پاکستان تحریک انصاف نے 22جون کو عمران خان کی رہائی کے مطالبے کے ساتھ ملک گیر احتجاج اور مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے۔ مذکورہ تاریخ قریب آ چکی ہے‘ تاہم کسی سطح پر احتجاج کی تیاریاں دکھائی دے رہی ہیں نہ ہی یہ انتہائی گرم مہینہ احتجاج کیلئے موزوں ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کارکنوں سے ہر تحصیل اور ضلع سے احتجاج میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ ان کے بیانات نے احتجاج کی نوعیت کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ علی امین گنڈا پور نے اس بار زیادہ طاقت اور ہتھیاروں کے ساتھ نکلنے اور اڈیالا جانے کی بات کی ہے‘ پُرامن نہ رہنے اور مزاحمت کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ پُرامن تھے تو ان کے کارکنوں کو شہید کیا گیا‘ اب اگر انہیں ڈنڈا مارا گیا تو وہ بھی ڈنڈا ماریں گے اور گولی کا جواب گولی سے دیں گے۔ یہ بیانات بلاشبہ ملک میں ایک نئی سیاسی کشیدگی کی علامت ہیں۔ ہم نے انہی سطور میں لکھا تھا کہ احتجاج کی کامیابی کے لیے وقت کا انتخاب نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر احتجاج کے لیے وقت کا انتخاب ہی درست نہ ہو تو اس کی کامیابی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاج کا اعلان ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے جس کے سفارتی اثرات اب بھی موجود ہیں کیونکہ سفارتی سطح پر اب بھی جنگ جاری ہے۔ مزید برآں ہمارے پڑوس میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ ی ہوئی ہے۔ دونوں جانب سے روزانہ کی بنیاد پر حملے ہو رہے ہیں۔ ایران سے سرحد متصل ہونے کے سبب پاکستان قطعی طور پر اس جنگ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس کے علاقائی اور بین الاقوامی مضمرات پاکستان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ پاک بھارت جنگ میں اسرائیل نے خفیہ طریقے سے بھارت کے ہاتھ مضبوط کیے تھے۔ اسرائیل کا پاکستان سے متعلق کیا مؤقف ہے یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا چودہ سال پرانا ایک انٹرویو وائرل ہے جس میں وہ ایران اور پاکستان دونوں کو اسرائیل کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اس انٹرویو میں نیتن یاہو نے خاص طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پاکستان کو جوہری طاقت بننے سے روکنے میں ناکام رہا‘ تاہم وہ اب ماضی کی اس غلطی کو دہرانے سے گریز کریں گے اور ایران کو کسی بھی صورت ایٹمی قوت نہیں بننے دیں گے۔ ایسے نامساعد حالات میں پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کا اعلان کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی اپنے قائد کی رہائی کے لیے پُرزور جدوجہد بلاشبہ ان کا حق ہے۔ جمہوری معاشرے میں ہر شہری اور سیاسی رہنما کو اپنے مطالبات کے لیے پُرامن اور قانونی دائرے میں رہ کر آواز اٹھانے کی آزادی ہوتی ہے‘ اسی لیے ان اقدامات کی ہر سطح پر پذیرائی بھی کی جاتی ہے۔ جب پرویز مشرف کے زمانے میں شریف خاندان پر مقدمات بنائے گئے تھے تو بیگم کلثوم نواز جرأت و بہادری کے ساتھ سامنے آئیں۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی میں صدرِ مملکت کی ہمشیرہ فریال تالپور کی سیاست میں آمد ہی اس وجہ سے ہوئی کیونکہ اُس وقت پارٹی قیادت کے لیے مشکلات تھیں۔ سو پی ٹی آئی کی جدوجہد کے لیے ویسے ہی گنجائش ہو گی جیسے دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے تھی۔ احتجاج جمہوری معاشروں کی پہچان ہے مگر احتجاج بے محل ہو تو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ جمہوری معاشروں میں حکومتی اور پارٹی معاملات کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے جیسا کہ آصف علی زرداری اس وقت صدرِ مملکت ہیں مگر پارٹی معاملات کو بلاول بھٹو دیکھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو مگر یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ علی امین گنڈا پور اس وقت خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں‘ یہ آئینی منصب ہے جس کی کچھ بنیادی حدود و قیود اور ذمہ داریاں ہیں۔ عوام نے علی امین گنڈا پور کو صوبے کی تعمیر و ترقی‘ امن و امان کے قیام اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ ان کی اولین ذمہ داری صوبائی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے عوامی فلاح و بہبود اور انتظامی امور کو احسن طریقے سے چلانا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ اپنی آئینی اور انتظامی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر محض سیاسی مصروفیات بالخصوص احتجاج اور دھمکی آمیز بیانات کو ترجیح دیں گے تو یہ نہ صرف صوبے کے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دے گا بلکہ ترقیاتی منصوبے بھی تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کی رہائی ایک قانونی معاملہ ہے اور اس کا حل قانونی دائرے میں رہ کر ہی ممکن ہے۔ دھمکیوں اور تشدد پر مبنی بیانات نہ تو اس عمل کو تیز کر سکتے ہیں اور نہ ہی ریاست اتنی کمزور ہے کہ وہ ایسے دباؤ میں آ کر قانونی معاملات پر کوئی فیصلہ کرے۔ ریاست اپنے قوانین اور اداروں کے ذریعے ہی کام کرتی ہے اور کسی بھی قسم کی دھمکی یا دباؤ ریاستی مشینری کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ اس سے نہ صرف سیاسی کشیدگی بڑھے گی بلکہ صوبے کے مجموعی حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں جس کا براہِ راست خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ اس لیے علی امین گنڈا پور کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے وزارتِ اعلیٰ کے منصب کے تقاضوں کا بھی خیال رکھیں اور صوبے کے بہترین مفاد میں اپنی توجہ انتظامی امور پر مرکوز کریں۔
علی امین گنڈا پور کے حالیہ بیانات کہ اگر ڈنڈا مارو گے تو ڈنڈا ماریں گے‘ گولی مارو گے تو گولی کا حساب گولی سے ہو گا‘ انتہائی تشویشناک ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ قوم کو کس خطرناک سمت لے جا رہے ہیں۔ سیاسی جدوجہد میں گرفتاریاں اور جیلیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ درحقیقت یہ جمہوری عمل کا لازمی حصہ ہیں جسے سیاسی کارکنان اکثر اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں رہنماؤں اور کارکنوں نے اپنے نظریات کی خاطر صعوبتیں برداشت کیں‘ لیکن ان کی جدوجہد پُرامن اور قانونی دائرے میں رہ کر ہی کامیاب ہوئی۔ کیا علی امین گنڈا پور بھول گئے ہیں کہ نو مئی کا سانحہ ایسے ہی جذباتی اور اشتعال انگیز بیانات کا براہِ راست نتیجہ تھا؟ جس میں ریاستی اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ پی ٹی آئی تاحال اس سانحے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور اس کے منفی اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف پارٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ ہزاروں کارکنوں کی گرفتاریوں اور مقدمات کا باعث بھی بنا۔ ایسے بیانات ایک بار پھر ملک کو اسی قسم کے سانحے سے دوچار کر سکتے ہیں جہاں تشدد اور تصادم کا راستہ اپنایا جائے گا۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہونے کے ناتے علی امین گنڈا پور کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھیں۔ لوگوں کو پُرامن رہنے کی ترغیب دیں اور آئینی و قانونی راستے اختیار کریں۔ اشتعال انگیزی اور تشدد کی دھمکیاں کسی بھی صورت میں ملکی سلامتی اور عوامی فلاح کے حق میں نہیں ہیں۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی جدوجہد کا مقصد تعمیر ہے نہ کہ تخریب۔ پُرامن مزاحمت ہی حقیقی کامیابی کی ضامن ہے۔