ہزاروں کہانیاں ہیں؛ اور برسوں کا مشاہدہ۔ سب المناک، دکھ درد سے لبریز۔ سن، پڑھ اور دیکھ کر آنکھیںبھیگ جاتی ہیں ۔ کوئی بے رحم دل ہی خاموش رہ سکتا ہے۔ ویسے تو روزانہ اخباروں میں دلگداز خبریں پڑھتے ہیں کہ باپ، بھائی یا خاوند نے کوئی الزام لگاکر، عزت کے نام پرکسی خاتون کو قتل کردیا۔ کچھ علاقوں میںتو منڈیاں لگاکرلڑکیوں کی خریدو فروخت نئی تجارت بن چکی ہے ۔ کئی برس پہلے جسموں کی بین الاقوامی تجارت میں ملوث گروہ بنگلہ دیش سے بھارت کے راستے غریب،بے بس نوجوان عورتوں کو ملازمت کا جھانسہ دے کر دوسرے خطوں میں لاتے اور فروخت کردیتے تھے۔ یہ سنی سنائی باتیں نہیں، مشاہدہ ہے ۔ بہت سوں کو بچوں سے محروم کرکے کسی اور ٹھکانے پر پہنچا کر غلامی کی زنجیر پہنا دی گئی۔ آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہم سب بے بس ہیں۔ دم گھٹنے لگتا ہے، روح بے دم لگتی ہے ۔ اکثر لوگ اپنے اپنے طور پر ان واقعات کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن چپ سادھ لیتے ہیں۔ ان مظالم کے پیچھے بااثر افراد ہوتے ہیں۔ مگر کہاں ہیں ہماری پولیس، عوامی نمائندے، مذہبی مصلح ، بیرونی امداد پر پلنے والے نام نہاد سماجی کارکن ؟ کوئی تو زبان کھولے ۔ ہمارا سماجی نظام فرسودہ ہوچکا۔ حرص، لالچ، دغابازی، ہوس ِ زر کا غلبہ ہے۔ اچھائی اور برائی کے درمیان فرق مٹ چکا ۔
کئی ماہ سے ذہن میں لاوہ ساپک رہا تھا کہ اس موضوع پر بات کی جائے۔ ایک ایسی ہی کہانی کا کئی برسوں سے گواہ ہوں۔ کم و بیش چار عشروں سے ۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہم پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے طالب علم تھے۔ بہت سوں سے ہم بچھڑ چکے ہیں، لیکن جو زندہ سلامت ہیں، اُن میں سے اکثر سے رابطہ رہتا ہے ۔ یہ خاتون ہمارے قریب ترین دوستوں میں سے ہے۔ اب بھی فون پر بات چیت ہوجاتی ہے ۔ لیکن تبادلہ ٔ خیال دلخراش ہوتا ہے ۔ اُس کے خلاف ظلم کی کوئی ایک نہیں، کئی داستانیں ہیں۔ میاں بیوی بینک کی نوکری کرتے تھے، لیکن ''سنہری ہاتھ ملائو‘‘ سکیم میں سترہ سال پہلے ملازمت کھو بیٹھے۔ جو ملا تعلیم ، صحت اورشادی بیاہ کی الجھنوں میں برباد کر ڈالا۔ آج نہ گھر، نہ کوئی ذریعہ معاش، صرف دو افراد کی گزر اوقات کے لیے ماہانہ اُسے کچھ بھیج دیتے ہیں۔ کہہ رہی تھیں کہ عرصہ ہوا، کبھی کسی نے نئے کپڑے نہیں بنوائے ۔ کچھ عورتیں اُسے پرانے کپڑے بطور خیرات بھیج دیتی ہیں۔
اُس کے زمیندار باپ نے صرف ایک ایکڑ اراضی جنوبی پنجاب کے زرعی علاقے میں اُس کے نام کی تھی، لیکن اُس نے دو بھائیوں میں سے ایک کو بطور تحفہ دے دی۔ ان باتوں میں ممکن ہے کہ قارئین کو کوئی غیر معمولی بات دکھائی نہ دے، کہ آخر دکھ بھری کہانی ہے کیا ؟ دراصل زمیندار خاندانوں میں بیٹیوں کا حق مارنے اور زرعی زمین سے محروم رکھنے کی مکروہ روایت ہے۔ اس خاتون کے باپ نے اپنی سینکڑوں ایکڑ زمین میں سے اپنی تین یا چار بیٹیوں کو ایک ایک ایکڑ دے کر فارغ کردیا۔ باقی زمین اپنی زندگی میں ہی دو بیٹوں کی ملکیت میں دے دی۔ اب سفاک بھائی کسی بھی بہن کو کچھ نہیں دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بہن کسمپرسی کی زندگی بسر کررہی ہے۔ اُس کی کفالت تو ایک طرف، اگر وہ محض عشر اور زکوٰۃ کی رقم ہی اُسے دیتے تو اُس کا آسانی سے گزارہ ہوسکتا تھا۔ مگر ہم میں سے کتنے افراد واجب زکوٰۃ اور عشر ادا کرتے ہیں؟ اُس کا والد روایتی سوچ رکھنے والا زمیندار تھا کہ بیٹیوں کا بس ہاتھ پیلا کرکے گھر سے رخصت کردیں، اور پھر محض دعا کرتے رہیں۔ اگر یہ خاتون بھی اپنے حصے کی زرعی اراضی کی مالک ہوتی تو یوں دربدر کی ٹھوکریں نہ کھا رہی ہوتی۔
لیکن یہ کوئی نادر اور غیرمعمولی کہانی نہیں ؛ پاکستان کی ہزاروں ، بلکہ لاکھوں عورتوں کی یہی کہانی ہے ۔ بڑے زمیندار خاندانوں کو جانتاہوں اور کم درجے والوں کو بھی ۔ سب اس بات کا اہتمام اپنی زندگی میں کر جاتے ہیں کہ بیٹیوں کے نام زمین کی ملکیت نہ ہونے پائے ۔ زندگی میں اس لیے کہ مرنے کے بعد قانون ِوراثت پر عمل ہوگا اور بچیاں اپنے حصے کا مطالبہ کریں گی ۔ اگر زمین کئی گھروں میں بٹ گئی تو خاندان کی شان و شوکت، عیش و عشرت اور جاہ و عظمت کو زک پہنچے گی۔ کئی گھرانوں میں تو بیٹی کی محض اسی لیے شادی نہیں کی جاتی کہ کہیں اپنے گھر بسانے کے بعدزمین کا حصہ نہ مانگ لے ۔ نہ جانے کتنی بیٹیاں گھر کی چار دیواری میں ساری زندگی قید ِ تنہائی کاٹ کر دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں۔ گھروں کی دیواریں بہت اونچی ہیں؛ پہرہ بہت سخت ہے، نہ کوئی اُن کے آنسو دیکھ سکتا ہے، نہ آہ سن سکتا ہے ۔ جب دھیان اُس طرف جاتا ہے تو مجھے اپنی بیٹیاں معلوم ہوتی ہیں۔ اُن کے دل سے سوال تو نکلتا ہوگا کہ آخر ہمارا جرم کیا تھا جو ا ﷲ نے ہمیں بیٹیاں پیداکیا !
قارئین کرام، یہ افسانے نہیں، کہانی در کہانی سیریل نہیں، بلکہ ہمارے سماج ، ہر گائوں، شہر اور ملک کے کونے کونے میں پھیلی حقیقتیں ہیں۔ کڑوی کسیلی ، نوکدار۔ دل میں خیال اٹھتا ہے کہ کیا ہم سب اس کے ذمہ دار نہیں ؟ اسی ملک پر جمہورپسندوں نے بھی حکومت کی اور طاقتور فوجی آمروں نے بھی ۔ لیکن کیا کسی نے سماجی اور معاشرتی اصلاح کی کہ عورتوں کے خلاف مظالم ختم ہوں ؟اُنہیں مساوی حقوق ملیں ؟ اور مذہب کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کے وہی عزائم ہیں جو سیاست دانوں کے ۔ اقتدار، طاقت اور دولت کا حصول، انعامات کی بارش، ''روحانی‘‘ توقعات کی فراوانی۔ تو کون آواز اٹھائے ، کون سماجی جنگیں لڑے؟ کاش ہماری سماجی تحریکیں سیاست اور اقتدار سے آلودہ نہ ہوتیں۔
عورتوں کے خلاف سماج میں مظالم اس سے کہیں زیادہ ہیں جو بیان کیے جاتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ معاشرے میں کیا کچھ نہیں ہورہا۔ متوسط طبقے کے زمیندار ، حقے کے کش لگاتے،سامنے بیٹھے افراد کو بتاتے رہتے ہیں کہ عورت ذات کا زمینوں سے کیا واسطہ؟ بس وہ گھر بسائیں، اور خوش رہیں۔ لیکن اگر اُن پر برا وقت پڑا تو وہ کس کے دورازے پر دستک دیں؟ بڑے بڑے سیاسی زمینداروں کی بات ہی اور ہے ۔وہ تو بہت دھڑلے سے کہتے ہیں کہ ہم عورتوں کو زمین میں حصہ نہیں دیتے؛ ہمارے علاقے کا تو رواج ہی یہی ہے ۔ لعنت ہے ایسے رواجوں پر جوظلم اور ناانصافی کا موجب بنیں۔ یہ لب و لہجہ مرد کی حاکمیت کے معاشرے کی مخصوص پہچان ہے ۔ وہ عورت کو بس اس کے ''اصل مقام ‘‘ پر رکھنا چاہتے ہیں۔
بات ایک خاتون سے چلی تھی۔ ایک کہانی، جو اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ جاتی ہے ۔ جواب کہاں سے ڈھونڈیں۔وہ محترمہ بے بسی کے عالم میں مجھے فون کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ کئی سالوں سے سن رہا ہوں، ایسا لگتا ہے کہ کوئی انسان نہیں، برقی پٹی میں محفوظ آواز سنائی دیتی ہے ۔وہ جملے ، وہی دکھ کی کیفیت، وہی ناامیدی۔ میں اُس کی کیا مدد کرسکتا ہوں؛ وہ دل کا کچھ بوجھ ہلکا کرلیتی ہے ۔ اکثر پوچھتی ہے کہ کیا ملک کے نظام عدل کو متوجہ کر سکتا ہوں؟ کیاکوئی ایسا قانون ہے جو کچھ اُس کا باپ کرگیا، اُس ناانصافی کا کوئی ازالہ ہوسکے ؟ وہ پوچھتی ہے کہ کیا کسی وکیل سے مشورہ کرسکتا ہوںکہ اگر وہ اپنے بھائیوںکے خلاف مقدمہ کریں تو کیا اُسے اپنا حق مل سکتا ہے ؟ جو ایکڑ اُس نے اپنے بھائی کو ''تحفے ‘‘ میں دے دیا تھا، وہ اب نوے لاکھ میں بیچ رہا ہے کیونکہ وہ برلب ِ سڑک ہے ۔ اُس نے بھائی سے کہاکہ اس کا ایک چوتھائی اُسے دے دے، تو اُس نے صاف انکار کردیا۔ بلکہ اُس نے وہ ایکڑ اپنی بیوی کے نام کردیا کہ تا کہ وہ تقاضا ہی نہ کرسکے ۔ اب وہ کہتی ہے کہ میرے پاس کوئی دوائی نہیں، بلڈ پریشر ہے، شوگر ہے، اب تو چلنا محال ہے ، پتہ نہیں کل کیاہو۔ تم میرے کلاس فیلو اور خاندانی دوست ہو۔ میرے لیے کیا کرسکتے ہو۔ کیا کسی سے فریاد کی جاسکتی ہے ؟