اگر کالم نویسی کوئی ادبی فن ہے تو میں اس پر وارد نہیں۔ اگر یہ نیم شاعرانہ قسم کی نثری آمد ہے تو بھی میں اس آمد سے محروم ہوں۔ مجھ پر خوبصورت الفاظ کی بارش ہوتی ہے، نہ تلمیحات و استعارات کا ہجوم سر جھکائے کھڑا رہتا ہے کہ وہ کب میرے اشارۂ ابرو پر نوکِ قلم سے تڑپ کر باہر نکلے۔ مجھے قواعد و اوزان پر عبور حاصل ہے، نہ قیود و بحور پر کوئی دسترس، نہ قدرتِ زبان ہے، نہ ندرتِ بیان۔ جو کچھ کہنا اور لکھنا چاہتا ہوں بعد از دقتِ بسیار صحیح طور پر کہہ اور لکھ نہیں پاتا اور میری اس بات کو کسی ادیبانہ تعلّی کے بجائے حقیقت جانئے۔ پھر آج کا کالم نویس اپنے آپ کو ایک مبصر کے بجائے رہبر سمجھتا ہے۔ اسے خود کچھ سجھائی دے نہ دے، وہ دوسروں کو راہ دکھانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اکثر کالم 'کل کیا ہوگا‘ قسم کی پیش گوئیوں کی گردان ہوتے ہیں حالانکہ اپنی سو ہنی دھرتی کی کسی بھی حکومت کے متعلق کسی پیش گوئی کی کوئی ضرورت نہیں۔ دنیا ویسے ہی جانتی ہے کہ 'کل کیا ہو گا؟‘ جس کالم نگار کو دربارِ خاص تک رسائی حاصل ہو، وہ اپنے کالم کو تاریخ کا باب سمجھتا ہے جبکہ دوسرے اس کے کالم کو رُلیا رام کا بہی کھاتہ قرار دیتے ہیں اور جو کالم نگار اپنی کوشش کے باوجود سرکار دربار تک نہیں پہنچ پاتے۔ وہ افواہوں کو ہی خبروں کا روپ دے کر اپنا میدان تپائے رکھتے ہیں۔اور میں ایک راندۂ وطن ہوں۔ قصرِ اقتدار کی دراڑوں سے باہر نکلنے والی خبروں کے دھوئیں تک میری رسائی ممکن ہے نہ طاقت کے دوسرے ستونوں کے روئیے سے ہی اندر کے حالات کا اندازہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ مجھ پر الہام اترتا ہے نہ ستارے مجھے مستقبل کا حال بتاتے ہیں۔ الغرض میرے کالم میں پسِ پردہ خبروں کا مسالا موجود ہے نہ پیش گوئیوں کا 'تڑکا‘! اس کے باوجود اگر آپ میرا کالم پڑھ لینے کی اذیت برداشت کرتے ہیں تو پھر بہت اچھے قاری ہیں۔میں پیشہ ور لکھنے والا ہوں، نہ صحافت سے میرا مستقل واسطہ ہے۔ میں تو اپنا دردِ دل الفاظ کی شکل میں آپ تک منتقل کرتا ہوں۔ بہت سوں کو میرے نقطۂ نظر سے اختلاف ہو گا اور ہونا بھی چاہیے تاہم مجھے اتنی سی رعایت کا مستحق ضرور جانئے کہ میرا دل آپ ہی کے لیے دھڑکتا ہے اور اس مشقِ سخن سے میرا مقصد تو صرف یہ ہے ع
شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات
آج پاکستان پر سیاسی ملائیت نے جس انداز میں دھاوا بول رکھا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے یہ ملک انہی کے 'جہاد‘ کے نتیجے میں آزاد ہوا حالانکہ تحریکِ آزادی میں ان کی اکثریت پاکستان کے نام ہی سے الرجک رہی۔ ایک انتہائی بزرگ عالمِ دین نے مسلمانوں کی سیاسی کشمکش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ برصغیر کے ہزار مسلمانوں میں سے 999 نام کے مسلمان ہیں نیز اس عددی اکثریت کے بل بوتے پر جناحؒ اور ان کی لیگ، جو ملک بنائے گی وہ صرف نام ہی کا اسلامی ہو گا۔اور اس بات کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ پاکستان انہی 999مسلمانوں نے بنایا، جن کے پاس کسی مدرسے کی سند نہ تھی یعنی ہم آپ کی مانند گرے پڑے گناہ گار اور خطاکار مسلم عوام اور ہم خطاکاروں کی تاریخ سرسیّد، اقبالؒ اور قائداعظمؒ کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ سرسیّدنے برصغیر کے مسلمانوں کو علوم جدید حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ وہ ملائیت کی شدید مخالفت کے باوجود برصغیر کے پسماندہ مسلم عوام کے لئے پہلی مادرِ علمی (علی گڑھ کالج) قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ مسلمانانِ ہند کے اس عظیم محسن نے اپنی سفید داڑھی کے ساتھ اسٹیج پر چڑھ کر ڈانس تک کیا کہ رقص و سرود میں ڈوبی قوم شاید اسی بہانے انہیں کالج کے لئے چندہ دے۔ اگر ملائیت آج کے زمانے میں حق جانتی ہے تو سو سوا سو سال پہلے اس کے گرجنے، برسنے اور بپھرنے کا عالم کیا ہو گا، اس نے سر سیّد پر کیا کیا فتوے نہ چھوڑے ہوں گے؟ سر سیّد عقیدتاً فطرت پرست تھے لیکن کیا اس سے ان کے احسانات کا ہمالہ کم ہو جاتا ہے؟
بیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ علامہ اقبالؒ کی پُرسوز شاعری سے معمور ہے۔ اس عظیم فلسفی شاعر نے دورِ غلامی میں مسلم عوام کو رو رو کر بیدار کیا۔ ان کے خلاف بھی ملائیت نے زبردست مہم چلائی۔ معاف کیجئے گا انہیں شرابی اور کبابی کہا گیا۔ علامہ انہی 999 مسلمانوں کے شاعر تھے اور آج بھی انہی کے ہیرو ہیں۔محمد علی جناحؒ نے برصغیر کے انہی 999مسلمانوں کو ایک اجتماعی نقطہ پر جمع کیا اور انہیں کامیابی سے پاکستان کی منزل تک پہنچایا۔ ان کے مذہبی عقیدے پر اعتراض کیا گیا بلکہ بعض علمائے دین نے ان کے لبرل رویے کے باعث انہیں کافراعظم ایسے خطاب سے بھی نوازا لیکن کیا اس سے قائداعظمؒ کے تاریخی قدوقامت میں کوئی کمی آ گئی؟الغرض یہ جو ایک فی ہزار قسم کا نظریہ ہے نہ اس نے پاکستان بنایا اور نہ اسے چلا سکنے پر قادر ہے۔ میری رائے میں ان افراد نے اللہ کے دین میں فی سبیل اللہ فساد پھیلانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ماضی کے غاروں میں رینگتی ہوئی ملائیت اور قبروں پر سجدہ ریز معرفت آج کے معاشی، سیاسی یا معاشرتی چلن کا جواب نہیں دے سکتی۔ آج دنیا چاند اور مریخ پر اتر چکی اور ادھر ہم کب تک یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے رہیں گے کہ 'کافر کو اس جہاں میں صلہ ملے گا اور ہمیں اگلے جہاں میں۔‘ کون پوچھے کہ جن لوگوں نے اپنا یہ جہاں نہیں سنوارا، وہ اگلے جہاں کے اہل کیسے ٹھہرے؟
اور ایک ایسا بے رحم سماج، جس میں اندھوں، بیماروں، معذوروں اور اپاہجوں کو سڑکوں پر بٹھا کر ان سے بھیک منگوائی جاتی ہو۔ جہاں دیوانے سرِعام ننگے پھرتے ہوں۔ جہاں ایک غریب آدمی کے علاج معالجے کا کوئی نظام اور کوئی سسٹم نہ ہو۔ جہاں لوگ سڑکوں پر سردی سے ٹھٹھر کر مر جاتے ہوں۔ جہاں دخترانِ وطن اپنی عزت نیلام کرنے پر مجبور ٹھہریں۔ ایک ایسا سماج، جس میں کوئی ایسا سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ موجود نہ ہو جو گائوں، گلی اور محلے کی سطح پر بے آسرا یتیموں، بیوائوں، ناداروں اور محتاجوں کی خدمت کا بیڑا اٹھا سکے۔ ایک ایسا ملک جس کے حکمرانوں کے نزدیک اسلام کا مطلب ہر دوسرے ماہ سرکاری خرچ پر عمرہ کرنا ہو، وہاں ہم نے دینِ خدا کی خدمت کا بڑا آسان طریقہ تلاش کر لیا ہے یعنی جانوروں کی کھالیں اور چندے جمع کرو، لاٹھی اٹھائو اور دوسروں کو نیکی کی تلقین کر کے 'ثوابِ دارین‘اکٹھا کرو لیکن اپنی کھال بچاتے رہو اور اپنا مال بڑھاتے رہو۔
دوسروں کو 'تبلیغ‘ اور اپنے لئے 'ثواب‘ جمع کرنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا ہے جو البانیہ میں پیدا ہونے والی ٹریسا نامی اس نحیف و نزار لڑکی کی مانند خدا کے نام پر خدمتِ خلق کا پرچم لے کر میدان میں نکلے؟ وہ بیس سالہ لڑکی جو اپنا گھر بسانے کے بجائے اپنے اندر سے اٹھتی خدائی آواز کے پیچھے چلتے چلتے ایک اجنبی ملک میں آن پہنچی۔ اس عیسائی نن (Nun) نے اپنی ساری زندگی اپاہجوں، معذوروں اور یتیموں کی خدمت میں گزار دی۔ چنانچہ آج پوری دنیا اسے ماں کہنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اے کاش! ہمارے علماء کے گروہ میں سے بھی کوئی تو ایسا چراغ روشن کرے، کوئی تو محراب و منبر سے دوسروں کے خلاف زہر اگلنے کے بجائے محبت اور اخوت کا پرچار کرے، کوئی تو سیاست کے کیچڑ میں اترنے کے بجائے سُنتِ نبویؐ کے اتباع میں خدمتِ انسان کو افضل ترین عبادت جانے اور اس عورت کی عیادت کے لئے اس کے گھر پہنچ جائے جو ان کے راستے میں کانٹے بچھاتی اور اُن پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی۔ کوئی تو اُٹھے اور انہی 999ء سادہ لوح مسلمانوں کی خوشی میں خدا کی خوشی اور ان کی رضا میں خدا کی رضا تلاش کرے...کیا لاکھوں علماء کے ہجوم میں کوئی ایک بھی ایسا ہے جو اس چیلنج کو قبول کرے؟