کچھ عرصہ قبل پاکستان کلچرل فورم نے چین کے سفیر کے اعزاز میں ایک عدد عشائیے کا اہتمام کیا۔ اس عشائیے کے شرکاء میں حرکتہ المجاہدین کے مولانا فضل الرحمن خلیل اور جنرل حمید گل سے لے کر کامران رضوی اور مجھ جیسے گنہگار تک ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود تھے۔ یہ رنگارنگی اس بات کا بیّن ثبوت تھی کہ پاک چین دوستی کے موضوع پر قوم میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ صحافیوں کے گروہ میں نصرت جاوید اور ایاز امیر شامل تھے۔ انگریزی صحافت میں نصرت جاوید اور ایاز امیر کا اپنا ایک خاص مقام ہے۔ ان کی کالم نگاری کے متعلق وہی بات کہی جا سکتی ہے جو ایک بار لتانے مناڈے کی گائیکی کے بارے میں کہی تھی کہ ''منا ڈے گائیکوں کے گائیک ہیں۔ ہم لوگوں کے لیے گاتے ہیں اور وہ ہمارے لیے گاتے ہیں۔‘‘ گویا ایاز امیر بھی کالم نگاروں کے کالم نگار ہیں۔
ایک کونے میں مولانا فضل الرحمن خلیل مسکراہٹیں بکھیرنے میں مصروف تھے لیکن جونہی کیمروں کی چکاچوند شروع ہوئی حضرت مولانا باتھ روم کے بہانے وہاں سے اٹھ گئے۔ ممکن ہے ان کے نزدیک فوٹوکھینچنا یا کھینچوانا دونوں ہی کفر کے زمرے میں شمار ہوتے ہوں۔ بہرطور مولانا مجھے دیکھتے ہی خوش دلی سے میری جانب بڑھے اور بڑی گرمجوشی سے ملے۔وہ یقینا میرے خیالات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ نہ تو میں اللہ کے مقدس نام پر مسندِ اقتدار کے لیے جنگ کو جہاد سمجھتا ہوں اور نہ ایک دوسرے کی گردن مارنا ہی میرے نزدیک اصل اسلام ہے۔ اس شدید فکری اختلاف کے باوجود ہم نے محبت سے باہم گفتگو
کی۔ یہیں پر کسی نے مجھے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن خلیل کو امریکیوں نے چین کے مسلمانوں کو بھڑکانے اور وہاں بھی 'جہاد‘ شروع کروانے کو کہا تھا لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے امریکیوں کو یہ جواب دیا کہ افغانستان میں ہمارے کندھے آپ کی بندوقیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے۔ اب ہم بالغ ہو چکے ہیں۔آپ کی سیاست کا نوالہ نہیں بن سکتے۔ ان کا جواب اس حقیقت کا غماز ہے کہ 80ء کے عشرے میں امریکہ کی زیرِ سرپرستی سرزمین افغانستان پر جس بے رحمانہ کشت و خون کا آغاز ہوا‘ کم از کم اب وہ اس کے پس و پیش کو سمجھ چکے ہیں اور سمجھنے کی بات ہی صرف اتنی سی ہے کہ آج اسلام کی اصل دشمن وہی سامراجی قوتیں ہیں جو گاہے فرقہ بندی کے نام پر ہمیں آپس میں لڑاتی ہیں اور گاہے 'جہاد‘ کے نام پر ہمیں اپنے سے کئی سو گنا بڑے دشمن کے خلاف نیم مسلح حالت میں جنگی اکھاڑے میں دھکیل دیتی ہیں تاکہ گروزنی ( سابقہ یوگو سلاویہ) کی مانند ہر گھر ماتم کدہ بن جائے اور ادھر ان حضرات کو کیا نام دیا جائے جنہوں نے اسلام جیسے خزینہ علم و دانش اور سرچشمہ محبت کو جذباتیت، منافرت اور نعرہ بازی کا لباس پہنا رکھا ہے۔
اس عشائیے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ساری تقاریر اردو میں کی گئیں۔ چینی سفیر نے 70ء کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ لہٰذا ان کے لہجے میں کراچی والوں کا رنگ نمایاں تھا۔ پاکستان کلچرل فورم کے صدر ظفر بختاوری نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین دوستی نے تاریخ کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ہمارے روابط کی گہری جڑیں دونوں ممالک کے عوام کے دلوں سے پھوٹی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی ان تعلقات پر کبھی اثر انداز ہو پائی اور نہ نظریات کا بُعد ہی انہیں ختم کر سکا۔
جس محفل میں میرے بھائی حمید گل موجود ہوں وہاں وہ اپنا 'تابخاکِ کاشغر‘ قسم کا بھاشن نہ دیں بھلا کیسے ممکن ہے، انہوں نے کسی اذکار رفتہ امریکی پروفیسر کی تہذیبوں کے ٹکرائو کے متعلق ایک زنگ خوردہ قسم کی تھیوری پڑھ رکھی ہے۔ اس تھیوری کی صداقت پر ان کے ایمان کا یہ عالم دیکھا کہ انہوں نے بقائمی ہوش و حواس یہ فرمایا کہ مستقبل میں ایک جانب عیسائی اور یہودی تہذیبیں یکجا ہوں گی‘ جبکہ دوسری طرف اسلامی اور چینی تہذیب کا آپس میں اتحاد ہو گا۔ جنرل موصوف صرف اس بات کو درست مانتے ہیں جسے وہ درست ماننا چاہتے ہوں ورنہ تاریخ کا ایک کند ذہن طالبعلم بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ موجودہ یا آنے والی کسی صدی میں مذہب کے نام پر دنیا کی کوئی نئی تقسیم ممکن نہیں۔ بہرطور جنرل نے ایک اور امریکی پیشین گوئی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چین 2020ء میں سپر پاور بن جائے گا بلکہ ان کی ذاتی خواہش یہ ہے کہ چین 2015ء تک ہی سپرپاور بن جائے۔ جنرل حمید گل بھی عجیب شے ہیں، گالی امریکہ کو دیتے ہیں لیکن امریکی پروفیسروں کی تھیوریوں کو بھی درست مانتے ہیں اور ان کی پیشین گوئیوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں۔
جنرل نے یہ فرما کر ہم ایسے شرکائے محفل پر سکتہ طاری کر دیا کہ اسلام اور سوشلزم میں دراصل کوئی دوری، کوئی بُعد اور کوئی بڑا تضاد موجود نہیں بلکہ ان دونوں میں انتہائی گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ جنرل کی ساری عمر سوشلزم کو کفر کہتے گزری۔ انہوں نے سماج کی تخلیق کردہ امارت و غربت اور انسانوں کے مابین معاشی امتیاز اور تفاوت کو خدائی قانون سمجھا۔ چنانچہ وہ غریبوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غریب رکھنا ہی فریضہ الٰہی سمجھتے رہے تاہم ان کی یہ تقریر سن کر یک گونہ اطمینان حاصل ہوا کہ پچاس برس بعد سہی بالآخر وہ یہ بات سمجھ تو گئے کہ جو کچھ وہ سمجھتے رہے وہ سب غلط تھا۔
چینی سفیر نے بتایا کہ چین میں مسلمانوں سمیت 56نسلی اور ثقافتی گروہ موجود ہیں۔ ہر مذہبی اقلیت کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ اکثریت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اقلیت کا گلا دبائے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دوسروں کے مذہبی عقائد کا تمسخر اڑائے یا ان کی توہین کرے۔ کسی کو مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی قوت چین کے اندر کسی قسم کا قومیتی یا مذہبی فساد نہیں کروا سکی۔ انہوں نے کہا کہ چین تیسری دنیا کا ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ وہ نہ تو علاقائی سطح پر فوجی قوت بننا چاہتا ہے اور نہ ایک بین الاقوامی تھانیدار بننے کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے جنرل حمید گل کے 'سپر پاور‘ والے فلسفے کی پوری شدت سے نفی کرتے ہوئے تقریباً دس بار اپنا یہ جملہ دہرایا؛
''چین کبھی بھی سپر پاور نہیں بنے گا۔‘‘
انہوں نے کہا ہم سپر پاور والے تصور کے ہی خلاف ہیں۔ ہم جس چیز کو دنیا کے لیے وبال سمجھتے ہیں، بھلا اسے اپنے لیے کیسے پسند کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ چین نے اپنے کھوئے ہوئے علاقوں کو حاصل کرنے کے لیے صبر وتحمل پر مبنی ایک متوازن اور مثبت پالیسی اپنائی، اس پالیسی کے طفیل آج ہانگ کانگ اور مکائو مادر وطن کی آغوش میں واپس پہنچ چکے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب تائیوان پھر سے سرزمین چین کا حصہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ چینی قوم پرانے دوستوں کو کبھی نہیں بھولتی، پاکستان ہمارا پرانا دوست ہے اور ہماری دوستی ہر موسم کی دوستی ہے۔
چینی سفیر کی فی البدیہہ اردو تقریر نے ایک سماں باندھ کر رکھ دیا۔ ایران کے چارج ڈی افیئر بھی اس تقریب میں موجود تھے تاہم وہ اس ماحول کو کچھ اجنبی اجنبی سا محسوس کرتے رہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ساری تقاریر اردو میں ہو رہی تھیں اور وہ 'من ترکی نمی دانم‘ کی زندہ تصویر نظر آ رہے تھے۔