"RBC" (space) message & send to 7575

جانے کہاں گئے وہ دن!

عید آئی اور چند دن فرصت کے ملے تو ماضی کے دریچے میں دیر تک جھانکتا رہا۔ کئی شامیں بیت گئی ہیں لیکن یادوں کی وادی سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ دل وہیں قیام رکھنے پر مصر ہے۔ یہ میری نہیں‘ میری نسل اور عمر سے تعلق رکھنے والے سبھی افراد کی کیفیت ہے۔ زندگی بدل چکی‘ ماحول تبدیل ہو گیا‘ اور ارد گرد رہنے والے سب قریبی جب اڑنے کے قابل ہوئے تو اپنی اپنی منزلوں کی طرف چل نکلے۔ سب کے ٹھکانے اب دور ہی ہیں۔ عید اب وہ عید نہیں رہی‘ جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ قربانی کا جانور تلاش کرنے کئی دفعہ مختلف منڈیوں میں جاتے اور دوسرے یا تیسرے چکر پر کچھ نہ کچھ گھر لے آتے۔ ان کا کام وہاں ختم ہو جاتا اور پھر ان کی دیکھ بھال کرنے والے خوب کھلاتے پلاتے‘ سیر کراتے‘ ایسے جیسے کہ ایک نیا کھلونا انہیں مل گیا ہو۔ ان کی اس کے ساتھ دوستی اور محبت عید کے دن ایک اور رنگ میں تبدیل ہو جاتی‘ کھلونا قربان کرنا ہی پڑتا۔ کچھ دن مجھے اداسی سی چھائی نظر آتی۔ چونکہ ہر طرف یہی ماحول ہوتا‘ سب کچھ ایک جیسا‘ تو ہماری نئی نسل صدیوں سے جاری اس مذہبی اور تہذیبی روایت سے مانوس ہو جاتی‘ اور پھر وہ دن بھی آتا جب اس روایت کو برقرار رکھنے کے لئے خود میدان میں اترتے‘ اور خود منڈیوں میں جا کر اپنے بچوں کے لئے کھلونے تلاش کرتے ہیں۔
ایسے گھروں میں جہاں کل آبادی صرف دو افراد پر مشتمل ہے‘ ماضی میں جھانکتے رہنا اور گزرے دنوں کی یادوں میں کھوئے رہنا فطری سی بات ہے۔ اس وبا کے دوران ماضی میں کھو جانے پر مغرب میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ماہرین نفسیات و سماجیات کا کہنا ہے کہ جب انسان حال کی بحرانی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے تو اس اضطرابی کیفیت میں خوشگوار یادوں میں پناہ لیتا ہے‘ یا پھر ایک ایسے مستقبل کے خوابوں کے تانے بانے بُنتا ہے جس کا وقتِ موجود کی تلخ حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ماضی بھی خواب کی صورت آنکھوں اور دلوں میں زندہ رہتا ہے‘ مگر شرط یہ ہے کہ وقت اچھا گزرا ہو۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو بھی ہماری جبلت صرف ان لمحوں کو محفوظ کرتی ہے‘ جن میں انسان بار بار یا ہمیشہ رہنے کی تمنا میں تڑپتا رہتا ہے۔ عید کے دن تو بس ایسے ہی ہوتے ہیں کہ کچھ دن ان دنوں کی خیالی سیر کرتے ہیں‘ جب اپنے والدین کی خدمت میں حاضر ہوتے کہ وہ انتظار میں رہتے تھے۔ وہ وقت بیت چکا۔ اب وہ نہیں رہے‘ اپنی آخری منزل کی طرف نئی دنیا میں بس چکے۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان سے ملنے جانے کی کیا کشش ہوا کرتی تھی کہ مہینوں پہلے پروگرام ترتیب دیا جاتا؛ اگرچہ اس وقت سفر کا واحد آرام دہ ذریعہ ٹرین ہی تھی‘ اور تقریباً چوبیس گھنٹوں میں دو ٹرینیں تبدیل کرنے کے بعد ہی ہم اپنی بستی میں پہنچ پاتے تھے‘ لیکن قدم دہلیز پر رکھتے ہی سب تھکن دور ہو جاتی۔ خاندان‘ ماں باپ‘ بہن بھائی اور قریبی رشتے دار قدرت کا انسان کے لئے کیا انمول تحفہ اور نفسیاتی حصار ہوتے ہیں کہ وہاں محبت ہی محبت‘ ایثار ہی ایثار اور ایسی شفقت ہے کہ زندگی کے سب غم خفیف دھویں کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جائیں۔ ہزارہا برسوں سے انسان اپنے قریبی گروہ میں رہنے اور اس میں آسودگی حاصل کرنے کا عادی ہے۔ جدید دور میں کنبے کی ہیئت اور حیثیت تبدیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے‘ خصوصاً مغرب کے صنفی معاشروں میں‘ مگر ابھی تک ہم روایتی تہذیبی دائرے میں زندگی گزارتے ہیں۔ وقت کے ساتھ شاید یہ سب کچھ تبدیل ہو جائے‘ بلکہ یقینی ہی سمجھئے کہ ہو جائے گا کیونکہ مغرب بھی کسی زمانے میں ایسا ہی تھا‘ جیسے ہم آج ہیں۔ 
بہت دل چاہتا ہے کہ اس بستی میں جائوں‘ کچھ دن وہاں گزار کر آئوں۔ جاتا تو رہتا ہوں کہ دل اپنا وہیں اٹکا ہوا ہے۔ شہر میں اب سب کچھ ہے‘ بلکہ ساری زندگی ادھر ہی گزار دی‘ مگر ابھی تک وہ قرب‘ وہ سلسلہ نہیں ٹوٹا۔ گائوں سے اُٹھ کر آنے والوں کی عجیب سی کیفیت ہے کہ ساری زندگی اسی حال میں گزار دیتے ہیں۔ ادھر کے ہو نہیں سکتے اور وہاں جا کر رہ سکنے میں عملی دشواریاں ہیں۔ میری نسل کے ان لوگوں کا جذبہ اور کاوش قابلِ تحسین ہے جو شہروں کی سحر انگیزیوں سے آزاد ہوکر اپنی پُرانی بستی میں جا بسے۔ اس ناچیز کا یہ خواب ابھی زندہ ہے۔ اب وقت کا دھارا کچھ زیادہ تیز ہے اور اس کی باگ اپنے ہاتھ میں رہی نہیں۔ جامعہ اور شاگردوں کی بڑی تعداد کو خیرباد کہنے کو جی نہیں چاہتا۔ نصف صدی سے بسائی ہوئی یہ دنیا بھی تو اپنی ہی دنیا ہے۔ اگر قدرت اور قسمت کی طرف سے فیض ملے تو انسان اپنی مختصر زندگی میں کئی دنیائیں بناتا ہے‘ ان میں رہتا ہے‘ اور پھر کسی نئی دنیا کی طرف رواں ہو جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس بارے میں کسی کمی کا احساس نہیں‘ لیکن ان سب دنیائوں میں وہ ابتدا کے دن‘ سال‘ یادیں اور رشتے ہر جگہ ہمارا پیچھا کرتے ہیں۔ میری تو خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ وہ ساتھ ساتھ رہیں۔ ہم میں سے اکثر اسی خواہش میں رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم اس دور میں آئے جب کیمرے کی آنکھ ماضی کے لمحوں کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر سکتی تھی۔ مجھے یاد ہے‘ آج سے بیالیس سال پہلے‘ امریکہ میں تعلیم کے دوران کچھ بچت کی‘ تو سب سے پہلے ایک کیمرا خریدا تھا‘ جو رنگ‘ بہاریں اور یاد گار لمحے تصاویر میں ڈھال دیتا تھا۔ فرصت کے دنوں میں ان تصاویر کو بند لفافوں سے نکالنا اور ان میں کھوئے رہنا ایک عادت سی بن چکی ہے۔ عید کا دن زیادہ تر ایک کونے میں بیٹھ کر تصویروں سے دل ملا کر ان سے باتیں کرتے ہوئے گزارا۔ سوچتا ہوں کہ ایک معمولی کیمرے میں سرمایہ کاری میرے اور میری آنے والی نسلوں کے لئے کتنا بڑا سرمایہ ورثے کی صورت میں محفوظ کرنے کے کام آئی ہے۔ والد اور والدہ صاحبہ کی اکٹھے کئی تصویریں‘ اور وہ ان کی حقے کے کش لگانے والی تصویر تو بچپن کے دن بھی یاد دلاتی ہے‘ جب وہ مجھے حکم دیتے کہ میں ان کے لئے چلم تازہ کروں اور میں اسے اپنے لئے سعادت سمجھتا۔ دیہات سے آئے ہوئے اور اب شہروں میں بسنے والے کم ہی ایسے ہوں گے‘ جو اس سعادت سے محروم رہے ہوں۔ حقے کی بھی اپنی ہی روایت‘ اپنی ہی ایک ثقافت ہے۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
عید کے دن کہیں دور بسنے والوں کی تصویریں بھی دیکھیں اور ان کے ساتھ باتیں بھی کیں‘ اور اب تو یہ سہولتیں موجود ہیں کہ ہم تصویری گفتگو بھی کر سکتے ہیں۔ میرے پڑوس میں رہنے والوں میں سے اکثر دو فردی گھرانے ہیں۔ ایسوں کی تعداد میں گزشتہ دس بیس برسوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ باہر تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہزاروں ہر سال مغرب‘ اور اب چین میں بھی جا رہے ہیں۔ تعلیم کا معیار ہر جگہ یکساں نہیں‘ لیکن عمومی طور پر بہتر ہوا ہے‘ ہمارے دور سے تو کئی گنا بہتر۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مغرب کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمارے بچے وہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ بہت کم واپس آتے ہیں یا آنے کو تیار ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ملک میں قانون نہیں‘ انصاف نہیں‘ ماحول کثیف ہے‘ سیاسی لڑائیاں ہیں‘ بدعنوانی ہے‘ ہماری قیادت نہ تو اہل ہے نہ ہی ایمان دار‘ یہاں آ کر کیا کریں گے؟ ان میں سے اکثر کا خیال اب بھی یہی ہے کہ عمران خان صاحب سے بہتر قیادت اس وقت نہیں مل سکتی۔ باہر مقیم ہماری کامیاب نسل نے کپتان سے بہت امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ ہم بھی اچھے دنوں کے خوابوں میں رہتے ہیں کہ ملک بدل جائے تو وہ سب پیارے ہمارے ساتھ ہی آ بسیں۔ شاید وہ دن لوٹ آئیں‘ آنکھیں ترس چکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں