اس مرتبہ دریائے سندھ کے قریب تو رہا‘ لیکن اس کے کنارے تک نہ جا سکا۔ برسات زیادہ تر شمالی اور مرکزی پنجاب میں جم کر چھم چھم بارش برساتی ہے‘ لیکن سیلاب کا شکار جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ کے چند اضلاع ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ جنوبی پنجاب میں بھی کئی بار بادل برسے ہیں اور ایک طرح سے کئی برسوں کی کسر نکل گئی ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے جانے کی کوشش تو ضرور کی‘ مگر اس موسم میں ہمارے علاقوں میں اس کا کنارہ کہیں نظر نہیں آتا۔ گدو بیراج سے پچاس کلومیٹر شمال تک ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔ دریائے سندھ سب زمینوں اور آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہی کیفیت صوبہ سندھ کے بالائی علاقوں میں ہوتی ہے۔ یہاں کے زمیندار ہر سال انتظار میں رہتے ہیں کہ دریا میں سیلاب آئے‘ کیونکہ اس سے زمین تازہ ہو جاتی ہے۔ مٹی کے ذرات گلگت بلتستان اور کشمیر کی وادیوں سے بہہ کر آتے اور یہاں بیٹھتے ہیں تو زرخیزی کی ایک تہہ زمین پر بن جاتی ہے۔ صدیوں سے یہ عمل جاری ہے۔ اگرچہ ان زمینوں کی قسمت کا فیصلہ دریا کا رخ‘ کٹائو اور سیلاب کے بعد بننے والے جزیرے کرتے ہیں‘ لیکن زیادہ تر زمیندار فائدے میں رہتے ہیں۔ یہاں اس علاقے میں دو فصلیں اگائی جاتی ہیں‘ گندم اور مونگ۔ جہاں سیلاب کا پانی نہیں پھیلتا‘ وہاں گندم کے علاوہ کپاس اور گنے کی فصل عام ہے۔ اس موسم میں دریا سے کئی ندی نالے‘ جو سردیوں میں خشک رہتے ہیں‘ چل پڑتے ہیں۔ کچھ کے کنارے کھڑے ہوکر نظارہ کیا تو لگا‘ کئی بڑی بڑی موجیں مارتی نہریں چل رہی ہیں۔ کئی جگہوں پر برسات کے بعد چھوٹی بڑی جھیلیں اور تالاب بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ غیرملکی پرندے اکثر سائبیریا کی سردیوں سے محفوظ رہنے کے لئے ان جھیلوں کو ہجرت کے دوران اپنا مسکن بناتے ہیں۔ ملکی پرندے بھی۔
اس مرتبہ کچے کے علاقے میں رحیم یار خان کی طرف سے جانا ہوا۔ ان علاقوں سے نہ جانے کتنی بار پیدل اور بائیسکل پر گزر ہوا ہو گا۔ میٹرک کی تعلیم کے دوران دو سال تک دریائے سندھ کو عبور کرتا رہا۔ گھر دریا کے مغرب میں اور سکول تقریباً تیس میل مشرق میں تھا۔ روزانہ تو نہیں لیکن تقریباً ہر ماہ گھر کا چکر لگاتا تھا۔ راستے میں سب جنگل ہوا کرتے تھے۔ اکثر زمینیں بنجر اور غیر آباد تھیں‘ بس کہیں کہیں مٹر‘ سرسوں اور گندم کے کھیت نظر آتے۔ اب تو سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ میں پچپن سال پہلے کا ذکر کررہا تھا۔ اب دریائی علاقوں سے صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ملتان سکھر موٹروے بن چکی ہے۔ مجھے تو یقین نہیں آتا‘ مگر اب یہ حقیقت ہے کہ ملتان اور سکھر کا فاصلہ میرے آبائی علاقے سے صرف دو گھنٹے کا ہے۔ موٹروے سے اتر کردس منٹ کے بعد کچے کے علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔ انتظامی طور پر یہ خطہ راجن پور کا حصہ ہے؛ اگرچہ یہ رحیم یار خان سے زیادہ قریب ہے۔ انگریز حکومت نے جب رنجیت سنگھ کی پنجاب ریاست کو فتح کیا تو یہ علاقے بھی پنجاب کا حصہ بنے۔ ریاست بہاول پور کے انگریزوں کے ساتھ بہت خوشگوار تعلقات تھے۔ نواب صاحب نے بہت کوشش کی کہ دریائے سندھ کا مغربی حصہ ریاست میں شامل کر لیا جائے‘ لیکن انگریز ایک انچ جگہ بھی دینے کیلئے تیار نہ ہوئے؛ البتہ تالپور میروں کے سندھ کو فتح کیا تو ریاست بہاول پور کی افغان جنگوں میں اعانت کے صلہ میں کوٹ سبزل اور جمال دین والی کے علاقے‘ جہاں سے مخدوم احمد محمود صاحب کے خاندان کی جاگیر ہے‘ ریاست کے حوالے کر دئیے۔
کچے کے علاقے میں زیادہ تر بلوچ قبیلے آباد ہیں‘ تقریباً سب مزاری ہیں۔ بڑے زمیندار بھی وہی ہیں۔ میرے طالب علمی کے زمانے میں یہ زمینیں صرف چراگاہیں ہوا کرتی تھیں۔ کہیںکہیں سیلاب کے بعد گندم کی فصل کاشت کی جاتی تھی۔ زرعی انقلاب اس علاقے میں جہانگیر ترین خان کا مرہون منت ہے۔ یہ تو میرا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ جب تقریباً بیس سال دریا کو عبور کرتا رہا تو اس وقت یہ ساری زمینیں غیرآباد چراگاہیں تھیں۔ ایک روز ایک جگہ کچھ لوگوں کو زمین کی پیمائش کرتے ہوئے دیکھا۔ معلوم ہوا کہ ترین صاحب کی شوگر مل زمینیں ٹھیکے پر حاصل کر رہی ہے۔ اس کے بعد تو بس یہ سمجھیں کہ اس خطے اور یہاں کے زمینداروں کی قسمت ہی بدل گئی۔ آنے جانے کیلئے جہاں ہم پگڈنڈیوں پر سے گرتے پڑتے گزرتے تھے‘ اب وہاں سڑکیں ہیں۔ گنے کی فصل کو مل تک پہنچانے کیلئے پختہ راستے ناگزیر تھے۔ پانی زمین سے نکالنے کیلئے بجلی کی موٹریں لگیں تو علاقہ مکینوں کے گھر بھی روشن ہوگئے۔ وہ بھی وقت میں نے دیکھا ہے کہ اس علاقے میں جانے کیلئے پورا دن درکار ہوتا تھا۔ اس مرتبہ دو گھنٹے سے زیادہ وقت نہ لگا۔
زمینداروں کی خوشحالی حیران کن ہے۔ سب جہانگیر ترین کے گن گاتے ہیں کہ وہ اس پس ماندہ علاقے میں زرعی انقلاب لے کر آئے۔ ظاہر اس میں ان کا اپنا مفاد بھی تھا‘ مگر جب سرمایہ کار سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس کے ثمرات ہرطرف پھیلتے ہیں۔ کہیں زیادہ‘ کہیں کم۔ زیادہ تر لوگ یہاں خوشحال ہی نظر آئے۔ مگر یہ سب کچھ وقتی محسوس ہوتا ہے۔ آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ زمین کے موجودہ ٹکڑے اگلی نسلوں میں بٹ جائیں گے‘ اور زمین کتنا سونا اگلے گی کہ یہ خوشحالی برقرار رہے۔ تعلیم کم ہے‘ ادارے فعال نہیں اور سب بچے سکولوں میں نہیں جا رہے۔ یہ ان پڑھ رہے تو آبادی کا سیلاب موجودہ ترقی اور وسائل پر دبائو ڈالے گا۔ چند دیہات اور کچھ بستیوں سے گزر ہوا اور ان میں سے کچھ میں کچھ وقت گزرا تو ایسا لگا‘ ہر طرف بچوں کے جلوس نکلے ہوئے ہیں۔ ہماری آبادی کی شرحِ افزائش بھارت اور بنگلہ دیش سے دگنی ہے۔ میں ایک محدود علاقے کی بات کررہا ہوں کہ اس طرح بے لگام پھیلائو رہا تو لوگ ماضی کی طرح غربت کی چکی میں پستے رہیں گے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ اب ہماری آبادی ان سے نہ صرف بڑھ چکی ہے بلکہ زیادہ تیزی سے مزید بڑھ رہی ہے۔ نہ جانے کون آئے گا جو سماجی ترقی‘ تعلیم کے فروغ‘ آبادی کے اضافے میں تخفیف اور رشوت ستانی کے خاتمے کو اپنی حکومت کا منشور بنائے گا۔ وہ منشور نہیں جو انتخابات سے چند ماہ پہلے کتابچے کی صورت میں پارٹی کے جھنڈوں کے رنگ سے رنگا جاری کیا جاتا ہے۔ عملی منشور کی بات کر رہا ہوں۔
شہروں سے نکل کر دیہات میں کچھ وقت گزاریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں ہرگز مبالغہ نہیں کر رہا۔ جنوبی پنجاب سے منتخب کردہ حکمران ہوں‘ سندھ سے یا کسی اور علاقے سے‘ ان کا اپنے حلقوں سے تعلق فقط واجبی سا ہے۔ چلیں انہیں چھوڑیں کہ ان کا کام ''قانون سازی‘‘ ہے مگر ضلعی انتظامیہ کیا کرتی ہے؟ صوبے کے حکومتی محکموں کا کیا کردار ہے؟ دیہات میں بہت قصے کہانیاں رشوت‘ بدعنوانی اور لوٹ مار کے سننا پڑتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ وہاں چند روز قیام کے دوران اس تلاش میں رہا کہ کوئی یہ کہہ دے: میں حالات سے مطمئن ہوں۔ زمیندار‘ کاشتکار‘ ان پڑھ اور پڑھے لکھے‘ سب نے شکایتوں کا پلندہ کیوں میرے سامنے رکھا؟ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا مان لینا چاہئے۔ ہر محکمے میں اور ہر سطح پر کچھ دے کر کام بنتا ہے۔ قانون کی عملداری نہ رہے‘ انصاف نہ ملے تو معاشرہ اور حکومت دونوں بے جان ہو جاتے ہیں۔ کچھ یہی کیفیت نظر آتی ہے۔ لوگ رشوت دینے کے بعد شکایت کرنے کیلئے تیار نہیں‘ کام ہو گیا‘ بس ٹھیک ہے‘ اور کیا ضمانت ہے کہ شکایت کرنے پر کوئی کارروائی ہو گی؟کیا کوئی بڑا پکڑا گیا ہے؟ سب بے گناہ ہیں۔