کچھ ماضی کے صفحات کو کھنگال کر اپنے مستقبل کو روشن کرتے ہیں اور ہم جیسے اس کے اندر رہنے، سوچنے اور اس کی اداس یادوں کی اسیری میں آسودگی تلاش کرتے ہیں۔ زندہ، توانا اور ترقی کی جانب رواں دواں قوموں کے اکابرین‘ دانشور اور فیصلہ ساز اپنی تاریخ اور تاریخِ عالم سے محض سیاسی واقعات کا مطالعہ نہیں کرتے بلکہ افکار، فلسفوں، تحریکوں، عظیم شخصیات اور قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں سے سیکھتے بھی ہیں۔ ان میں چھپے سبق سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ ان کے لیے پرانی تہذیبیں، مذاہب، ادب اور موسیقی سے لے کر مادی وسائل کی ترقی کی سب راہوں سے شناسائی ان کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ ان کا نظام تعلیم ہی ابتدائی اداروں سے لے کر جامعات تک، دیکھا ہے کہ ایسے مرتب کیا گیا ہے کہ تہذیبوں اور تاریخ کو اساسی حیثیت میں پڑھایا جاتا ہے۔ جیسے کڑی سے کڑی ملتی ہے، اس طرح فہم و ادراک کی استواری درجہ بدرجہ رہتی ہے۔ کہنا یہ مقصود نہیں کہ مغرب‘ چین اور جاپان میں ہر سیاسی رہنما ارسطو کا فلسفی بادشاہ نہیں اور نہ ہی ہر ایک کیلئے ممکن ہے کہ سیاسی میدان سب کیلئے سمجھتا ہے، اور اس میں کامیابی کے محرکات ہر ملک اور قوم کے سماجی پس منظر میں اپنی نوعیت کے ہوتے ہیں مگر حکمران طبقہ مجموعی طور پر شعوری اور تہذیبی حوالوں سے پختہ، دیانتدار اور اپنے ملک اور عوام کی حفاظت، ترقی، امن اور خوشحالی کیلئے مخلص اور ریاضت کیش دیکھا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ قومیں جنونیت کا شکار ہو گئیں۔ قومیت پرستی کی آگ ایسی بھڑکی کہ دوسروں کو اس کی زد میں لاتے لاتے خود اس میں بھسم ہو کر رہ گئے۔ جاپان اور جرمنی نے نسل پرستی، قومی برتری اور قوموں کی ذات پات کے ایسے خود فریب نظریے ایجاد کئے کہ یہ ملک دوسروں کو کمتر گرداننے پر پختہ یقین کرنے لگے۔ نتیجہ بڑی عالمی جنگ اور خود انکی اور دوسروں کی تباہی نکلا۔ انہیں تو اتحادی ملکوں نے زبردستی تبدیلی کی راہ پر ڈال دیا اور جنگ کے بعد ان کا تانا بانا کچھ اپنے سیاسی مزاج میں رنگ دیا۔ آج جن بلندیوں پہ وہ ہیں، تاریخ سے کچھ سیکھنے اور حقیقت پسندی کی پالیسیوں کے طفیل ہیں۔
ہماری بات دوسری ہے۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں، مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش میں اسی دن پچاس برس پہلے تبدیل ہوا تھا۔ اگر کوئی تاریخی شعور ہوتا تو اس دن کو یوم انحطاط کے طور پر یاد کرتے۔ سیمیناروں، مذاکروں اور جلسوں و جلوس کا اہتمام کرتے۔ اپنے بنگالی بھائیوں کی ''بیوفائی‘‘ اور ''غداری‘‘ کے بجائے، اس دھرتی کے طاقتور حکمرانوں اور سانحہ میں ملوث افراد کے گھناؤنے کرداروں کو بے نقاب کرتے۔ یہ عہد بھی کرتے کہ ہم اس اپنے لگائے زخم سے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ اب تو ہماری امیدوں کی کیفیت وہی ہے جو چراغ شب کی آخری پہر میں ہوتی ہے۔ ایئر مارشل (ر) محمد اصغر خان مرحوم نے سچ ہی تو کہا تھا ''ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘‘۔ وہی کردار، بلکہ زیادہ حریص، کرپٹ اور مسندِ اقتدار کو حاصل کرنے اور اسے بچانے کیلئے سب کچھ کرنے اور قوم و ملک کو بیچنے کیلئے تیار۔ مشرقی پاکستان کو خانہ جنگی، فوج کشی اور جنگ میں بھی تو ایسے ہی ہمارے جرنیلی سڑک اور عوامی شاہراہ سے آنے والے حکمرانوں نے جھونکا تھا۔ آج جو آپ معیشت کی تباہی دیکھ رہے ہیں، اس کے پیچھے ایسے ہی لوگ ہیں جو پچاس سال سے ان دو راستوں سے اقتدار میں آ کر آپ کو سبق پڑھا رہے ہیں۔ اس بٹی ہوئی قوم کے عوام کو ایسی حالت میں رکھنا ہی ان کا مقصد ہے کہ شعور، تعلیم، انصاف اور قانون کی حکمرانی کی کوئی صورت یہاں پیدا ہوئی تو یہ اڑ کر ٹھنڈے ملکوں میں بھاگ جائیں گے، یا جیلوں میں ایڑیاں رگڑیں گے۔ نظام ان کا، سیاست ان کی، ریاستی اداروں پہ ان کا قبضہ‘ حکومتیں ان کی، معیشت اور عوام ان کے مفادات کے غلام، تو پھر انہیں خطرہ کس بات کا؟ ہم تو خواہ مخواہ واویلا کرتے ہیں، مگر یہ کریں کہ ہرطرف خاموشی چھاگئی تو یہ اوران کے جانشین اور مضبوط تر ہو جائیں گے۔ شاید بجھتی ہوئی شمعیں کہیں اجالے کا سامان پیدا کر دیں۔
بنگالیوں کو الگ ہوئے پچاس سال ہو چکے ہیں اور اس عرصے میں انہوں نے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پہ ڈالا ہے۔ معاشی اور سماجی طور پر آج وہ بہت بہتر ہیں۔ یہ سب ان کی محنت‘ سیاسی قیادت کے وژن اور مخلصی کا مرہون منت ہے۔ آبادی جو ایک سیلاب کی طرح ہمارے ہاں مسلسل پھیل رہی ہے‘ بنگالیوں نے اس پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، تدبر سے اور شعور سے۔ ان کی آبادی ہم سے چھ کروڑ کے قریب کم ہے۔ عورتوں اور مردوں کی تعلیم میں ان کی کارکردگی بہت بہتر ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی خاصے ہیں اور بیرونی قرضہ کم۔ ان کی برآمدت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ کہاں ہیں ہمارے حکمران ٹولے جو نسلوں سے ہمارے اوپر بادشاہت فرما رہے ہیں۔
مشرقی پاکستان کے سانحہ اور بنگلہ دیش کی ترقی میں ہمارے لیے کئی سبق ہیں، مگر کون ان پر دھیان دیتا ہے۔ چلو یہ صفحہ کالا کرنے میں کیا حرج ہے۔ اول‘ طاقت اور اقتدار جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور سیاسی اور مذہبی گدی نشینوں کے ہاتھ میں ہو تو وہی ہو گا جو آج آپ پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ بھارت نے یہ نظام شروع میں ختم کر دیا تھا۔ بنگلہ دیش میں یہ تھا ہی نہیں، جو تھا، ہم نے ہندو زمینداروں کی طاقت ختم کرنے کیلئے ایوبی دور اس کا قصہ تمام کر دیا تھا۔ آج تو زرعی اصلاحات کی بات کرنا ہی پاکستان میں بغاوت کے مترادف ہے۔ دوم‘ طاقت اگر فردِ واحد کے ہاتھ میں مذکور ہو جائے تو غرور اور اقتدار کے نشے میں وہی فیصلے صادر ہوتے ہیں، جو انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد ہوئے، اور پھر گزشتہ پچاس سال میں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی ثقافت میں مغلوں کی بادشاہی رچی بسی ہے۔ فرمان صادر ہوتے ہیں‘ اور گماشتے سر آنکھوں پہ رکھے، تاویلیں پیش کرتے، نسل در نسل غلامانہ فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔ سوم‘ آبادی کی منصوبہ بندی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہ کر سکا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ ہم جو بھی ترقی کرتے رہے، اس کو آبادی کا پھیلاؤ زائل کرتا رہا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ سبق کیا، حکمرانوں کو اس سارے معاملے میں ہوش تک نہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، وہ تو کرسی کرسی کھیلنے، جیبیں گرم کرنے اور نا جائز دولت اکٹھی کرنے کی دھن میں بد حواس ہیں۔ بنگلہ دیش اور کئی دیگر مسلم ممالک نے ہوش مندی سے کام لیا ہے، پتہ نہیں، یہ ملک کب سنبھل پائے گا۔ چہارم، بنگلہ دیش نے قانون اور انصاف کا بہتر نظام قائم کیا ہے۔ وہاں مجرم اور کرپٹ لوگوں کو‘ وہ سیاست سے ہوں یا نوکر شاہی سے، سزا ملتی ہے۔ یہاں بیس، بیس سال تک ''جرم ثابت‘‘ نہیں ہو سکتا ہے۔ آخری بات، ہم سے کم وسائل کے باوجود، بنگلہ دیش اور سری لنکا نے معیاری سرکاری تعلیم، شرح خواندگی اور عورتوں کے حقوق پر وسائل صرف کیے ہیں۔ ہماری بربادیوں کے چرچے، بغیر کسی وجہ کے تو نہیں۔