اس بے چاری قوم نے خود سوچنے‘ پرکھنے‘ سمجھنے اور کرنے کی آزادی اور صلاحیت کھو دی ہے۔ بے چاری اور بے چارے وہ ہوتے ہیں‘ جو اپنا راستہ کھو بیٹھیں‘ آگے دیکھنے کی اہلیت اور ادراک کی نعمت سے محروم ہو جائیں‘ اپنی عقل پر خود ہی بھاری پتھر ڈالے رکھیں یا اوروں نے جن کی عقل پر بھاری پتھر ڈال دیے ہوں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اگر عام آدمی اپنی ذاتی زندگی کے لئے دوسروں کی راہبری کا محتاج ہو تو اجتماعی نوعیت کے مسائل کی جانکاری اور ان کے حل کے لئے کیسے اور کس حد تک اس کی قابلیت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ہر شہر‘ قصبے اور دیہات کے گلی محلوں میں نام نہاد مولوی‘ پیر فقیر اور وڈیرے دربار لگائے بیٹھے ہیں‘ جہاں سائلوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اخباروں‘سوشل میڈیا اور ٹیلی وژن میں غریب عوام کے روحانی‘ جسمانی‘ ذہنی‘ نفسیاتی بلکہ ہر قسم کے امراض کا علاج ''مفید مشوروں‘‘ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ سارا معاشرہ ہی بنگالی بابائوں کے جادو کے زیرِ اثر بیمار بھی پڑ رہا ہے اور انہی کے زیرِ علاج بھی رہتا ہے۔ عقل جواب دے جائے‘ خود پر بھروسہ نہ رہے اور اعتماد برقرار نہ رہے تو دوسروں کا سہارا اور ہاتھ تلاش کرنا پسماندہ معاشروں کا شیوہ بن جاتا ہے۔ یہ رویے فطری نہیں‘ اس لئے کہ ہر انسان کو قدرت نے فہم و فراست‘ عقلِ سلیم اور شعور کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں یا سرے سے ارتقائی منزلیں طے ہی نہیں ہو پاتیں‘ نہ ہی کسی قسم کی ترقی ممکن ہوتی ہے اگر انسان کے سینے کو علم کے نور سے منور نہ کیا جائے۔ روشنی ہوتی ہے تو ارد گرد کا ماحول چمک اٹھتا ہے۔ تعلیم ہو گی تو عقل و شعور کا انسانی سرمایہ اپنا جوہر دکھا سکے گا۔
ہمارے اعلیٰ طبقات میں غریب اور ان پڑھ عوام سے دکھاوے کی محبت اور اپنائیت محض سیاسی جلسوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ پچاس اور تیس سال تک اور چار سے چھ بار تک حکومت کرنے والوں سے یہ سوال کرنا جمہوریت کی توہین ہے کہ آپ نے اقتدار میں رہ کر غریب کے بچوں کو تعلیم سے کیوں محروم رکھا؟ ایسا ہرگز نہیں‘ اور ایک طبقے میں تو غریب اور ان پڑھ کے خلاف کسی حد تک سینوں میں چھپی ناگواریت بھی ہے۔ ہمارے ''جدید‘‘ کھاتے پیتے‘ خوش پوش اور مخصوص علاقوں میں مقیم لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ غریب کہیں قریب بھی نہ آئے‘ آئے تو صرف گاڑیاں دھونے‘ گھر صاف کرنے‘ کھانا پکانے اور کوڑا کرکٹ اٹھانے۔ یہ سب آقا اور غلام کا پرانا کھیل ہے جو نئے زمانوں میں نئے طریقوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ چونکہ مدرس اور استاد ہوں؛ چنانچہ یہ جانتا ہوں کہ انسان کی آزادی صرف قانون میں لکھ دینے سے نہیں‘ تعلیم سے ہی ممکن ہو سکے گی۔ معاشی طور پر محتاج ہونا اور فکری راہنمائی کے لئے کسی اور کا سہارا تلاش کرنا کیسے انسان کو آزاد رکھ سکتا ہے؟ یہ کہنا تو کچھ مبالغہ ہو گا کہ ہمارے حکمران طبقوں نے منصوبہ بندی کر کے ہمارے زیادہ تر عوام کو ان پڑھ رکھا ہے؛ تاہم یہ بات تو وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے دل میں غریب کے لئے کوئی درد‘ احساس اور محبت کی کوئی رمق ہوتی تو تہتر سال بعد ہماری خواندگی کی شرح سو فیصد کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟ کچھ نہ کر سکیں تو بے تکے عذر اور بہانے گھڑے جاتے ہیں‘ جو کچھ نہ کرنے سے بھی بد تر فعل ہے۔ باریاں لینے والے فرماتے ہیں: اقتدار کبھی مکمل طور پر منتقل نہیں ہوا‘ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر جانتے بوجھتے ہوئے ایسا اقتدار کیوں لیا‘ جو آپ کو صاف پانی فراہم کرنے‘ سکول کھولنے‘ تعلیم کا معیار بہتر کرنے اور لوگوں کو صحت کی سہولت فراہم کرنے میں بھی رکاوٹ بنا رہا۔
جمہوریت اور آمریت میں فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں سوال اٹھانا جائز بلکہ ضروری ہے۔ آمریت میں اس کی اجازت نہیں ہوتی۔ سوال تو ہم اٹھاتے رہیں گے کہ اب یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ سیاست کے کھیل کے میدان میں اترے کھلاڑیوں کے کرداروں کو ان کے اصلی رنگوں میں کسی خوف اور لالچ کے بغیر پیش کر دینے کا مقصد احتساب اور جواب دہی ہے۔ جب عوام تعلیم اور ترقی کی بدولت کبھی کثرت سے اور ہر گائوں‘ محلے اور جلسے میں سوال اٹھائیں گے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ نسلوں سے ہمارے اوپر اترنے والے موروثی سیاسی کھلاڑی وطن عزیز میں کہیں کونوں میں یا باہر کے ملکوں کی سیر گاہوں میں شاید آپ کو نظر آئیں۔ آزادی کے اولین اور ارتقائی ادوار میں ہم نے دیکھا ہے کہ سوال کرنے والوں کا حشر برا ہوا۔ ان پر الزام لگے‘ قید و بند کی صعوبتیں انہیں برداشت کرنا پڑیں‘ کچھ نے کوڑے بھی اپنی پیٹھ پر برداشت کئے‘ مگر وہ سب ہمارے لئے چراغِ راہ اور ایک روشن مثال ہیں۔ آج حالات قدرے بہتر ہیں‘ مگر فرق یہ ہے کہ آپ سوال پہ سوال کرتے رہیں‘ تبصرے کریں یا تبرے پڑھیں‘ کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی‘ کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ ہر حکومت نے عوامی نمائندگی کا سہارا لے کر سب سوال کرنے والوں کو خاموش کرنے کی ٹھان لی۔ کیا پُر فریب نعرے بازی کا ہم شکار رہے ہیں ''عوام ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر نہایت عجیب عوام ہیں جو ہر سیاسی جماعت کے ساتھ رہے ہیں اور رہتے ہیں۔
یقین جانیں یہ سب فریب کاریاں ہیں‘ دولت اور طاقت کے ارتکاز کی سرمستیاں ہیں۔ سیاست میں خصوصاً مگر ہر میدانِ حیات میں کردار سے لوگ جانے اور پرکھے جاتے ہیں۔ کردار نہ ہو تو سب سرمایہ‘ سب طاقت اور سب اقتدار کے قلعے فقط بے سود مٹی کا ڈھیر ہیں۔ چنائو اور انتخاب کا فلسفہ تو کچھ اور ہے کہ ہم ان لوگوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھائیں‘ جو ہماری نمائندگی کے قابل ہوں‘ مخلص ہوں‘ امانت دار ہوں اور خدمتِ خلق کے جذبے سے ان کے دل معمور ہوں۔ عمل اس فلسفے کے مطابق ہو تو اقوام کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ مغربی معاشرے اس لئے بہترین ہیں کہ وہاں عوام نے ارتقائی شعور کی کئی منزلیں طے کر لی ہیں۔ وہ تجربے‘ تجزیے اور مشاہدے سے کام لیتے ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں غالباً یہ تیسری یا چوتھی بار ہوا ہے کہ صدر اقتدار میں رہتے ہوئے دوبارہ منتخب نہیں ہو سکا۔ ان کے حریف نے پینتالیس لاکھ ووٹ زیادہ لئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی چار سال پہلے کی نسبت اس بار زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل کی ہے۔ جب بے چینی‘ تضادات اور فکرمندی معاشرے میں بڑھتی ہے تو لوگ ''لانگ‘‘ مارچ نہیں کرتے بلکہ بارش اور سردی میں گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہ کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ کی دو سو چالیس سالہ تاریخ میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ابھی تک صدر نے اپنی ہار ماننے سے انکار کیا ہے‘ عدالتوں کا رخ کیا ہے‘ مگر نوشتۂ دیوار بالکل جلی حروف میں تحریر ہے‘ اندھے بھی پڑھ سکتے ہیں۔
مقیم صدر کے ہارنے کی کئی وجوہات ہیں‘ مگر ان کی بد کلامی‘ دروغ گوئی‘ وہ بھی ہمیشہ سینی تان کر‘ دوغلا پن اور بد کرداری امریکہ اور دنیا کے کونے کونے میں جو زبان زدِ عام و خاص رہی‘ نے بالآخر انہیں مسندِ اقتدار سے اچک کر باہر پھینک دیا۔ اپنے حکمرانوں کے کرداروں کی بات کریں۔ نہ وہ جھوٹ بولتے ہیں‘ نہ وہ کرپٹ اور اول درجے کے نکمے ہیں‘ نہ ان کے باہر کے بینکوں میں بھاری کھاتے ہیں اور نہ ہی پانامہ کی گمنام کمپنیوں میں سرمایہ ہے‘ نہ انہوں نے غیر قانونی ترسیلِ زر کی ہے اور نہ اربوں کھربوں کی لوٹ مار کبھی کی ہے۔ دودھ کے دھلے‘ پاک صاف‘ معصوم۔ یہ سب موجودہ حکومت کی الزام تراشیاں ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔ بقول منیر نیازی ''آسیب کا سایہ ہے‘‘۔