کچھ عرصہ قبل پوری قوم نے لاہورکے ایک دھماکے میں تقریباً 26افراد کے وحشیانہ قتل کی خبر انتہائی تاسف کے ساتھ سنی۔ نالائق، ناکارہ اور نااہل انتظامی اداروں نے اس واقعے کی ذمہ داری بیرونی دشمنوں کے نام لکھ کر اپنے سرکا بوجھ ہلکا کر لیا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے بنوں کا یہ سانحۂ عظیم بھی ہماری عقلِ سلیم پر عبرت اور ہوش کا کوئی تازیانہ برسائے بغیر ہی گزر جائے گا، بالکل پہلے پیش آنے والے سانحات کی طرح۔
اوررہا بے چارہ عام آدمی تو وہ انگشت بدندان، حیرت و استعجاب کی تصویر بنا نظر آتا ہے۔ ہمارے جن بزرگوں نے مسلمان اقلیت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے پاکستان بنایا، یہ بات ان کے دائرۂ تصور ہی سے باہر ہو گی کہ ایک دن یہی ملک فرقہ پرستی کا خونیں اکھاڑہ بن جائے گا۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ جانیے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اسلام کی اجارہ داری ملائوں کے ہاتھ میں آگئی۔ نتیجتاً اس تفرقہ باز گروہ نے اسلام کے ہمہ گیر فلسفے کو ماضی کے تاریخی جھگڑوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ انہوں نے حال اور مستقبل کے معاملات سلجھانے کے بجائے قوم کو ماضی کے غاروں میں دھکیل دیا۔ انہوں نے ہمیں اس بحث لاحاصل میں الجھا دیا کہ کون سا فرقہ اور کون سی فقہ اسلام کی اصل تعبیر ہے۔ انہوں نے کف بدہان وسمع خراش آواز سے ایک دوسرے پرکفر کے فتوے لگائے اوریوں فرقہ پرستی کے غبارے میں نفرت کی ہوا بھرنے کا آغازکر دیا۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی آمد اور 1979ء میں امام خمینی کے انقلاب نے پاکستان میں فرقہ وارانہ نفرتوں کو نئی شدت سے آشنا کیا۔ اسی زمانے میں فرقہ پرست گروہوں نے اپنی اپنی مسلح تنظیمیں بھی بنائیں اور خود کو سیاسی انداز میں منظم بھی کر لیا۔ اسی کیفیت کا منطقی نتیجہ آج ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی شکل میں برآمد ہو رہا ہے۔
دنیا کے سبھی مذاہب، فلسفے اور عقیدے باہمی محبت اور رواداری کا درس دیتے ہیں لیکن اس معاملے میں اسلام کا اپنا ایک خاص مقام ہے۔ پیغمبرؐ اسلام کی حیات طیبہ اپنے بدترین مخالفوں کے ساتھ بھی بہترین سلوک کا عظیم نمونہ ہے۔ غصہ، نفرت اور انتقام تین ایسے الفاظ ہیں جنہیں عظمتِ اسلام کی زندگی میں ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ ان کا بتایا ہوا راستہ رواداری اور عفو کی وادی سے ہوکرگزرتا ہے۔ عظمتِ صحابہؓ کا تصور بھی انہی کی نسبت سے قائم ہے اور اہل بیت رضوان اللہ علیھم کا دیا بھی انہی کی ذات سے روشن ہے تو پھر ان لوگوں کو کیا نام دیا جائے جو ناموس رسالتؐ، عظمتِ صحابہؓ یا حُب اہلِ بیت کے نام پر بے گناہ انسانوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں؟ کیا ایسے لوگ محراب و منبر یادرگاہ و خانقاہ کے وارث کہلانے کے مستحق قرار دیے جا سکتے ہیں جو رواداری اور شفقت کے بجائے ایک دوسرے کی گردن مارنا ہی خدمتِ دین گردانتے ہوں؟ کیا انہیں کرپشن، بدعنوانی اور دولت و سطوت کے لات و منات دکھائی نہیں دیتے جن کے خلاف وہ جہاد کریں؟ کیا انہیں دکھائی نہیں دیتا کہ بدعنوانی کے میدان میں اس وقت ہم دنیا میں ایک اعلیٰ مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ اس سب کچھ کے باوجود ہم یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ اللہ اور اس کے دین کی عمارت صرف ہم نے تھام رکھی ہے، جونہی ہم نے اپنا کندھا ذرا پرے سرکایا تو (نعوذباللہ) یہ کائنات اور اس کی تخلیق کا راز و جواز دھڑام سے نیچے آ رہے گا۔
قارئین کرام! تاریخ شاہد ہے کہ کئی صدیاں پہلے یورپ بھی ہماری مانند فرقہ واریت کی بھٹی میں دہکتا رہا۔ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کے مابین جنگ و جدل کو بھی پاپائیت کی آشیر باد حاصل تھی۔ ان دونوں فرقوں نے بھی پہلے ایک دوسرے پر کفرکا فتویٰ لگایا اور پھرایک دوسرے کو نذرِ آتش کرنے کا آغازکر دیا۔ نفرتوں کی یہ آگ کئی نسلوں کو نگل گئی۔ جب زمانے نے آگے قلانچ بھری تو سب جنگوں کی مانند یہ جنگ بھی ایک خاموش نکتے پر منتج ہوئی۔ ماضی کے کشت و خون کو دونوں فرقوں نے اپنی تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا،نوبت یہاں جا پہنچی کہ دونوں فرقے جو کل تک ایک دوسرے کو توپ دم کرنا ہی اوجِ انسانیت سمجھا کرتے تھے، آج ایک
دوسرے کے شانہ بشانہ سماجی خدمت کے میدان میں مصروفِ جہاد ہیں۔ یورپ کے ریلوے اسٹیشنز پر لوگوں کی امداد کے لیے ان دونوں فرقوں نے مشترکہ دفاتر کھول رکھے ہیں، ایک دوسرے پرکفر کا فتویٰ لگانے کے بجائے مل جل کر معذور افراد کا ہاتھ تھامتے ہیں۔ مہاجروں، قدرتی آفات کا شکار ہونے والوں، بے گھر عورتوںاور یتیموں کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہیں۔ رات بھر ان کی گاڑیاں گشت کرتی ہیں،انہیں جہاں کہیں نشے کے عالم میں کوئی گرا پڑا یا بے خانماں شخص مل جائے وہ اسے شب بسری کے لیے اپنے سنٹر میں لے آتے ہیں۔ انہوں نے یہ نکتہ سمجھ لیا ہے کہ نشہ ایک مرض ہے اور اچھاڈاکٹر مریض سے نفرت کر کے اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ وہ عادی مریضوں پر'ڈنڈا فورس‘کا استعمال کرنے کے بجائے پیارو محبت سے ان کا علاج کرتے ہیں۔ نتیجتاً آج یورپ میں ہیروئن ایسے آدم کش نشے کے مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں اضافہ! یہ دونوں فرقے آج بھی اپنے مسلک کے پیروکار ہیں، وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کے درمیان نفرت ختم ہوئی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ دونوں فرقے آج پہلے سے کہیں بہتر پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کہلوانے کے حقدار ہیں۔
ہمارے واعظینِ کو یہ چھوٹا سا نکتہ سمجھنا ہوگا کہ سماج کے ٹھکرائے ہوئے افراد ہی ان کی توجہ کے اصل مستحق ہیں اور انہی کی خدمت خدا کی پسندیدہ عبادت ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ انتقام ایک اندھے اور سیاہ جذبے کا نام ہے اورکوئی انسان اس بات پر قادر نہیں کہ خون ہی سے خون کے داغ دھو سکے۔
ذرادوسری جانب ہمارے ان فرقہ پرستوں کودیکھیے، نفرتوں کے یہ تاجر باری باری یورپ پہنچتے ہیں اور وہاں سے خدمتِ دین کے نام پر پاکستانی مزدوروں کا خون نچوڑ لاتے ہیں۔ رہے پیرانِ عظام تو انہوں نے بھی یورپ کے ہر ملک میں اپنے اپنے 'خلفاء‘ مقرر کر رکھے ہیں جو وہاں سے نذر نیاز اکٹھی کر کے انہیں یہاں پہنچاتے ہیں۔ ان سب نے اپنے اپنے مقلدین کی فوج میں اضافہ کرنے کی خاطر اپنے اپنے درس اور مکتب کھول رکھے ہیں۔ کوئی ایسا عالم، پیر یا فرقہ میرے علم میں نہیں جس نے انسانی خدمت کے جذبے سے گلاب دیوی ایسا کوئی شفاخانہ کھولا ہو۔کوئی ایسا نہیں جس نے معذوروں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کے لیے کوئی مرکز بنایا ہو۔کسی نے بیوائوں اور بوڑھوں کے لیے کوئی گھر بنایا ہو۔ ہے کوئی ایسا جس کے ہاتھ چوم سکوں اورجس کی مدح لکھ سکوں؟
اے اٹھارہ کروڑ لوگو! سنبھلو کہ فرقہ پرستوں نے پورے سماج کو دہشت گردی کے جذام میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اے اٹھارہ کروڑ لوگو! اُٹھو اور سماج کے اس کوڑھ کو ختم کر ڈالو۔ اگر جرمنی کی دو نہتی عورتیں کسی سرمایہ کاری کے بغیر انسانیت کے ماتھے پر اتنا بڑا جھومر لگا سکتی ہیں تو پھر اٹھارہ کروڑ ہاتھ مل کر فرقہ پرستی کے جذام سے نجات کیوں حاصل نہیں کر سکتے؟