ہماری ثقافت کے کئی زاویے‘ کئی رنگ اور مختلف علاقائی روایات ہیں‘ مگر تہذیبی اور مذہبی لحاظ سے بے شمار قدریں مشترک بھی ہیں۔ کسی بھی ملک کے ثقافتی دھارے تاریخ‘ زمین‘ عقائد اور رسوم و رواج سے اپنی شکل بناتے ہیں۔ اگرچہ وقت‘ جدت کی آمیزش‘ ترقی اور مادی عناصر کے زور سے بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے‘ مگر وہ ایک دو نسلوں میں زیادہ محسوس نہیں ہوتا۔ ہماری عمر کے لوگ‘ جو کئی دہائیوں کی بہاریں‘ گرمیاں‘ سردیاں اور سب رونقیں دیکھ چکے ہوتے ہیں‘ ماضی اور حال کے رہن سہن کا موازنہ کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔ ہماری انسانی کمزوریاں تو ان گنت ہیں‘ مگر ان میں ایک ہم سب میں مشترک وہ گزرا ہوا زمانہ ہے‘ جو ہمارے سفر میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ نفسیاتی اور معاشرتی علوم ہمیں بتاتے ہیں کہ جوں جوں ہم بیشتر مراحل طے کرنے کے بعد اپنے اپنے گھونسلوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں‘ بہت کچھ یاد آتا رہتا ہے۔ جب بھی طویل فرصت اور تنہائی‘ نصیب ہوتی ہیں‘ ذہن ان زمانوں کی طرف تمام قیود اور حدود کو پھلانگ کر وہاں پناہ تلاش کرتا ہے‘ جن کے اب دوبارہ آنے کی توقع نہیں۔ ذہن بھی کیا چیز ہے‘ حافظہ اور تجربات کے گہرے نقوش بھی‘ کہ ہم کسی گھنے درخت کی چھائوں‘ پھولوں کی کیاری کے قریب‘ چشمے‘ ندی‘ دریا یا تالاب کے کنارے اپنی دنیا بسا کر اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کہ کیا سوچ رہے ہیں‘ تو جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں۔ یقین کریں‘ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گہری نیند اور خواب سے جھنجھوڑکر جگا دیا گیا ہو۔ ہم سب ایسی کیفیتوں میں ہمیشہ نہیں تو کبھی کبھار ضرور رہتے ہیں۔ شاید آپ کے تجربات درویش سے مختلف ہوں‘ کچھ کہہ نہیں سکتا۔
عیدین کے تہوار کے دن اب اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں جنگلی جھونپڑے میں گزرتے ہیں۔ زمانوں کے واقعات‘ بچھڑے ہوئے دوست‘ احباب اور انتہائی قریبی پیاروں کی یادیں ایک سیلاب کی مانند امڈ آتی ہیں۔ ایک احساسِ محرومی بھی حملہ آور ہوتا ہے کہ کچھ وقت ان کے اور قریب رہ سکتے۔ غفلت‘ دنیوی کاموں کی خواہ مخواہ کی مصروفیات‘ پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے تقاضے احساسِ گناہ کے کوڑے برساتے ہیں‘ مگر ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ ہم انسان کئی کمزوریوں کے ساتھ جینے کی قید میں رہتے ہیں۔ اس لیے ماضی کی کوتاہیوں کا بوجھ کبھی ذہن میں نہیں لانا چاہئے۔ جو بھی گزرا‘ اچھا تھا‘ اور جو بھی کل ہو گا‘ اچھا ہی ہو گا۔ بشری تقاضوں سے کسی کو انکار ہو سکتا ہے۔ اچھا ہونے اور بننے‘ اپنے معیار اور مزاج کے مطابق‘ کی کوشش میں ہم سب رہتے ہیں۔ میرے نزدیک ہم سب انسان ایک جیسے‘ پیچیدہ‘ متضاد تقاضوں کے اسیر‘ خواہشوں کے غلام‘ مفادات کی لڑائیوں میں الجھے اور اپنی اپنی کشتیوں کے ملاح ہیں۔ اس لیے خود ملامتی اور ندامت کو ماضی کے گرد و غبار میں ہی دفن کر دینا لازم ہے۔ صرف اور صرف خوشگوار چہروں‘ محبتوں‘ پیار اور رشتوں کی یادوں کو خلوت کی رونق بنانے کا گُر سیکھنا چاہئے۔ جس نے زندگی کا یہ راز پا لیا‘ وہی خوش رہ سکتا ہے۔ ماضی کے بوجھ تلے رہنے اور تلخیوں کو اپنے اوپر سوار کئے‘ اکثر لوگوں کو مایوس‘ پریشان‘ دکھی اور آزردہ حال دیکھا ہے۔
ان دنوں اور ہمیشہ قریبیوں کی شفقتیں‘ مہربانیاں‘ ایثار اور بے لوث محبتیں یادآتی ہیں۔ دل کی گہرائیوں سے شکر کی آرزو اور ان کے لیے دعائوں کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں۔ اپنی خوش قسمتی پہ ناز ہوتا ہے کہ قدرت نے کن ہاتھوں میں ہماری تربیت کا انتظام کیا‘ کن کی قربت اور ہمراہی نصیب ہوئی‘ اور کیسے کیسے لوگوں نے ہماری زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرے۔ میں وثوق سے کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ آپ کا مشاہدہ ہرگز مختلف نہ ہو گا۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ کن روشن یا تاریک گوشوں کو اپنے دھیان اور یادوں کا حصہ بناتے ہیں۔ عید کے دن نہایت ہی خوش کن مناظر دیکھے کہ اس سے پہلے سن تو رکھا تھا‘ مگر چشمِ ویراں کے احاطے میں نہیں آئے تھے۔ چاند رات کسی واقف سے عمر کے ساتھی کے وصال کا پیغام ملا اور عید کے دن جنازے کے وقت کے تعین کا بھی۔ ایسے دن اسلام آباد کے کسی قبرستان میں جانے کا پہلا موقع تھا۔ حیرانی ہوئی کہ ہزاروں کی تعداد میں خاندان بچوں کو ساتھ لیے اور پھول ہاتھوں میں پکڑے اپنے پیاروں کی قبروں کی طرف اس جلدی سے حرکت کر رہے تھے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے‘ اور شاید ان کو آنے کا بہت انتظار ہو۔ گاڑیوں‘ ویگنوں اور کاروں کا اتنا رش تھا کہ تقریباً ایک فرلانگ دور سڑک کے کنارے محدود جگہ ملی۔ جنازے سے فرصت ملی‘ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک میلے کا سا سماں سامنے تھا۔ میرے دل میں احساسِ محرومی نے زبردست گھائو لگایا۔ ہمارے آبائی علاقوں کے لوگ عیدین کے بجائے محرم کے دنوں میں اپنے بزرگوں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ میرے لیے تو بالکل نیا تجربہ تھا۔ بہت خوشی ہوئی کہ لوگ اپنی اچھی روایات کو نسل در نسل زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی یادوں سے سینے ٹھنڈے ہوتے ہیں‘ مسرت ایسی کہ بس ہمیشہ جسم و روح میں رچ بس جاتی ہے۔ خوش قسمت لوگوں کے جمگھٹے میں بہت سی اس ترستے خاکی بدن میں پھیلتی خوش بو کی طرح در آتی‘ جس کا سرور کئی دن گزر جانے کے بعد بھی محسوس کر رہا ہوں۔
بات سوچ ‘ زاویہ نگاہ اور بہت کچھ شعورِ زندگی کی ہے۔ بالیدگی سب میں برابر تقسیم نہیں۔ علم کی محتاج ہے اور یہ دولت جس کو مل جائے‘ سمجھیں کہ کسی اور شے کی ضرورت ہی نہیں ۔ تہہ درتہہ پردہ در پردہ اور گرہ در گرہ کی صورت آگہی ملتی رہتی ہے‘ بشرطیکہ بندہ اپنے آپ کو کھوج کی لذت سے محروم نہ کر لے۔ بات تو گزرے ہوئے وقت کی ہو رہی ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ علم کا قصہ کہاں سے آ گیا۔ آپ کل‘ آج اور آنے والے وقت کو کیسے دیکھتے ہیں‘ اس کا تعلق آپ کے فلسفۂ حیات سے ہے۔ سب لوگ اسے نہ بیان کر سکتے ہیں‘ نہ ہی اس کی تشریح کرنا کسی کے لیے ضروری ہے۔ ہم اپنی آنکھوں کی طرح اندر کی بینائی سے بھی دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہماری وہ دیکھنے اور پرکھنے والی آنکھ بند ہو چکی ہے یا کھلی ہے‘ کمزور ہے یا تیز۔ شکایاتِ زمانہ کی رنگ دار عینک لگائے بغیر بھی وہ پُر مسرت لمحات ‘ وہ گھڑیاں‘ وہ وقت جو ہمارے لیے سب سے اچھا تھا‘ ''یادوں کی برات‘‘ کا سماں پیدا کر سکتے ہیں۔ حضرتِ جوش صاحب کی تصنیف کا کیا خوب صورت عنوان ہے۔ جتنا سوچتا ہوں‘ اتنا ہی اپنی یادیں‘ ایک نہیں کئی براتیں اپنے ساتھ لاتی ہیں۔ ہم سب اپنے سفر کا بوجھ بہت ہلکا کر سکتے ہیں‘ اگر ماضی کے بوجھ کو اتار دیں۔ شرمندگیاں‘ ندامتیں‘ افسوسِ زیاں‘ یہ نہ کیا‘ وہ کیوں کیا‘ اپنی عقل پر تالا لگانے کے مترادف ہے۔ جینے کا سلیقہ خوش رہنے میں ہے۔ ہر حال میں‘ ہر وقت ‘ آج اور کل۔ دنیا کا بوجھ ہو یا وہ وقت جو کبھی مشکل تھا‘ ہم سینکڑوں میل زمین کے اندر دفن کر چکے۔ ہماری یادیں‘ رشتے‘ تعلق اور وہ جو ہم میں نہیں رہے‘ اب بھی جب گردن جھکا کر بیٹھتے ہیں‘ ساتھ ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ یونہی باتیں اور ملاقاتیں ہوتی ہیں۔