"RS" (space) message & send to 7575

خان صاحب کی قیادت میں احتجاج‘ مگر کیسے؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان کا اپنی قیادت میں حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان سکیورٹی کے متعدد چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کے بعد کہا کہ عمران خان کا مؤقف ہے کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے اور ان کے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی عمران خان نے یہ واضح کیا کہ وہ اس تحریک کی قیادت جیل سے خود کریں گے۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ خان صاحب اس وقت جیل میں ہیں‘ وہ جیل سے احتجاجی تحریک کی قیادت کیسے کریں گے اور اس تحریک کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے چند عوامل پر غور ضروری ہے۔
کسی احتجاجی تحریک کی کامیابی میں سب سے اہم عنصر اس کی ٹائمنگ ہے۔ اس وقت پوری قوم پاک بھارت جنگ پر حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایسے میں اگر تحریک انصاف احتجاج کرتی ہے تو اس کے مقاصد کا حصول مشکل ہو سکتا ہے۔ قومی یکجہتی کے ماحول میں سیاسی جماعت کی جانب سے احتجاج کو عوام میں پذیرائی ملنا مشکل ہوتا ہے بلکہ اسے عوامی غیظ وغضب کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹائمنگ کا غلط انتخاب پوری تحریک کو غیر مؤثر بنا سکتا ہے۔ اسی طرح کون نہیں جانتا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد خان صاحب نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا۔ یہ بیانیہ پاک بھارت جنگ سے قبل عوام کے ایک خاص حلقے میں کسی حد تک مقبول تھا مگر اب یہ بیانیہ مشکل امتحان سے دوچار ہے۔ قومی سلامتی اور یکجہتی کے وقت جب ملک کو خارجی خطرات کا سامنا ہو‘ کسی سیاسی جماعت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہونا عوامی حمایت کھونے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ قوم جن شخصیات کو اپنے ہیرو کے طور پر دیکھتی ہے ان کے خلاف احتجاج کیوں کرے گی؟ ایسے حالات میں پی ٹی آئی کے لیے دو راستے بچتے ہیں؛ یا تو اسے انتظار کرنا ہو گا اور قومی صورتحال کے معمول پر آنے تک اپنی حکمت عملی کو مؤخر کرنا ہو گا یا اپنے بیانیے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ موجودہ تناظر میں اسٹیبلشمنٹ مخالف مؤقف پر ڈٹے رہنا پارٹی کو عوامی سطح پر تنہا کرنے کے مترادف ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ احتجاجی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے ایک بڑے اور معقول مقصد کا ہونا ضروری ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے اس دعوے کے باوجود کہ ہمیں دیوار کے ساتھ لگایا گیا‘ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا‘ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں ایک ٹھوس اور قابلِ فہم ایجنڈا پیش کرنا ہو گا۔ محض سڑکوں پر آنے کا اعلان کافی نہیں‘ جب تک کہ اس کے پیچھے کوئی بڑی وجہ نہ ہو جو عام آدمی کو متاثر کرے۔ اگر پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کی بڑی اور معقول وجہ نہیں ہے تو کامیابی کے امکانات محدود ہو جائیں گے کیونکہ عوام مبہم یا ذاتی انتقامی ایجنڈے پر باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اسی طرح احتجاجی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایسے قائد کا ہونا بھی ضروری ہے جو کارکنوں کو باہر نکال سکے اور ان میں جوش وولولہ بھر سکے۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی میں عمران خان کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کی آواز پر کارکنوں کی بڑی تعداد لبیک کہے۔ یہ پی ٹی آئی کی قیادت بھی بخوبی جانتی ہے۔ اسی لیے وہ خان صاحب کی رہائی کا نام لے کر کارکنوں کو باہر نکلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ماضی میں پی ٹی آئی کے کارکن خان صاحب کی محبت میں کئی بار باہر نکلے مگر قیادت نے کارکنوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ کر خود راہِ فرار اختیار کر لی۔ ایسی صورتحال میں کارکن دوبارہ اسی قیادت کی باتوں پر اعتماد کریں گے؟ 9 مئی اور 26 نومبر 2024ء کے واقعات کے بعد‘ جب کارکنوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا‘ قیادت کی بے رخی سے کارکن مایوس ہیں اور خان صاحب کے علاوہ کسی پر اعتماد کرنے کیلئے آسانی سے تیار نہیں۔
ماضی قریب میں تحریک انصاف کے بڑے احتجاجی مظاہروں کی کامیابی کا بڑی حد تک دارو مدار خیبر پختونخوا سے حاصل ہونے والی افرادی قوت پر رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ خیبر پختونخوا پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریکوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ تاہم موجودہ صورتحال ماضی سے بہت مختلف ہے۔ 26 نومبر کو خیبرپختونخوا کے سینکڑوں شہریوں کو جلائو گھیرائو اور توڑ پھوڑ کے الزامات پر گرفتار کیا گیا‘ جن کی اکثریت تاحال پابندِ سلاسل ہے۔ ان کارکنوں کے خاندانوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے کیونکہ ان کے بقول‘ قیادت نے ان کے بچوں کو میدان میں اکیلا چھوڑ دیا اور خود فرار ہو گئی جبکہ ان کے پیارے اب تک جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔ یہ احساس اور بیچارگی‘ قیادت پر اعتماد کی کمی اور اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہونا‘ ان سب سے خیبر پختونخوا کے عوام میں شدید مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ خاصا مشکل ہو گا کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا سے وہ جوش و ولولہ اور افرادی قوت حاصل کر سکے جو ماضی میں اس کی احتجاجی تحریکوں کی جان تھی۔ کیا پی ٹی آئی اس عوامی عدم اعتماد کو دور کر پائے گی‘ یہ ایک چیلنج ہے جو اس کے سامنے کھڑا ہے۔
سینیٹر علی ظفر کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت وکلا کے ساتھ مشاورت کے بعد احتجاجی تحریک کا جامع منصوبہ تیار کرے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اس تحریک کو لے کر بہت سنجیدہ ہیں اور ان کے بقول یہ ایک ایسی تحریک ہو گی جو پہلے کبھی نہیں چلی‘ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پی ٹی آئی احتجاجی تحریک کب شروع کرے گی اور اس کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان حکومت پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب حکومت کی پوزیشن مضبوط دکھائی دے رہی ہے‘ کیا وہ سیاسی دبائو بڑھانے میں کامیاب ہو ں گے؟ احتجاجی تحریکوں کی کامیابی کی بنیاد اکثر حکومت کی کمزور پوزیشن پر منحصر ہوتی ہے مگر موجودہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اس وقت حکومت مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ پاک بھارت جنگ میں کامیابی کے بعد قوم کا حکومت پر اعتماد بڑھا ہے جس سے حکومتی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ معاشی صورتحال میں بھی بہتری سے حکومت کی مقبولیت بڑھی ہے۔ یہ عوامل یعنی داخلی سکیورٹی اور معاشی استحکام حکومت کے لیے مضبوط ستون ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے لیے احتجاج کی شمع روشن کرنا‘ جب ہوا کا رخ مخالف سمت میں ہو‘ نہ صرف بے سود ہو گا بلکہ اس کے سیاسی مستقبل کو بھی مشکل بنا سکتا ہے۔ کیا پی ٹی آئی اس بدلتے سیاسی موسم میں اپنی کشتی کو پار لگا پائے گی؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں