"RBC" (space) message & send to 7575

نہ سن نہ ہی سمجھ رہے ہیں!

ہمارا یہ المیہ تو دہائیوں سے ہے‘ مگر مغرب کی پختہ جمہوریتوں میں بھی حال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ نہ تو حکومتیں اور نہ ہی حکمران جماعتیں اور برسر اقتدار ٹولے اور گروہ عوام کی آواز سن رہے ہیں۔ آواز پہلے تو ایک نہیں ہوتی‘ ہم آہنگی مفقود ہے‘ بے شمار مطالبات‘ خواہشات اور توقعات کی صورت میں سماجی اور سیاسی افق پر تواتر کے ساتھ اٹھتے رہتے ہیں۔ کبھی کم اور کبھی زیادہ‘ شور برپا ہوتا رہتا ہے۔ جب مایوسی کے بادل گہرے ہو جائیں‘ بد دلی پھیل جائے اور حالات خراب ہو جائیں تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اگر کوئی سیاست دان اور سربراہِ حکومت بات سننے کی طرف مائل ہو اور اپنی استعداد اور ملکی وسائل کی دستیابی کے تناظر میں بر وقت فیصلے کر کے مسائل کا حل تلاش کرتا رہے تو یہ آوازیں مدہم پڑ جاتی ہیں۔ سیاست کا مزاج ہی ایسا ہے کہ آپ جو کچھ اچھا کر گزریں‘ عوامی سطح پر کچھ نہ کچھ شور اٹھتا رہتا ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر سمت لوگ اپنی اپنی حکومتوں سے ناخوش ہیں‘ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ غصے میں بپھرے ہوئے ہیں۔ کون سا ایسا ملک ہے‘ جہاں عوام احتجاج نہیں کر رہے۔ جمہوریت میں تو یہ روایت بہت مضبوط اور مستحکم ہے‘ مگر مشاہدہ ہے کہ ان ممالک میں بھی‘ جہاں آواز اٹھانے کی سزا سڑکوں پر گولی ہو سکتی ہے‘ لوگ باہر نکلتے ہیں اور کچھ نے تو گھٹے ہوئے ماحول میں زندہ رہنے پر موت کو ترجیح دی ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے یہ بری خبریں ہم روزانہ دیکھ اور سن رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے‘ اور عوام اپنے موجود سیاسی نظاموں میں مسائل کا حل تلاش کرنے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ انہیں انصاف کیوں نہیں مل رہا‘ حکومتوں کی کارکردگی پر اطمینان کیوں نہیں‘ حقوق کیوں نہیں مل رہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں‘ جن کا جواب تلاش کرنا حتمی طور پر تو شاید ممکن نہیں‘ مگر محنت کرنا سب حلقوں میں ضروری ہے۔ کسی حکمران یا دانشور کو اس ذمہ داری سے کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ کوئی بھی حکومت عوام کے غیظ و غضب کے سامنے پائوں ٹکا کر زیادہ دیر تک کھڑی نہیں رہ سکتی۔ بڑے بڑے مغرور‘ ظالم اور جابر حکمرانوں کو اچانک گرتے دیکھا ہے۔ کچھ نے سب کچھ دائو پر لگا کر آخری دم تک مقابلہ کرنے کی کوشش کی‘ مگر بازی ایسی ہزیمت سے ہارے کہ تاریخ میں مثال بن کر رہ گئے۔ کس کس کا یہاں ذکر کروں۔ شاہِ ایران ہوں یا مسولینی‘ نیکولائی چائوشسکو یا لیبیا کے معمر قذافی‘ فلپائن کے مارکوس ہوں یا مصر کے حسنی مبارک‘ سب بہت طاقتور تھے۔ سب ان کے اشاروں پر چلتے تھے۔ سب کچھ دھڑام سے ایسا گرا کہ ان کے بتوں سے فقط خاک کے کچھ ہلکے بادل اٹھے اور سب کچھ زمین بوس ہو گیا۔
جمہوریت اس لئے ضروری ہے کہ اقتدار ایک معینہ مدت کے لئے ہوتا ہے۔ دوسرے‘ عوام حکومت یا حکمران کو ووٹ کے ذریعے اقتدار میں لاتے ہیں‘ تو اسی ووٹ کے ذریعے وہ اقتدار چھین بھی لیتے ہیں۔ جنہوں نے جمہوریت کے ساتھ مذاق کیا اور انتخابات میں گڑ بڑ کر کے مصنوعی ''عوامی‘‘ تائید کا تاج سر پر سجایا تو وہ بھی اتارنا پڑا۔ ایک نہیں‘ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں‘ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو تاریخ کو سامنے رکھ کر آج کی سیاست اور سیاست دانوں کے رویوں کو پرکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ 
پہلے عرض کیا کہ اس وقت معاملہ صرف آمریت‘ نیم جمہوری حکومتوں کا نہیں بلکہ ساری دنیا اس کی لپیٹ میں نظر آتی ہے۔ وبا کو پھیلے تو چند ماہ ہوئے ہیں‘ مگر زندگی کے ہر شعبے میں مغرب ہو یا مشرق‘ شمال ہو یا جنوب‘ اضطراب اور عدم استحکام کی فضا پہلے ہی قائم ہو چکی تھی۔ کہیں مسئلہ اکثریت کا جابرانہ تسلط ہے تو کہیں نسلی برتری اور تشدد کی روایت‘ کہیں معیشت اور حکومت کی ناکامی‘ تو کہیں تیزی سے پھیلتی نئی معیشت سے بے روزگاروں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ احتجاج کا موجب بن رہا ہے۔ میرے نزدیک نہ تو موجودہ سیاسی نظاموں میں سے کوئی بنیادی نقص ہے اور نہ عوام جنونی ہو چلے ہیں۔ دونوں میں روایتی اور مسلسل روابط ختم ہو چکے ہیں یا کمزور۔ آپ سوچیں گے کہ روابط کے بغیر لوگ ہماری اسمبلیوں یا امریکی کانگریس کے لئے منتخب ہو جاتے ہیں؟ آج کے میڈیا کا پھیلائو ایسا ہے کہ فوراً سرکار کی آواز عوام تک پہنچ جاتی ہے‘ منٹوں میں۔ سوال یہ ہے کہ پھر رابطہ کیسے ٹوٹا؟ آج کے دور میں زیادہ باتیں صرف حکومتوں کی جانب سے کی جا رہی ہیں‘ اور عوام صرف سن ہی رہے ہیں‘ اور وہ بھی ایسے کہ جب حکمران بات کرنے کے لئے منہ کھولتے ہیں تو وہ اگر چینل بند نہیں کرتے تو دھیان دوسری طرف کر لیتے ہیں‘ یقین نہیں کرتے اور نہ ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہی حال حزب اختلاف کی سابق اور موجود ہ سیاسی جماعتوں کا ہے‘ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہر جگہ وہ اپنا اعتبار کھو چکی ہیں۔ 
پہلے بھی کسی کالم میں ذکر کیا تھا اور اعادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حکومتوں پر عوام کا اعتماد کمزور پڑ چکا ہے۔ سیاست اور سیاست دانوں کی وہ قدر و منزلت نہیں رہی‘ جو کسی زمانے میں تھی۔ سب کو برابر اور ایک جیسا ہی سمجھا جانے لگا ہے۔ جب سے نظریاتی سیاست نے دم توڑا ہے اور درمیانی راستے اور عملیت پسندی نے اس کی جگہ لی ہے‘مغرب میں زیادہ تر وقت اس بات پر صرف ہوتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت دوسری سے کتنی مختلف ہے۔ فرق ان میں ضرور ہے‘ کہ وہ مختلف مسائل کیلئے ذرا فرق کے ساتھ حل تجویز کرتی ہیں‘ لیکن عوام کی نظر میں ان کیلئے کوئی متبادل صحیح معنوں میں موجود نہیں۔ موجودہ برسر اقتدار سیاسی جماعت نہیں‘ تو اگلی باری حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعت کی‘ باریاں تو وہاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ 
بات لمبی ہو گئی‘ ہمارے ہاں عمران خان صاحب نے تیسری طاقت پیدا کر ہی ڈالی۔ باریاں ختم ہوئیں تو ان کو باری مل گئی۔ کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اقتدار وراثت میں نہیں لیا‘ بیس سال سیاسی جدوجہد کی‘ کرپشن کے خلاف بیانیہ متعارف کرایا اور خصوصاً نوجوانوں کو متحرک کیا۔ پاکستانی سیاست میں یہ مثبت پیش رفت ہے۔ عوام نے اپنا ذہن اور دل ان کیلئے کھول دیا۔ ان کے خلوص اور قومی خدمت کے جذبے پر یقین پہلے ہی بہت مضبوط تھا۔ اگر کوئی ہچکچاہٹ تھی تو یہ کہ کرکٹ کے میدان کا کھلاڑی سیاست میں بھی بلے بازی کر کے چھکے چوکے لگائے گا‘ یا ٹک ٹک سے صرف وکٹ پر کھڑا رہے گا۔ ایسے خدشات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ دو سال گزر گئے‘ اچھے اور مشکل کچھ فیصلے کر ڈالے ہیں‘ لیکن مزید فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ حزب اختلاف روزِ اول سے نالائقی اور ناتجربہ کاری کے نعرے لگا رہی ہے۔ ان نعروں کی آواز اگر گونج دارہو گئی تو ان پر رہا سہا اعتماد مزید کمزور پڑ جانے کے اندیشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر پنجاب میں معاملات کو کیوں روا رکھا جا رہا ہے۔ صرف نالائقی نہیں‘ نوکر شاہی میں منظم کرپشن کا بازار بھی گرم ہے۔ پنجاب اگر تحریکِ انصاف کے ہاتھ سے نکل گیا‘ تو اگلے انتخابات میں یہ تیسری قوت کسی کام کی نہیں رہے گی۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں‘ اس میں ذاتی مشاہدہ شامل ہے اور عام لوگوں سے کئی ملاقاتیں‘ مختلف مقامات پر‘ اس کی شاہد ہیں۔ پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والا ہر مبصر کم وبیش یہی کہہ رہا ہے کہ کپتان نہ سن رہا ہے اور نہ سمجھ رہا ہے۔ ہم صرف تحریکِ انصاف کو ہی نہیں‘ سب سیاسی جماعتوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں کہ جمہوری سیاست ان کی سنجیدگی‘ دیانت داری اور کارکردگی کے بغیر ممکن نہیں۔ نہیں سنیں گے تو متبادل نکل ہی آتے ہیں۔ خلا کبھی نہیں رہتا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں