کی جانب چلے۔ امریکہ تک تو انہوں نے کیا پہنچنا تھا؛ البتہ وہ نیویارک سے پانچ ہزار میل دور ہوائی نامی ایک جزیرے پر حملہ آور ہوئے، جہاں امریکہ کا کچھ جنگی سازوسامان پڑا تھا۔ تب اس جزیرے کی آبادی محض چند ہزار افراد پر مشتمل تھی (آج اس کی آبادی دو لاکھ بتائی جاتی ہے)۔ یعنی جاپانی بھی امریکہ سے فقط پانچ ہزار میل دور واقع ایک جزیرے پر بمباری کر کے اپنا دل لبھا گئے۔ 
دوسری جانب یورپ کو ان دونوں جنگوں نے زمین سے اُکھاڑ کر سر کے بَل کھڑا کر دیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں فاتح بھی معاشی طور پر امریکہ کے مقروض ہو گئے اور شکست سے دوچار ہونے والے بھی کہیں کے نہ رہے۔ جنگ کے دوران امریکہ نے اتحادیوں کو اتنا اسلحہ فروخت کیا کہ جب جنگ ختم ہوئی تو امریکہ کا خزانہ ناک تک بھر چُکا تھا۔ امریکی معیشت دان مارشل نے اس اضافی رقم کو یورپ اور جاپان کی زبوں حال معیشت نیز برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں انویسٹ کرنے کا منصوبہ بنایا جسے تاریخ میں 'مارشل پلان‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ میں نے جنگ کے 33برس بعد مشرقی یورپ اور مشرقی جرمنی کو دیکھا۔ اس کی بیشتر عمارات توپوں اور گولوں کی برسات سے چیچک زدہ نظر آتی تھیں۔ مارشل پلان نے صرف مغربی یورپ میں انویسٹمنٹ کی۔ مشرقی یورپ کو یوں ہی بھوکوں مرنے اور تڑپتے رہنے کے لیے چھوڑ دیا کیونکہ ان ممالک میں سوشلسٹ حکومتیں قائم تھیں۔ الغرض ان عالمی جنگوں کے دوران پوری دنیا نشانِ عبرت ٹھہری مگر امریکہ کو کوئی خراش تک نہ آئی۔ میں 1995ء میں پہلی بار نیویارک گیا تو مجھے اچانک احساس ہوا جیسے جنگ امریکہ کو چھُو کر ہی نہ گئی ہو۔ سو ڈیڑھ سو سال پہلے کی تعمیر شدہ عمارات ہنوز زمین پر جم کر کھڑی تھیں۔ اُن پر نہ کہیں گولوں کے زخم تھے اور نہ فضائی بمباری کا کوئی نشان! مین ہٹن کی اسٹریٹ نمبر 34 پر چلتے چلتے میں نے خود کلامی کی کہ امریکہ آج تک جتنی جنگوں سے گزرا، وہ اُس نے اپنی سرزمین سے دور باہر لڑیں...شاید اُسے یہ علم ہی نہ ہو کہ طیاروں کی بمباری سے جلتی اور گرتی عمارات تلے دفن ہونے والے انسان کس خوفناک حشر سے دوچار ہوتے ہیں؟ 
9/11 کی صبح ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو جڑواں ٹاورز پر القاعدہ کے حملے نے جیسے امریکہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو۔ اس نے اپنے صحن میں پہلی بار جلتا ہوا ملبہ گرتے ہوئے دیکھا۔ اُس پر پہلی بار اپنے سکیورٹی اداروں کی ناکامی عیاں ہوئی۔ کوئی ڈیڑھ سو سال قبل درونِ ملک خانہ جنگی کے بعد امریکہ کے لیے شاید یہ سب سے بڑا صدمہ انگیز واقعہ تھا۔ ناقابلِ یقین بھی اور حیران کُن بھی! امریکہ کے فول پروف سکیورٹی سسٹم کی یہ سب سے بڑی ناکامی تھی جو نہ تو اس واقعہ کو روک سکا اور نہ اس کی پیش بندی اور پیش بینی کر پایا۔ چند صحرائی کم فہم، کم علم بدوئوں نے اِن دونوں ٹاورز کو خاکستر میں بدل کر رکھ دیا۔ 
اُنہی دِنوں بُش کی صدارت میں سکیورٹی اداروں کا ایک اہم اجلاس ہوا جو بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ فون، موبائل، ای میل اور اسکائپ جیسے تمام ذرائع ارتباط پر مکمل کنٹرول نہ ہونے کے باعث القاعدہ اتنا بڑا حملہ کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ اس شگاف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی خاطر نیشنل سکیورٹی ایجنسی (NSA) کے ڈائریکٹر مسٹر بِنی (Mr. Binny) نے صدر بُش کو یقین دلایا، ''جنابِ صدر! ہم ایک ایسا پلان بنا رہے ہیں کہ پھر کبھی ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آ سکے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ دنیا کے جس کونے میں کسی آدمی نے جدید ذرائع ابلاغ پر اونچا سانس بھی لیا، اس کی ٹیپ آپ کی میز پر ہو گی۔‘‘
یوں تو این ایس اے آج سے تقریباً سو سال قبل وجود میں آئی۔ اس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ کے زمانے میں اپنے بال و پَر خوب پھیلائے لیکن 2001ء کے بعد تو اس نے پوری دنیا کے سائبر نیٹ ورک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔سمندروں میں بچھائی گئی کیبل پر بھیجے جانے والے پیغامات اور گفتگو تک ریکارڈ ہونے لگی۔ سٹیلائٹ کے ذریعے رابطہ ہو یا ای میل، ٹویٹر، گوگل، یاہو اور آئوٹ لُک ہو...یہ سارے نیٹ ورک این ایس اے کے جال میں آ گئے۔ 
دنیا بھر میں سائبرجاسوسی کے لیے پانچ انگلیوں کا استعارہ بہت مشہور ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کے پانچ ملکوں نے این ایس اے کے لیے ساری دنیا کا ڈیٹا بیس اکٹھا کرنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ اِن ممالک نے امریکہ کے لیے ہراول دستے کے طور پر کام کیا۔ وہ سمندری کیبل اور سٹیلائٹ کو اپنے اپنے ممالک میں ریکارڈ کر کے این ایس اے تک پہنچاتے رہے۔ آج تقریباً دنیا کے ایک ارب افراد کا ریکارڈ اس ایجنسی کے پاس موجود ہے۔ یہ پانچ ممالک جنہیں پانچ انگلیاں قرار دیا گیا ان میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈااور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ یاد رہے یہ سارے ممالک انگریزی النسل ہیں۔
یوں تو نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے یہ جال دہشت گردی کے خلاف بُنا تھا لیکن جلد ہی اُسے اِس کی مزید افادیت کا احساس ہوا چنانچہ اس نے جاسوسی کا رُخ اپنے دوست ممالک کی جانب کر دیا۔ اس سے نہ صرف پورے یورپ کے سیاسی اور معاشی حالات کا ڈیٹا اُس کے معدے میں چلا گیا بلکہ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ جرمنی کی چانسلر خاتون مسز میرکل 2012ء میں پارلیمنٹ کے ایوان میں چِلا اُٹھیں کہ گزشتہ دو برس سے امریکہ اُن کے فون کو بَگ (Bug) کر رہا ہے۔ بعد ازاں یورپی یونین کو معلوم ہوا کہ اُن کا سارا ڈیٹا خواہ وہ دفاع سے مربوط تھا یا سیاست اور معیشت سے، یا پھر مستقبل کی پلاننگ سے‘ وہ سارے کا سارا مریکہ کے پاس ہوبہو اصل شکل میں موجود ہے۔ امریکہ اب تک اُن کی ساری گفتگو اور ای میلز ڈائون لوڈ کر رہا ہے۔ ستمبر 2013 ء میں مسز میرکل امریکہ سے اس ناخوشگوار اور غیر دوستانہ رویے کی وضاحت کے لیے واشنگٹن پہنچیں لیکن اُن کے اس کشٹ کا نتیجہ آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ نہ نکلا۔ جرمنی اور یورپی یونین کے ممالک اپنا نیٹ اور اپنی علیحدہ سائبر سروس کا ناک نقشہ بنانے میں مصروف ہیں جسے کوئی اور دوسرا ملک اُچکنے پر قادر نہ ہو سکے۔ 
رہے ہم جیسے پا افتادگان تو اُن کا سارا ڈیٹا پہلے ہی سے امریکہ بہادر کی شیلف میں موجود ہو گا۔ ہم جتنے پیغامات اپنے دوستوں اور گھر والوں کو ای میل کرتے ہیں وہ پہلے این ایس اے کے پاس پہنچتے ہیں پھر وہاں سے سلام کرنے کے بعد ہی اپنے اصل پتے پر موصول ہوتے ہیں۔ امریکہ نے اگر ہمارا ڈیٹا واقعی اکٹھا کر رکھا ہے تو اس نے کچھ زیادہ ذہانت کا ثبوت نہیں دیا۔ جتنے اخراجات ڈیٹا جمع کرنے میں صَرف ہوتے ہیں، اگر امریکہ اس کا ایک چوتھائی حصہ بھی ہمارے ہاں متعلقہ افراد کو لگا دیتا تو یار لوگ سارا ڈیٹا خود بخود مذکورہ ایجنسی کے دفتر میں جمع کرواتے رہتے‘ کہ ہمارے ہاں ملک و ملت کے مفادات کو ارزاں داموں فروخت کرنا کارِ ثواب گردانا جاتا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں