اس سیاسی دنگا فساد اور اجتماعی پریشانی کے عالم میں جہاں محاذوں سے ہر لمحہ دشمن پر ضربِ کاری لگانے کی خبریں تواتر سے آ رہی ہوں‘ تو سکون کے لیے تنہائی‘ کہیں دور جنگلوں میں قیام‘ دریائوں کے کنارے وقت گزاری یا کسی ندی نالے کے قریب بوریا بستر ڈال کر فطرت سے رشتہ جوڑنا ہی آسان راستہ ہے۔ درویش ایسے ہی تو بیابانوں میں صحرا نوردی نہیں کرتے تھے۔ سادھو اور فقیر لڑتے مرتے‘ مریض معاشروں سے کنارہ کشی کرتے تھے اور دور کہیں ویرانوں میں اپنی جھونپڑی ڈال لیتے تھے۔ جہاں بھی رہتے درس محبت‘ شفقت اور انسانیت کا دیتے۔ زخم کھا کر بھی خموشی اور صبر کی تلقین کرتے۔ رعونت‘ فخر‘ انا پرستی‘ غصے‘ دشمنی اور دوسروں کی عزتِ نفس اور شخصیتوں کو پامال کرنے سے سختی سے منع کرتے۔ آج کے مغربی اور مشرقی اہلِ علم اور مفکر دورِ جدید کی شوریدگی اور انتشار میں پھنسے ہوئے انسان کو ہوش میں رہنے اور خوشی تلاش کرنے کے لیے ایسے ہی ملے جلے نسخے بیچ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں‘ جن سے ہم آج ملک میں گزر رہے ہیں‘ مسکرانے‘ خوش رہنے‘ سر اونچا رکھنے اور جی بھر جینے کے لیے ہمیں بھی ایسے ہی حکیموں کی ضرورت ہے۔ یہ درویش اس زمرے میں تو نہیں آتا‘ مگر چونکہ مفت کے مشورے دینا ہماری قومی پہچان ہے‘ اس لیے جسارت کر رہا ہوں۔
گزرے زمانوں میں زندگی آسان تھی‘ ضروریات محدود تھیں‘ سادگی تھی اور بود و باش میں کوئی نمایاں فرق نہ تھا۔ آج کے دور نے ہمیں جبری مسابقت کی دوڑ میں لگا دیا ہے۔ سیاست ہو‘ معاشرت ہو یا معیشت ہو ہم کولہو کے بیل کی طرح جُتے ہوئے ہیں۔ ہمیں فرصت نہیں۔ اس دوڑ نے ہمارے فطری مزاج بھی بگاڑ دیئے ہیں۔ نمونے کے لیے کسی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں‘ یا ہمت ہو تو کچھ دیر ٹیلی وژن پر ہرکاروں کی فنکاریاں دیکھ لیں۔ اپنے اکابرین کی لمبی پُر مغز تقاریر اور روزانہ کئی پریس کانفرنسوں کو ہم کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں۔ تواتر سے لکھ رہا ہوں کہ یہ معمول کی جمہوری اور آئینی سیاست نہیں بلکہ سیاسی جنگ کا سا سماں ہے۔ ہم سب اسی کے نتیجے میں پریشان اور بے یقینی کی اذیت ناک کیفیت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہم تو تماشا دیکھنے والوں میں سے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس ہے ہی کیا کہ ہم سیاسی جنگ میں خوش رہنے والے جنونی حضرات کو اس زوال پذیر ریاست اور معاشرے کو مزید ضرر رسانی سے روک سکیں۔ اقتدار کی چمک‘ اور جب یہ گوہرِ مقصود ان کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح ایک ہی درخت سے گرتا‘ معاف کرنا‘ گرایا جاتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہوتا چلا آ رہا ہے۔ پسے ہوئے عوام کو زر و دولت کے پہاڑ نمایاں طور پر نظر آ رہے ہوتے ہیں‘ مگر یہ واحد ملک ہے‘ جہاں کسی کے خلاف ''ٹکے کی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی‘‘ اور نہ ہی کسی نے آج تک ''دھیلے‘‘ کی کرپشن کی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ موجودہ سیاسی جنگ نیکی اور بدی کی کشمکش ہے‘ مگرجب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب مخاصمت حد سے بڑھ جائے اور کوئی حد نہ رہے تو سیاسی حریف ایک دوسرے کو ایسے ہی دیکھتے ہیں۔
وہ ایک دوسرے کو جو کہنا چاہتے ہیں‘ انہیں کہنے دیں‘ ہم کیوں ان کی اقتدار کی جنگ کے رضا کار بنیں۔ جہاں جائیں حالاتِ حاضرہ پہ تبصرے ہو رہے ہیں۔ یہ کمزور دل درویش مذہبی اور سیاسی مکالموں سے کوسوں دور بھاگتا ہے‘ مگر جہاں بھی جائیں‘ یہ پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔ اس شور میں سکون کیسے ملے کہ ہم کہاں بھاگ کر جا سکتے ہیں۔ ہم سب نے وہیں رہنا ہے‘ جہاں رہتے ہیں۔ بھاگتے تو وہ ہیں جنہوں نے کبھی کرپشن نہیں کی اور واپس بھی آ جاتے ہیں‘ جب حالات ان کے حق میں پلٹا کھاتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست جنگی میدان بنا ہوا ہے۔ ایک ٹولہ آ کر تخت نشین ہوتا ہے‘ دوسرا اسے ہٹانے کی جمہوری جدوجہد میں مصروف میدان گرم رکھتا ہے اور جب کامیابی نصیب ہو تو اقتدار میں رہنے والے ان کی جگہ سنبھال لیتے ہیں۔ ہم تارکِ سیاست تو ہو سکتے ہیں‘ مگر تارکِ دنیا نہیں۔ ایسے وقتوں میں ہم کتاب اور موسیقی میں کھو کر باہر کے شورکو باہر ہی رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ ویسے ساری مغربی اور مشرقی دنیا‘ جہاں جینے کا کچھ شعور ہے‘ سیاسی بکھیڑوں سے دور رہتی ہے۔ دیگر ممالک میں ہر نوع کے ثقافتی رنگ ہر موسم میں اپنی بہار جمائے رکھتے ہیں۔ کھیل تماشے عام ہیں۔ شامیں دن کی تلخیوں کو دل و دماغ سے محو کر دیتی ہیں‘ اور ہر صبح نئی ہوتی ہے‘ کل کے دن کا کوئی بوجھ سوار نہیں رہتا۔
ہمارے بھی اپنے ثقافتی رنگ ہیں مگر ہم نے سیاست کے گرد و غبار میں انہیں کھو دیا ہے۔ یاد ہو گا‘ گزشتہ سال ایک کالم ''محبت کرنے والے‘‘ کے عنوان سے عروج آفتاب کی گائی حفیظ ہوشیار پوری کی غزل پر لکھا تھا۔ اگر آپ نے یہ غزل‘ جو بے شمار فنکاروں اور موسیقی کے استادوں نے گائی ہے‘ نہیں سنی تو پھر مجھے اتنی اجازت ضرور دیں کہ میں یا کوئی اور دوست آپ کو بے ذوقی کا طعنہ دے سکے۔ اسی غزل پر موسیقی کے اعلیٰ ترین گریمی ایوارڈ سے انہیں نوازا گیا ہے۔ یہ پہلی پاکستانی ہیں جن کے فن کو عالمی سطح پر ایک ایسے ادارے نے سراہا ہے جس سے آگے اور بڑھ کر کوئی اور اعزاز فی الحال نہیں ہے۔ چند ماہ پہلے جب ان کا نام بھی نامزد فہرست میں شامل ہوا تھا تو دل میں یقین کی سی کیفیت پیدا ہو چکی تھی کہ عروج آفتاب کو گریمی ایوارڈ ضرور ملے گا۔ بالکل مختلف انداز میں گایا ہے۔ فریدہ خانم اور دوسروں کا انداز‘ دھن اور راگ ایک جیسا ہے۔ یہ غزل ہو یا دوسری‘ عروج آفتاب نے یکسانیت کو توڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ہماری روایتی کلاسیکی موسیقی اور امریکی جاز (Jazz) اور نئے آلات کی خوبصورت آمیزش کی ہے۔ مجھے صوفیانہ موسیقی کا گہرا اثر اور رنگ ان کی ہر غزل میں نکھرا نظرآتا ہے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو عروج آفتاب کے اس اعزاز پر ہر جگہ جشن منعقد ہوتے‘ ذرائع ابلاغ کو اس موسیقی پر تبصروں سے فرصت نہ ملتی۔ میں نے ابھی تک کسی ٹیلی وژن چینل پر کوئی پروگرام ان کے بارے میں نہیں دیکھا‘ مگر ہو سکتا ہے یہ میری کم علمی ہو کہ میں اپنی شامیں اس طرح ضائع نہیں کرتا۔
ہم موسیقی میں دل لگا کر باہر کے شور کو در اندازی کی اجازت نہیں دیتے‘ بس اسی میں کھوئے رہتے ہیں۔ یہ ایسا لگائو ہے‘ جس کے لیے آپ کو کسی تردد اور تکلیف کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ کے پاس اعلیٰ معیار کا میوزک سسٹم نہیں تو آپ کا فون اور ایک سپیکر ہی کافی ہے۔ گھر کے کسی کونے میں‘ باہر دالان میں یا خوش قسمت ہیں تو باغیچے میں میز کرسی ڈال کر آپ سیاسی جنگ کے شور سے بچ سکتے ہیں۔ سپیکر وہ ہو جس کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ یا وہ جن کا ذکر خبروں میں ہے‘ بس کمال کی چیز ہیں۔ کمال کرتے ہیں اور کمال دکھاتے ہیں۔ ایک نے تو آئینی اور غیر آئینی کی بحث میں الجھا دیا ہے اور سیاسی آگ میں تیل کا پورا کنواں انڈیل دیا ہے۔ ہمارے سپیکر نے ہمیں دھنوں میں مست کیا ہوا ہے۔