راجہ دھول کی گائے اور ہم

بچپن میں سنا کرتے تھے کہ ہماری زمین کو راجہ دھول کی گائے نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے۔ جب وہ تھک کر زمین کو اپنے دوسرے سینگ پر لیتی ہے تو اس لرزش کے عمل سے زلزلے جنم لیتے ہیں۔ اس قسم کی توہمات پر یقین رکھنے والے سادہ لوح دیہاتی بزرگ آج تہہ خاک ہیں ، لیکن یوں لگتا جیسے راجہ دھول کی گائے ہمارے ہاں بعض دانشوروں کے روپ میں اب تک زندہ ہے جنہوں نے بزعم خود پوری ملت اسلامیہ کا بوجھ اپنے سینگوں پر لے رکھا ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں جب وہ اپنا سینگ بدلتے ہیں تو ان کے خیال میں پوری امت زلزلوں کی زد میں آ جاتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک امت کے مسائل گنوانے اور پھر ان کا 'روحانی حل‘ تجویز کرنے میں مبتلا رہتا ہے۔ ان حضرات کی اکثریت کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے ، لہٰذا ان کی تحریریں پڑھ کر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ حضرات پنجاب کے دوچار اضلاع کو ہی اسلام کا مرکز سمجھتے ہیں اور پاکستان کا بھی۔
ان دانشوروں کے ایک مکتبۂ فکر کے نزدیک قوم کے سارے مسائل کی جڑیں نظریۂ پاکستان سے بے توجہی کی سرزمین سے پھوٹی ہیں ، لہٰذا جس دن قوم نے نظریۂ پاکستان کے مطالب و معانی ازبر کر لیے، اس دن نہ صرف ہمارے موجودہ مسائل کافور ہو جائیں گے بلکہ مستقبل میں بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔ دوسرے مکتبۂ فکر نے بزعم خود اسلام کی تعبیر و تشریح کا وظیفہ اپنے سر فرض کر رکھا ہے۔ ان حضرات کے نزدیک بھٹکی ہوئی امت کے مسائل کا واحد حل ان کے تجویز کردہ فقہی نظام میں موجود ہے۔ ان حضرات نے ماضی کی ایک ایسی روحانی تاریخ تخلیق کر رکھی ہے جس کے تانے بانے نسیم حجازی کے افسانوی کرداروں سے پھوٹتے ہیں۔اگرچہ مطلق العنان بادشاہوں کے ادوار شہنشاہیت کو تاریخ اسلام قرار دینا، اسلام اور تاریخ دونوں کے ساتھ زیادتی ہے، تاہم اپنے ہاں سب کچھ چلتا ہے۔ ظاہر ہے جہاں اسلام یا نظریۂ پاکستان کا ذکر آ جائے، وہاں کوئی آدمی نہ سوال کرنے کی پوزیشن میں رہتا ہے اور نہ نکتۂ اعتراض اٹھانے کے قابل ، لہٰذا اسلام اور پاکستان کے نام پر اپنی اپنی فکری دکان چمکانے والوں کی چاندی ہے۔ 
امت کے دکھوں پر الفاظ کے آنسو بہانے والے ان اخباری دانشوروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ہم معاشی طور پر پوری دنیا سے کیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ فرانس ایسے کمزور یورپی ملک کی مجموعی قومی پیداوار، باون اسلامی ممالک کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار سے زیادہ ہے، اگر پوری 'امت عیسوی‘ کی مجموعی قومی پیداوار ایک جگہ جمع کر لی جائے، جس میں یورپی مشترکہ منڈی کے ممالک، روسی ریاستیں، مشرقی یورپ، امریکہ، کینیڈا، لاطینی امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں تو اندازہ کیجیے اس کے مقابلے میں ہمارے باون اسلامی ملکوں کا پیداواری تناسب کہاں بیٹھے گا؟ بعینہ اگر ہم پوری 'امت بدھ‘ کی سالانہ 
مجموعی پیداوار ایک جگہ جمع کر لیں، جس میں چین، جاپان، کوریا، تائیوان، تھائی لینڈ، برما، ویت نام وغیرہ شامل ہوں تو اس کے مقابلے میں ہماری حالت کیا ہوگی؟
یہ بڑاخوفناک تفاوت ہے لہٰذا ہمیں وہ وجوہ تلاش کرنا ہوں گی جن کے ہاتھوں آج ہم نمونۂ عبرت بنے ہوئے ہیں۔ شتر مرغ کی مانند ریت میں گردن چھپا لینے سے ہمارے دن پھر سکتے ہیں اور نہ تاریخ کی آنکھیں بند ہو سکتی ہیں۔ ہماری واماندگی اور عقب نشینی کی یہ وجہ نہیں کہ ہم نظریۂ پاکستان بھلا بیٹھے ہیں اور نہ دنیا کی ترقی کی یہ وجہ ہے کہ اس نے ہم سے نظریۂ پاکستان چرا کر رٹ لیا ہے۔ ہماری بدبختی کا اصل منبع جہالت اور بے علمی کی کوکھ سے جنم لینے والی وہ سماجی اور معاشی ناانصافیاں ہیں جنہوں نے ہماری ترقی کے پائوں میں زنجیریں ڈال رکھی ہیں۔
جہالت کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ برداشت اور رواداری کو کھا جاتی ہے اور تعصب و نفرت کی افزائش کرتی ہے۔ فرقہ وارانہ جنون اسی کیفیت کی پیداوار ہے ۔ جس طرح آج ہمارا ایک فرقہ دوسرے فرقے کا سر اتارنا عین اسلام سمجھتا ہے بعینہ آج سے تین چار صدیاں قبل برطانیہ میں پروٹسٹنٹ اورکیتھولک فرقے ایک دوسرے کو زندہ جلانا کارثواب سمجھا کرتے تھے، لیکن جب یہ سماج جہالت و تعصب کے اندھیروں سے باہر آیا، اس نے ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام کرنا سیکھ لیا‘ تو نتیجہ یہ نکلا کہ اسی برطانیہ نے دنیا کے 44 ممالک پر حکمرانی کی۔ آج اس برطانیہ میں ہماری دوہزار سے زائد مساجد، دینی درسگاہیں اور تبلیغی مراکز موجود ہیں۔ وہاں عیدیں بھی منائی جاتی ہیں اور اہل تشیع کے ماتمی جلوس بھی نکلتے ہیں، عرس اور بھنڈارے بھی ہوتے ہیں، ہندوئوں اور سکھوں کے مندر اور گوردوارے بھی چل رہے ہیں اور عیسائیوں کے گرجا گھر بھی۔
آج ہمیں 'جہادی کلچر‘ کے بجائے معاشی کلچر کی ضرورت ہے کہ آج کا سب سے بڑا جہاد ملک کو اپنے معاشی پائوں پرکھڑا کرنا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جنگ آج کی سب سے بڑی جنگ ہے اور یہ جنگ راجہ دھول کی مقدس گائے کی دُم تھام کر نہیں جیتی جا سکتی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں