بھٹو سے بی بی تک

میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وقت کے دامن میں کوئی ایسی سیاہ رات موجود ہو گی جس کی تاریکی میں بھٹو کو تختہ دار پر کھینچ دیا جائے گا ، شاہنواز بھٹو ایسے جوان رعنا کی زندگی کو زہر چاٹ جائے گا ، بی بی کے دور میں مرتضیٰ بھٹو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن جائیں گے اور پھر ایک شام بی بی کی زندگی کا چراغ بھی گل کر دیا جائے گا۔۔۔ مگر یہ سب کچھ دیکھنا پڑا۔۔۔کہ زندگی ناقابل توقع واقعات اور ناقابل یقین حادثات کے مجموعے کا نام ہے۔ بھٹو خاندان کے ان چاروں افراد کے ساتھ میرا انتہائی قریبی اور گہرا تعلق رہا۔ میں نے اپنی جوانی کے پانچ سال بھٹو ایسے نابغۂ عصر کے زیر سایہ امور نوجوانان کے مشیر کی حیثیت سے گزارے۔ میں، شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کئی برس ایک ہی چھت تلے مقیم رہے۔ بی بی کے ساتھ بھی مجھے کام کرنے کا موقع ملا،اس لیے آج ماضی کے صدہا واقعات میرے ذہن پر دستک دے رہے ہیں۔
یہ 1973ء کی ایک دوپہر تھی۔ میں بھٹو مرحوم کی سرکاری رہائش گاہ سے باہر نکلا تو مرتضیٰ اور شاہنواز لان میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ اتنے میں بی بی آگئیں اور انہوں نے بیٹ تھام لیا۔ مرتضیٰ نے گیند کروائی اور بی بی ایل بی ڈبلیو ہوگئیں ، مگر وہ کریز پر کھڑی رہیں کہ بابا (مرتضیٰ) نے جان کر ان کی ٹانگ کو نشانہ بنایا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے یہ بینظیر ہنوز اسی طرح مجسم ہیں۔ یاد رہے ، بی بی کو گھر میں پنکی کہا جاتا تھا، مرتضیٰ کو میر بابا اور شاہنواز کوگوگل۔ بی بی نے اپنے سیاسی کیریئر کی پہلی تقریر 5اکتوبر 1977ء کو فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں کی۔ ان کی یہ تقریر میں نے لکھی تھی۔ حسن اتفاق سے یہ تقریر آج بھی میرے پاس اسی طرح محفوظ ہے۔ اس کے ایک کونے پر ان کے ہاتھ سے 5th Oct Lypکے الفاظ بھی رقم ہیں۔ اس صبح جب ہم لاہور سے فیصل آباد کی جانب چلے تو ایک گاڑی راستے میں ہی خراب ہو گئی۔ دوسری کی ڈرائیونگ سیٹ محترمہ نے سنبھال لی اور میں ان کے قریب فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا اور انہیں مشکل الفاظ یاد کروانے لگا۔ وہ جاسوس کو بار بار 'یاسوس‘ تلفظ کر رہی تھیں۔ جونہی ان کی توجہ ذرا سی ہٹی تو کار ایک آہستہ رو بیل گاڑی سے جا ٹکرائی۔ شکر جانیے کہ کسی کو چوٹ نہیں آئی مگر کار کا ریڈی ایٹر پھٹ گیا اور ہم سڑک پر کھڑے ہو گئے۔ بالآخر لفٹ لے کر ہم جلسہ گاہ تک پہنچے۔
1978ء میں انہیں شادی کے لیے جو نام تجویز ہوئے، ان میں مخدوم رفیق کا نام سرفہرست تھا۔ ایک شام ہم 70کلفٹن میں کھانے کی میز پر تھے کہ بیگم بھٹو نے کہا، ''مجھے یقین ہے کہ پنکی بہت جلد اپنا گھر آباد کر لے گی‘‘ ۔ بی بی نے یہ کہتے ہوئے شادی کے آپشن کو رد کر دیا کہ جب تک پاپا (بھٹو مرحوم) کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا وہ شادی کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتیں،اور پھر یہ بھی طے ہے کہ وہ کسی جاگیردار سے شادی نہیں کریں گی۔ اچانک انہوں نے مجھ سے مخاطب ہو کرکہا: ''کیا کہتے ہو؟‘‘ میں نے محسوس کیا وہ اس موضوع سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہیں۔ میں نے بیگم صاحبہ سے کہا:''بی بی درست کہتی ہیں کہ موجودہ حالات میں منگنی کا فیصلہ کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں کرے گا، شاید ان کے لیے ایک ایسا تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس کا شوہر مناسب رہے گا جو ان کے سماجی امور کو سنبھالے‘‘ ۔ بی بی نے پسندیدگی کے انداز میں سرکو اثبات میں جنبش دی۔ اگر حالات کا دھارا نارمل حالات میں بہتا رہتا تو جانے وہ کس قسم کا چنائو کرتیں۔ وہ ازدواجی زندگی کے تقدس کی قائل تھیں؛ چنانچہ انہیں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ جب انہوں نے شادی کی تو اس بندھن کو انتہائی احسن اور باعزت انداز میں نبھایا۔ انہوں نے کوئی افواہ سچ ہونے دی اور نہ گھر کی کسی رنجش کو اخبارات کی شہ سرخیوں میں ڈھلنے دیا۔ 
1981ء میں میر مرتضیٰ بھٹو اور میرے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے جس کے تلخ نتائج کا ذکر آج کے حالات میں مناسب نہیں ہوگا ، مگر بی بی نے اپنے آپ کو اس معاملے میں غیر جانبدار رکھا۔ 1996ء میں ان کی حکومت دوسری بار کرپشن کے الزامات کے تحت معزول کی گئی تو میں اپنے کالموں میں ان پر بڑی تیز و تند تنقید کے نشتر چلاتا رہا مگر انہوں نے کبھی ناراضگی کا تاثر نہیں دیا۔ بی بی اپنی ذات میں ایک سمندر اوربہت گہری خاتون تھیں۔ وہ لاکھوں خوشیاں اور غم اس سمندر کی تہہ میں چھپائے چپکے سے موت کی وادی میں اتر گئیں۔
بدقسمتی صرف یہی نہیں کہ انہیں قتل کر دیا گیا بلکہ یہ بھی کہ اُس وقت کی حکومت دن دیہاڑے کی اِس واردات کو ایک مذاق میں بدلنے کی سعی لاحاصل میں مشغول رہی۔ گاہے ان کے قتل کی ذمہ داری گاڑی کے سن روف پر ڈالی جاتی رہی اور کبھی یہ بتایا جاتا رہا کہ دھماکے کی آواز سے ان کی حرکت قلب بند ہو گئی تھی۔ کبھی بیت اللہ محسود کی ٹیپ کا ذکر کیا جاتارہا اورکبھی القاعدہ کا؛حالانکہ محسود نے واشگاف الفاظ میں اس قتل کی ذمہ داری قبولنے سے انکار کر دیاتھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو ہر روز نت نئے بیانات بدلنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ سچ کو سچ کہنے سے کیوں گریزاں رہی؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں