یہ بات واضح ہے کہ دہشت گرد نہ تو کہیں آسمان سے اُترے ہیں اور نہ وہ کسی دوسرے سیارے سے آگ برساتے ہوئے ہمارے سروں پر آن کودے ہیں۔ انھوں نے پوری دنیا میں آباد مسلمانوں کی گردن شرم سے جھکا رکھی ہے۔ انھوں نے افغانستان اور پاکستان کو نمونۂ عبرت بنا کر رکھ دیا ہے۔ جو لوگ طالبان کو پہاڑوں پر بسنے والے سادہ لوح افغان سمجھتے ہیں اُن سے بڑا سادہ لوح شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔ ہمارے سیاستدان، طالبان کو محض علم و عقل سے عاری پہاڑوں پر بسنے والے افغان سمجھتے ہیں لیکن ان کی ذہانت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیجئے کہ وہ انگریز سے 1883ء میں علیحدہ ہوئے اور انہوں نے اپنی علیحدگی کی جنگ 1963ء تک جاری رکھی۔ 1963ء میں فقیر آف ایپی کے مارے جانے کے بعد انھوں نے دو آزاد اور خود مختار ممالک کے درمیان اپنی ایک نیم آزاد ریاست بنا رکھی ہے جو نہ تو افغانستان کے آئین، قانون اور منشور کو تسلیم کرتی ہے اور نہ پاکستان کے آئین یا دستور کو مانتی ہے۔ وہ صرف ان دو ممالک سے خیرات وصول کرتے ہیں، انھوں نے ان دونوں ممالک کو اپنے انگوٹھے تلے دبا رکھا ہے۔ وہ پاکستان اور افغانستان کی دو دھاری تلوار پر کوئی نقصان اُٹھائے بغیر 135برس سے کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے اس علاقے کو آزاد علاقے کا نام دے رکھا ہے۔ انھوں نے کچھ اس طرح کی حکمتِ عملی ترتیب دے رکھی ہے کہ جونہی مہمند اور سوات پر دبائو پڑتا ہے وہ فوراً پاکستان کے اندر دھماکے شروع کر دیتے ہیں۔ اگر یہ دبائو مزید بڑھ جائے تو وہ پاکستان کی فوج پر زمینی حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایک وفاقی وزیر کا یہ کہنا انتہائی درست ہے کہ بھارت جسے ہم اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں اُس نے کسی جنگ میں ہمارے سپاہیوں کی گردنیں کاٹ کر ہمیں نہیں بھیجیں اور نہ ہی ان کے مسخ شدہ چہرے ہمیں 'تحفے‘ کے طور پر ارسال کیے۔ وہ لوگ کس طرح مسلمان کہلانے کے حق دار ہو سکتے ہیں جو کٹے ہوئے انسانی سروں پر رقص کو اسلام کی عظمت قرار دیتے ہوں۔ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم کسی آخری فیصلے پر ایکتا کریں۔ روز روز اپنے عوام کا خون بہانے کے بجائے اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زمین کی تہہ میں دفن کر دیں۔
آپ کو یہ پڑھ کر حیرت تو ہو گی لیکن مجھے دکھائی دیتا ہے کہ طالبان ہر چہار جانب سے بند گلی میں آن پہنچے ہیں۔ پاکستان کی افواج اور پاکستانی عوام کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ امن کی تلاش میں سراب میں بھٹکتے بھٹکتے کہیں اسے بھی ضائع نہ کر دیں۔ اُن کو چند دنوں یا ہفتوں کا الٹی میٹم دیں اور پھر انہیں گھیر کر ایک پوائنٹ پر لے آئیں۔ آج طالبان کو عرب ممالک کی جانب سے پناہ اور پیسہ ملنا کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ ہماری کامیاب خارجہ پالیسی ہو گی اگر امریکہ اور ہندوستان اُن کی مدد نہ کریں۔ افغان حکومت بھی اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرنے سے باز رہے۔ طالبان کا سانس اُکھڑ چکا ہے‘ وہ پاکستانی افواج کے سامنے چند ہفتوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتے۔ اُن کے اندر شدید پھوٹ پڑ جانے کی افواہیں بھی ہیں۔ طالبان کا ایک بڑا طبقہ ہتھیار رکھنے اور صلح کرنے کے حق میں ہے اور اس جنگ کو جاری رکھنے والے دہشت گردوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔
ہماری ڈھیلی پالیسی کا آج تک یہ نتیجہ نکلا کہ طالبان نے ہمارے کئی نامور بریگیڈیئر اور جرنیل شہید کر دیے جبکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک آدھ کے سوا کوئی مشہور طالبان لیڈر نہیں مارا گیا۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ایک مستقل جنگی پالیسی کے تحت اپنا جنگی نقشہ ترتیب دینا چاہیے۔ یہ کوئی پالیسی نہیں کہ سال بھر طالبان ہمارے عوام کو کوچہ و بازار میں قتل کرتے پھریں یا فوجی ہیڈکوارٹرز پر بم پھینکتے رہیں اور سال بھر بعد جب وہ مزید اسلحہ اکٹھا کرنے کی غرض سے وقت مانگنا چاہیں تو وہ صلح کا دانہ پھینکیں...اور پاکستان صرف صلح کا نام سنتے ہی ڈھول بجاتے بجاتے پاگل ہو جائے۔ ہم بھاگے بھاگے طالبان کے ساتھ میز پر بیٹھنے کو تیار ہو جاتے ہیں، ماہ دو ماہ کی گفت و شنید کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالبان میز کے دائیں جانب بیٹھیں گے یا بائیں جانب۔ نہ وہ خلوصِ نیت سے مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں اور نہ وہ کسی مسئلے کو حل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اتنے میں ہماری صلح کا بخار بھی آہستہ آہستہ اترنے لگتا ہے۔
گزشتہ عرصے کے دوران ہمارے ہاں کوئی پانچ سات بار صلح کی بساط بچھی لیکن کبھی بھی ہم کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ طالبان طرز کی جنگ آج کے دور میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس جدید دور میں جہاں ٹیلی فون کی سِم پر الیکٹرانک میزائل مارے جا سکتے ہوں، وہاں پرانے زمانے کی طرح ایک آنکھ بند کر کے دشمن کو نشانہ لگانا یا شکست دینا ممکن نہیں۔ صرف پاکستان اور افغانستان ہی اس موقف پر صلح کر لیں کہ وہ ان قبائلی طالبان کی کسی صورت مدد نہیں کریں گے تب بھی یہ جنگ ایک ماہ کے اندر اندر ختم ہو سکتی ہے۔ یعنی طالبان کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے طالبان کا اندرونی اتحاد اور اُن کی بیرونی امداد دونوں کا خاتمہ ضروری ہے۔طالبان کی آدھی قوت ہمارا پریس میڈیا ہے جس نے طالبان کو اپنا بزنس بنا رکھا ہے۔ گاہے وہ اُنہیں کوہ ہمالہ سے بلند کر دیتا ہے اور گاہے ان کا شجرۂ نسب تاریخ کے سب سے بڑے فاتحین سے جا ملاتا ہے۔ ہمیں صرف اُنہی لوگوں سے محبت ہو سکتی ہے جو ہمارے عوام کی گردنیں کاٹنا کفر سمجھتے ہوں، جو بم، بارود اور دھماکوں سے ہمارے ملک کو تباہ کرنے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں...پاکستان جب تک یہ پالیسی نہیں اپناتا، یک طرفہ صلح کے کسی میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جب تک میدانِ جنگ میں طالبان آنے والی شکست کو محسوس نہیں کر لیتے وہ کسی صورت صلح یا امن کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے۔