کاش…

گزشتہ ہفتے میں نے برطانیہ کی بندرگاہ ڈوور (Dover) سے فرانس کی ساحلی بندرگاہ کیلے (Cailis) پہنچنے کے لیے فیری (Ferry) پکڑی۔ فیری کو ایک چھوٹا سا بحری جہاز کہہ لیجئے، جس کے نچلے حصے میں لوگ اپنی گاڑیاں، کاروان اور ٹرک لادتے ہیں جبکہ وہ خود فیری کے اوپر کے حصے میں چلے جاتے ہیں۔ یہ سفر کوئی گھنٹہ سوا گھنٹہ سے زائد نہیں۔ دراصل برطانیہ اور فرانس کے درمیان واقع یہی سمندر برطانیہ کو خشکی سے کاٹتا ہے۔ اس سمندر کو عرفِ عام میں 'برٹش چینل‘ (یعنی رودبارِ انگلستان) کہتے ہیں۔ موسم صاف اور خوشگوار تھا۔ میں عرشے پر کھڑا ہوا تو اس چینل کی ابھرتی ڈوبتی لہریں مجھے کئی برس پیچھے ماضی کے دھندلکوں میں لے گئیں۔ تب میں راولپنڈی سے کوئی چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دور افتادہ قصبے (کلر سیداں) کے سکول میں شاید آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اُس دور تک بچوں کو برصغیر کی تاریخ کے ساتھ ساتھ یورپ کی تاریخ بھی پڑھائی جاتی تھی۔ لہٰذا کیلے یا ڈوور جیسے ناموں سے کچھ کچھ آشنائی حاصل تھی۔ 
یہ 1961ء کا زمانہ تھا۔ اچانک پاکستانی پرنٹ میڈیا جو محض دوچار اخبارات تک محدود تھا،شہ سرخیوں سے بھر گیا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بروجن داس نامی ایک پاکستانی پیراک نے پانچویں بار برٹش چینل کو تیر کر عبور کیا ہے۔ آخری بار اس نے پیراکی کا ایک ایسا تیز ترین ریکارڈ قائم کیا جو آج تک پاکستان کے نام پر محفوظ ہے۔ اُس زمانے تک نہ تو ٹی وی موجود تھا اور نہ نجی ٹی وی۔ لہٰذا نہ تو آج کے چیخنے چلانے والے اینکر پرسنز نے ہنوز جنم لیا تھا اور نہ پھلجھڑیاں بکھیرنے والی 'اینکرنیوں‘ نے اس جہانِ رنگ و بو میں قدمِ رنجہ فرمایا تھا...فقط ایک ریڈیو پاکستان تھا، جس کی لہریں شکیل احمد کے مخصوص لب و لہجے اور الفاظ کے زیر و بم پر متلاطم رہتی تھیں۔ مختصر یہ کہ بروجن داس کو ہر گلی کوچے میں ریڈیو پاکستان نے روشناس کروا دیا۔ ہم میں سے کسی نے نہ کوئی ہندو دیکھا تھا اور نہ کوئی سکھ ...کہ یہ جھمیلے ہمارے ہوش میں آنے سے پہلے ہی نمٹ چکے تھے مگر ہم سب کے لیے بروجن داس ملک کا ایک قابلِ فخر اثاثہ تھا۔ وہ اپنے عقیدے کی رو سے ہندو تھا۔ شاید آج کسی کو یہ بات یاد نہ ہو کہ بروجن داس نے 1958ء میں اٹلی میں منعقد ہونے والے 36کلومیٹر کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کے لیے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ کیا محب وطن شخص تھا کہ جب پاکستان بنا تو اس نے اپنی جنم بھومی (یعنی مشرقی پاکستان) کو نہیں چھوڑا لیکن 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوا تو وہ بھی دولخت ہو گیا۔ وہ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے کلکتہ چلا گیا اور وہیں اس کا کِریا کرم ہوا۔ 
کراچی میں پیدا ہونے والا ایس بی جون دین دھرم کے لحاظ سے عیسائی تھا۔ اس نے فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا یہ گیت ''تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘ ایسے پرسوز انداز میں گایا جو آج بھی سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ تاہم اقلیتوں کے ساتھ ہمارے ہاں جو 'حسن سلوک‘ روا رکھا گیا، اس سے جھولیاں بھر کر وہ بالآخر کینیڈا کی جانب کوچ کر گیا...اور آج وہیں منوں مٹی تلے کسی گمنام قبر میں دفن ہے۔ 
پاکستان فلم انڈسٹری کا شہرہ آفاق گائیک سلیم رضا بھی ایک عیسائی تھا۔ 1947ء میں اس کا خاندان امرتسر کو تیاگ کر مسلمان قافلوں کے ہمراہ پاکستان چلا آیا۔ اُس نے فلمی صنعت کو اَن گنت یادگار نغمے دیے۔ رشید عطرے کی معطر موسیقی میں بھیگا ہوا اس کا یہ گیت ''یارو مجھے معاف کرو‘‘ اس کو بھی امر کر گیا اور اداکار طالش کو بھی۔ سلیم رضا نے ایک ہجرت تو پاکستان کے لیے کی تھی لیکن جب اس کے ساتھ اچھوتوں کا سا سلوک ہونے لگا تو دوسری بار وہ پاکستان سے کینیڈا ہجرت پر مجبور ٹھہرا۔ آج اس کا بے نام و نشان مدفن جانے کینیڈا کے کس قبرستان میں ہے؟ 
پاک فضائیہ کے گروپ کیپٹن سیسل چوہدری 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے بہت بڑے ہیرو تھے۔ 1947ء میں اُن کے والد مشرقی پنجاب چھوڑ کر چکوال کے ڈھلوال نامی قصبے میں آباد ہوئے۔ بعد ازاں وہ لاہو رمیں منتقل ہو گئے۔ ان کی والدہ کانوینٹ سکول میں ہیڈ ٹیچر تھیں۔ فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد نادار بچوں کی تعلیم سیسل چوہدری کا اوڑھنا بچھونا رہی۔ ہم نے پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن میں تین برس تک اکٹھے کام کیا۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ پاکستان برصغیر میں آباد سب سے بڑی مسلم اقلیت نے حاصل کیا تھا۔ ہم اسی لیے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آئے کہ یہ ملک ہمارے خوابوں کا اتنا ہی مسکن تھا جتنا مسلمانوں کا! لہٰذا پاکستان ہم سب اقلیتوں کا مشترکہ گھر ہے۔ 
قیامِ پاکستان کے بعد جناحؒ کی پہلی کیبنٹ میں ایک ہندو اور ایک قادیانی شامل تھا۔ بعد ازاں پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، کارنیلئس بنے، جو اپنے عقیدے کی رو سے عیسائی تھے۔ انہیں دنیا آج بھی ایک عظیم منصف کے طور پر یاد کرتی ہے۔ 
جسٹس ریٹائرڈ رانا بھگوان داس پاکستان کی تاریخ کا سنہری باب ہیں، جنہوں نے اپنا دین دھرم بھی قائم رکھا اور اپنی جنم بھومی کو خیرباد کہنے کے متعلق کبھی سوچا تک نہیں۔ 
یہ بات ہمارے لیے کتنی شرمناک اور اذیت دہ ہے کہ سندھ میں ہندو کمیونٹی کی زیرِ تعلیم کمسن بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد اپنے گھروں میں ڈال لینے کی قبیح ترین رسم گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ جب ان بچیوں کے ماں باپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو اغوا کاروں کے چنگل میں پھنسی ہوئی بچی مجبوراً کہہ دیتی ہے کہ اس نے اپنی پسند سے شادی کی ہے اور اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ چونکہ قانون اندھا ہوتا ہے، اس لیے وہ بیچارہ نہ سامنے دیکھ سکتا ہے اور نہ دائیں بائیں...وہ یہ بھی دیکھنے کا شعور نہیں رکھتا کہ اس معصوم لڑکی کے ماں باپ تو مسلمان نہیں ہوئے، نہ اس کا کوئی بھائی مسلمان ہوا اور نہ کسی نے انہیں اس طرف راغب ہی کیا...تو پھر وہ لڑکی قرآن و حدیث کو پڑھے، سوچے سمجھے اور جانے بوجھے بغیر اغوا ہوتے ہی رام بی بی سے کیسے اسلام بی بی ہو گئی؟ اگر عدالت مغویہ سے دوچار سوالات اسلام کے بارے میں کر لے تو اُسے فوراً پتا چل جائے کہ وہ کس چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ کاش ہم اپنی ہوس رانی کے لیے اسلام کا نام بدنام نہ کریں!یہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ کاش ہم اپنے سینے پر آباد ساری مذہبی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی اقلیتوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ پائیں اور ان کی حفاظت کو اپنا قومی اور اسلامی فریضہ گردانیں۔ کاش نہ کہیں سُنی شیعہ نفرتیں سماج میں موجزن ہوں اور نہ نسلی طور پر بلوچ اور ہزارہ قبائل کے معدوم ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقلیتوں نے اپنے اپنے تناسب سے کہیں بڑھ کر پاکستان کی خدمت کی ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں