ارشد ندیم کی ٹوکیو اولمپکس میں نیزہ بازی کی شاندار کارکردگی نے ویرانوں میں برسات کا کام کر دکھایا ہے۔ سیاسی مایوسیوں اور بیکار کی سیاسی گفتگو کی خوگر قوم کے لیے گزشتہ ہفتے کے وہ لمحے‘ جب ارشد پانچویں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوا‘ ایسے ہی تھے جیسے تاریکیوں میں یکایک آسمان سے خوش رنگ نور پاشی اور گل پاشی ہو رہی ہو۔ دو ہفتوں سے جاری ان تاریخی عالمی مقابلوں میں پاکستان کا جھنڈا کہیں ہمیں نظر نہ آیا۔ ہم نے جن مبارک کاموں میں نام کمایا ہے اس کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ آبادی کے بڑھنے کی رفتار یہی رہی تو اگلی صفوں میں جگہ بنانے میں دیر نہیں لگے گی۔ خیر ان چھوٹی باتوں پر کون سا سیاسی سورما‘ جماعت اور نظریاتی لوگ کان دھرتے ہیں۔ ان کے لیے قوم کو سنوارنے کے لیے بڑے بڑے منصوبے ہیں۔ ایسے میں خاندانی منصوبہ بندی تو کسی کھاتے میں نہیں آتی۔ ہم یہ بات دھراتے تو رہتے ہیں‘ مگر سہم کے‘ اور دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی برا نہ مان جائے۔ اتنی بڑی آبادی میں صرف ایک ارشد ندیم نے ہمارا پرچم ہی نہیں‘ سر بھی بلند کر دیا۔ یہ نوجوان جب میدان میں جھنڈے کے رنگ جسم و جاں پر سجائے نکلا تو کروڑوں پاکستانیوں نے دیکھا۔ شکر ہے کہ ہمارے ٹیلی وژن چینلوں کو نیزہ بازی کا مقابلہ فوری‘ براہ راست نشر کرنے کی توفیق ہوئی۔ ایسے نوجوان اپنا راستہ خود ہموار کرتے ہیں‘ اپنی ہمت سے آگے بڑھتے ہیں اور دیگر نوجوانوں میں امید اور حوصلہ پیدا کرتے ہیں کہ اگر جنوبی پنجاب کے پس ماندہ علاقے میاں چنوں کے ایک گائوں سے اٹھ کر دنیا میں کروڑوں دیکھنے والوں کی نظروں کا مرکز بن کر وطن کا نام روشن کر سکتا ہے تو کوئی بھی پاکستانی نوجوان کھیلوں میں نام کما سکتا ہے۔ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ نیزہ بازی میں ہمارے ملک سے نکل کر کوئی دنیا کے دیگر ممالک کے نامور کھلاڑیوں کی صف میں آ سکتا ہے۔ کہیں اِدھر اُدھرچھوٹی سی خبر چلی کہ ارشد ندیم نے مقابلے کے لیے معیاری حد عبور کر لی ہے‘ تب سے دلچسپی بڑھنے لگی۔ اعلان ہو چکے تھے کہ پورے چار بجے کھیل شروع ہو گا۔ سارا دن انتظار میں گزرا۔ میرے نزدیک کمال کی کارکردگی تھی۔ اگر آپ نے مبصرین کو جاری کھیل پہ ٹوکیو سے بات کرتے سنا ہے تو وہ بہت معترف تھے اور آخری تھرو تک کہہ رہے تھے کہ ارشد ندیم تمغہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں۔ پانچویں پوزیشن اتنے ممالک میں بنا لینا فتح ہی فتح ہے کہ ہاکی اور کرکٹ کے علاوہ کھیل کے دیگر شعبوں میں ہم نام نہیں کما سکے۔ آپ نے مبصرین کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہو گا کہ پاکستان تو کرکٹ کھیلنے والی قوم ہے‘ مگر ٹریک اینڈ فیلڈ کھیلوں میں پہلی بار کوئی پاکستانی نکل کر سامنے آیا اور عالمی سطح پر ابھرا ہے۔
کھیل ہوں یا کوئی اور میدان‘ اگر کوئی شمع لے کر اندھیروں کو چیرتا آگے نکل پڑے تو ہزاروں‘ لاکھوں کے لیے روشنی راستہ بنا ڈالتی ہے۔ مایوس تو ہم کبھی نہ تھے‘ اور نہ مایوسی کی باتیں سننا اور پڑھنا پسند ہے۔ یقین مانیں ان لمحوں نے نوجوانوں کے بارے میں امید کے کئی دریچے کھول دیئے ہیں‘ یا یوں کہیں کہ تمام تاریکیاں چھٹ چکیں‘ میدان روشن ہو چکے‘ اب دیکھیں کتنے اور ارشد نکلتے ہیں‘ کسی کھیل کا انتخاب کر کے مہارت حاصل کرتے ہیں‘ اور صفِ اول میں جگہ بناتے ہیں۔ ذاتی تحریک اور اندر کا جذبہ ہر فرد کو آگے نہیں لے جا سکتا‘ اگر قومی‘ معاشرتی اور اقتصادی ماحول سازگار نہ ہو۔ کھیل کے میدانوں میں آگے بڑھنے کے لیے سماجی اور معاشی ترقی ضروری ہے۔ آج بھی آگے وہی قومیں‘ کم آبادی والی‘ نظر آتی ہیں جنہوں نے معیارِ زندگی بلند کیا ہے۔ یہ تو بنیادی شرط ہے‘ مگر اس سفر میں رفتار جو بھی ہے‘ کچھ اقدامات سرکار ایسے کر سکتی ہے‘ جن سے نوجوان کھلاڑیوں کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا آسان ہو گا۔ یہ کوئی پیچیدہ سائنسی معمہ نہیں‘ مشاہدے اور تجربے کی بات ہے۔ دیگر قوموں کو دیکھیں‘ وہ کیسے بچوں کو کھیلوں کے لیے تیار کرتی ہیں۔ کھیلوں کے حوالے سے سہولیات زیادہ تر تعلیمی اداروں میں فراہم کی جاتی ہیں۔ نجی اور سرکاری کھیل کے میدان اور تربیتی مراکز اس کے علاوہ خصوصی نوعیت کے کھیلوں پر توجہ دیتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ہم نے لاکھوں ایکڑ زمین خرید کر یا قبضے میں لے کر کالونیاں بنانے اور کھرب پتی بننے کی سہولتیں سرکاری سرپرستی میں دے رکھی ہیں۔ کبھی کسی رہائشی منصوبہ بندی میں کوئی ایسی شرط رکھی گئی کہ اس میں کھیل کے میدان کتنے ہوں گے۔ وہ تو نالوں‘ پانی کے قدرتی ذخیروں اور سیلاب کے راستوں تک کو ہڑپ کر کے‘ اونچے محلات میں پُر آسائش زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ہمارے کچھ سیاسی نامور اور نوکر شاہی کے کچھ کل پُرزے ان کے اشاروں پر ناچتے رہے‘ چمک بھی تو کوئی چیز ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ آئندہ کی منصوبہ بندی میں کھیل کے میدان متناسب سبز حصے‘ درختوں کی تعداد اور گلیوں کی چوڑائی کا چھوٹے دیہاتوں سے لے کر بڑے شہروں تک میں تعین کر لیا جائے۔ بس ہماری تو یہ آرزو ہے کہ ہم سدھریں‘ مگر سرکار ہی لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کی ہم رکاب ہو جائے تو ہم جیسے پیادے خاک کے اڑتے ہوئے بادل دیکھتے رہیں گے۔ ہمارے ملک میں اچھے زمانے بھی گزرے ہیں۔ ان کی طرف ہی لوٹ جائیں اور جہاں سفر جمہوری انتقام نے ختم کیا تھا‘ وہاں سے شروع کر لیں تو بھی پیش رفت کے امکانات موجود ہیں۔ میری عمر کے دوستوں کو معلوم ہو گا کہ سرکاری سکولوں‘ کالجوں اور جامعات میں کھیلوں کے پُر جوش مقابلے ہوتے تھے۔ ہر سال سکولوں اور کالجوں میں سالانہ کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے تھے۔ سہ پہر ہوتے ہی کھیل کے میدان بھرنے شروع ہو جاتے تھے اور اندھیرا چھا جانے کے بعد ہم گھروں اور ہوسٹلوں کو واپس لوٹتے تھے۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی‘ کوئی تو ذمہ دار ہے ہمارے اس جمود کا۔ سنتے رہتے ہیں کہ اب بھی کالجوں اور جامعات میں کم از کم ڈائریکٹر سپورٹس ضرور ہوتا ہے اور اس کے ساتھ عملہ بھی۔ کبھی ان سے ان کی کارکردگی کے بارے میں کسی نے کوئی سوال اٹھایا ہے؟ صوبے اور اضلاع کی سطح پر بھی کھیلوں کے فروغ کے لیے وسیع نوکر شاہی کا جال ملک میں پھیلایا گیا ہے۔ کہاں جاتے ہیں کروڑوں کے سالانہ فنڈز؟ کوئی جواب دہ نہیں۔ آزاد ملکوں میں ایسی آزادیاں تباہی لاتی ہیں۔
ہمیں اپنی روایتی کھیلوں کی ثقافت کو بحال کرنے کے علاوہ جدید کھیلوں میں شرکت کے لیے شعور پیدا اور سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے مزاج ہی کھیل تماشے والے نہیں رہے۔ وہ اچھے زمانے یاد کریں جب ہر گائوں اور شہر کے محلوں میں کھیل کے میدان بھرے رہتے تھے۔ اب بھی ہمارے نوجوان کسی گلی‘ نکڑ یا خالی جگہ پر اپنی پسند کے کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں‘ مگر یہ تفریح زیادہ اور مقابلے بازی کی تیاری کم ہوتی ہے۔ ہر کھیل کے شعبے میں ادارے اور انجمنیں بھی قائم ہیں‘ مگر قیادت کا فقدان ہے اور نوکریوں والے چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن کے دل و دماغ میں کھیل رچے بسے ہوں‘ انہیں کناروں پر کر دیا گیا ہے۔ اصل بات احتساب‘ جواب دہی‘ ذمہ داری‘ شفافیت اور سرکاری اداروں میں معیار کی ہے۔ سرپرستی اور سفارش کا راج ہو اور ترجیحات میں مناسب ترتیب اور توجہ مرکوز نہ ہو تو کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنا دشوار رہے گا۔