روح کی گہرائی

اگر حضرت مولانا زاہد الراشدی کے اس ادعا کو تسلیم کر لیا جائے کہ علمائے کرام کے فتوے کے بغیر 'جہاد‘ کا وجوب ممکن نہیں تو پھر ان کے اس استدلال سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اب تک تین عدد پاک بھارت جنگیں ہو چکی ہیں۔ یہ تینوں جنگیں کسی باقاعدہ قسم کے جہادی فتوے کے بغیر لڑی گئیں۔ ان جنگوں کے آغاز و اختتام کا اعلان بھی اس دور کے سیاسی حکمرانوں نے کیا۔ کیا حضرت مولانا ازراہ کرم واضح فرمائیں گے کہ ان جنگوں میں قتل ہونے والے جوان ان کی تعبیر جہاد کے حوالے سے شہید کہلائیں گے یا محض ہلاک شدگان؟
جہاں مسلم ریاست اپنا وجود یا اپنا اقتدار اعلیٰ کھو دے وہاں عوامی حمایت (یعنی اجتہاد) کے ذریعے مسلح تحریک آزادی (یعنی جہاد) کا آغاز تو کسی حد تک قابل فہم معاملہ ہے لیکن جہاں مسلم ریاست مکمل طور پر اپنا وجود رکھتی ہو، اس کا اقتدار اعلیٰ بھی کلیتاً اسی کے پاس ہو وہاں جہاد کا اعلان کون کرے گا؟ اس ریاست کا سربراہ یا علمائے کرام؟ یا پھر یہ کہ مسلم ریاست کا سربراہ 'جہاد‘ کے لیے ہر فرقے کے علماء سے فتویٰ لینے کا پا بند ہو گا؟ اگر ایک مسلم ریاست کے اندر ہر فرقے کے علماء اپنے اپنے طور پر ایک دوسرے کے خلاف اعلان جہاد کرنے کے مجاز ہوں تو کیا ایک ایسی ریاست کبھی چل سکے گی؟ کیا 'نجی جہاد‘ کی اجازت اس ریاست کو آج کے افغانستان کی مانند بدامنی اور انارکی کا گہوارہ نہیں بنا دے گی؟ 
آنحضرتؐ کی حیات مقدس اور خلافت راشدہ کا دور اس حقیقت کا شاہد ہے کہ ایک مرکزی اور متفقہ قیادت کے بغیر جہاد کا کوئی تصور ممکن نہیں۔ یہ کوئی ایسی ادق یا ناقابل فہم بات بھی نہیں کہ دنیا کی کوئی قوم مرکزی قیادت کے بغیر نہ تو اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے اور نہ کوئی جنگ ہی جیت سکتی ہے؟ مجھے بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ہم درجنوں قسم کے فتووں اور اتنے ہی قسم کے عَلم اٹھائے ایک دوسرے سے دست و گریبان قائدین کے زیر سایہ میدان جنگ میں اتریں تو اس میں ہماری فتح کے امکانات کتنے فیصد ہوں گے؟ جنگ اور جہاد تو بہت بعد کی بات ہے ، اگر ہم اس طرح کے مختلف النوع پلان لے کر صرف معیشت سنوارنے ہی نکلیں تو بھی نتیجہ صفر ہی رہے گا۔ 
حضرت مولانا یقینا اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ زندگی کے دیگر شعبوں میں ہم خواہ کتنے ہی ازکار رفتہ کیوں نہ واقع ہوئے ہوں لیکن ایک دوسرے کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کرنے کے معاملے میں ہم ساری دنیا سے چند ہاتھ آگے ہیں۔ ہمارے ہاں کم و بیش سبھی فرقوں کے علماء کرام نے ازروئے خدمتِ دین ایک دوسرے کے خلاف کفر والحاد اور 'بزن‘ کا فتویٰ دے رکھا ہے۔ اس دینی خدمت کے نتائج آج پوری قوم کے سامنے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان تو اپنی اپنی مساجد میں آزادی سے اپنی اپنی نماز پڑھ سکتے ہیں جبکہ 'دارالاسلام‘ کی ہر مسجد کے باہر جب تک پولیس کا پہرہ موجود نہ ہو، نمازیوں کی زندگی محفوظ نہیں۔ اس حال میں ہمیں کسی دشمن کی گولی سے مارے جانے کا کیا خوف؟ کہ ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹ کر خود ہی یہ فریضہ سر انجام دینے کے لیے کافی ہیں۔
ملائیت نے مسلمانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی شرعی عدالت کے سابق جج اور عظیم اسلامی محقق جناب وحید الدین صدیقی کا یہ کہنا احوال واقعی کی درست عکاسی کرتا ہے کہ ''سعودی عرب میں مسلمان سے مراد وہابی مسلمان ہے۔ ایران میں کسی سنی مسلمان کو صدر تو کجا، کونسل کا ممبر تک نہیں بننے دیا جاتا،تہر ان میں دس لاکھ سنی بستے ہیں لیکن انہیں اپنی مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ مراکش میں کوئی حنفی مسلمان ملکی سربراہ نہیں بن سکتا۔ لیبیا، الجزائر اور تیونس میں مالکی فرقے کے مسلمان ہی برسراقتدار آ سکتے ہیں۔ مصر میں صرف شافعی فقہ والا ہی سربراہ بن سکتا ہے۔ افغانستان میں کوئی بریلوی یا شیعہ امیرالمومنین ملا عمر کی جگہ لینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا‘‘ کیا مولانا بتائیں گے کہ امت مسلمہ کو منقسم کرنے کی ذمہ داری یہود و نصاریٰ پر عائد ہوتی ہے یا خود ہم پر؟
علمائے دیوبند کی اپنی ایک درخشاں تاریخ ہے۔ انگریزوں کی غلامی کے تاریک زمانے میں انہوں نے ہندوستان میں سرفروشی کی شاندار داستان رقم کی۔ انہوں نے جس شجاعت، پامردی اور جرأت کے ساتھ انگریزی سامراج کا مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے؛ تاہم اس ضمن میں وہ افراط و تفریط کا شکار بھی ہوئے؛ چنانچہ انہوں نے اپنا سارا وزن صرف 'جہاد بالسیف‘ کے پلڑے میں ڈالے رکھا اور جدید سائنسی علوم کو استعماری سازش قرار دے کر رد کرتے رہے۔ اس روش کا یہ نتیجہ نکلا کہ اپنی ان گنت قربانیوں کے باوجود مستقبل کی دوڑ میں وہ دوسروں سے پیچھے رہ گئے۔ ان کے مقابلے میں سر سید احمد خان نے تن تنہا 'علمی جہاد‘ کا بیڑا اٹھایا۔ 'جہاد‘ کے موضوع پر سرسید اور علمائے دیوبند کے مابین خاصی تلخ و تند بحث بھی چلی۔ سرسید کا یہ موقف تھا کہ جدید علوم پر مکمل عبور حاصل کئے بغیر استعمار کا مقابلہ ممکن ہے اور نہ مسلمانوں کی حالت بدلے جانے کا کوئی امکان! آنے والے وقت نے سرسید کا یہ نکتہ نظر درست ثابت کر دیا۔ چنانچہ جناح اور اقبال نے سرسید کی روایت پر چلتے ہوئے تخلیق پاکستان کی مشکل منزل سر کی۔ اگر ہماری تاریخ کے اس مایوس کن دور میں سرسید شمعِ علم روشن نہ کرتے تو آج کہیں پاکستان کا وجود ہوتا اور نہ کہیں چاغی کا پہاڑ ایٹمی دھماکے سے دھول بنتا! بلکہ اس کی جگہ آج ہم چٹائیوں پر بیٹھے 'کچی روٹی اور پکی روٹی‘ ازبر کر رہے ہوتے! (یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ میں ایٹمی اسلحے کو کائنات کی تباہی کا سامان سمجھتا ہوں۔ بحیثیت انسان میں ایٹمی اسلحے سے نجات کا حامی ہوں لیکن بحیثیت پاکستانی مجھے اپنی قوم کی اس سائنسی فتح پر فخر بھی ہے۔)
ذرا تضاد ملاحظہ ہو کہ ہمارے جن قابل احترام علماء کے نزدیک ایٹم بم بنانے والا مغربی علم حرام ہے انہی کے نزدیک ایٹم بم حلال ہے۔ جو اصحاب ہوا میں پتنگ اڑانا کفر سمجھتے ہیں، انہوں نے پورے ملک کی دیواریں سی ٹی بی ٹی نامنظور اور ایٹم بم ہمارا ہے ایسے نعروں سے سیاہ کر رکھی ہیں۔ جن حضرات کے نزدیک ٹی وی کیمرہ مکروہ ہے ان کے نزدیک ایٹمی آگ کی بارش عین ثواب ہے یعنی علم اور انفارمیشن کفر...جبکہ جنگ اور تباہی جائز! 
ان قابل احترام بزرگوں کو کون سمجھائے کہ گولی کسی مسئلے کو حل کرنے کا آخری اور متشددانہ ذریعہ نہیں ہوا کرتی اور لازم نہیں کہ گولی اور تلوار کے ذریعے طے کئے ہوئے فیصلے یا میدان جنگ میں حاصل کی ہوئی حکومتیں ہمیشہ کے لیے قائم بھی رہ سکیں۔ آج بھی ہماری ماضی کی فتوحات قصہ پارینہ ہو چکیں شاید ہی کسی عرب فاتح کا کہیں مزار قائم ہو لیکن آنحضرتؐ کا حسن سلوک آج بھی زندہ ہے اور دلوں کی سلطنت پر ان کا حکم آج بھی اسی طرح چل رہا ہے...گویا عقائد کسی گولی کے محتاج نہیں ہوتے...کہ ان کی جڑیں روح کی گہرائیوں سے پھوٹا کرتی ہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں